سورة واقعہ کی فضیلت
سوال: یہ روایت مشہور ہے کہ رات کو سورۃ واقعہ پڑھنے سے فقر نہیں آتا، لیکن اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں ہے… اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ سورۃ واقعہ کے متعلق روایات میں سند کے لحاظ سے ضعف موجود ہے جس کی بنا پر ان روایات پر بعض محدثین نے ضعف شدید اور بعض نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے، لیکن اگر تمام طرق روایات کو دیکھا جائے تو اس روایت کو سند کے لحاظ سے ضعیف تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس پر وضع کا حکم لگانا درست نہ ہوگا.
سورۃ واقعہ کے بارے میں مختلف روایات:
پہلی روایت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مرض وفات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انکی عیادت کی اور ان سے پوچھا کہ کیا تکلیف ہے؟ تو فرمایا کہ اپنے گناہوں کی تکلیف ہے، پوچھا: کس چیز کی چاہت ہے؟ فرمایا: اللہ تعالٰی کی رحمت کی، پوچھا: کسی طبیب کو بلا لاؤں؟ فرمایا کہ اسی نے بیمار کیا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کچھ مال دیدوں؟ فرمایا مجھے ضرورت نہیں، حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کی بچیوں کیلئے، فرمایا کہ ان کو فقر کا خطرہ نہیں، کیونکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص ہر رات کو سورۃ واقعہ پڑھےگا اسکو کبھی فاقہ نہیں آئےگا.
مرض عبدالله بن مسعود فعاده عثمان، فقال له: ما تشتكي؟ فقال: ذنوبي، قال: ما تشتهي؟ قال: رحمة ربي، قال: ألا أدعو لك الطبيب؟ قال: الطبيب أمرضني، قال: ألا آمر لك بعطاء؟ قال: لا حاجة لي فيه، قال: يكون لبناتك، قال: أتخشى على بناتي الفقر وقد أمرت بناتي لأن يقرأن في كل ليلة سورة الواقعة؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “من قرأ سورة الواقعة في كل ليلة لم تصبه فاقة أبدا”.
روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو ابن حجر رحمه اللہ نے “غریب” قرار دیا ہے اور ایک جگہ “ضعیف جدا” قرار دیا ہے.
– ابن حجر العسقلاني.
– المصدر: الفتوحات الربانية.
– الصفحة أو الرقم: 3/279.
– خلاصة حكم المحدث: غريب.
علامہ زیلعی رحمه اللہ نے اس سند کو جید قرار دیا ہے.
“من قرأ سورة الواقعة كل ليلة لم تصبه فاقة أبدا، وقد أمرت بناتي أن يقرأنها كل ليلة”.
– الراوي: عبدالله بن مسعود.
– المحدث: الزيلعي.
– المصدر: تخريج الكشاف.
– الصفحة أو الرقم: 3/412.
– خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد.
ابویعلی، ابن مردویہ اور بیہقی نے بھی اس کو سند ضعیف سے نقل کیا ہے.
ورد في ذلك ما رواه أبويعلى وابن مردويه والبيهقي في ”الشعب” عن ابن مسعود رضی اللہ عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”من قرأ سورة الواقعة كل ليلة لم تصبه فاقة أبدًا”. (وانظر ”تفسير القرآن العظيم” لابن كثير: 4/383)
ابن عساكر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ضعیف سند سے اس کی فضیلت نقل کی ہے.
وكذا أخرج ابن عساكر عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
علامہ عراقی نے بھی اس روایت کو ضعیف سند سے نقل کیا.
“مَنْ قرأَ سورةَ الوَاقِعَةِ في كلِّ ليلةٍ لمْ تُصِبْهُ فَاقَةٌ أبدًا”.
– الراوي: عبدالله بن مسعود.
– المحدث: العراقي.
– المصدر: تخريج الإحياء.
– الجزء أو الصفحة: 1/450.
– حكم المحدث: إسناده ضعيف.
علامہ البانی نے بھی اس کو سند ضعیف سے نقل کیا ہے.
١- “علِّمُوا نساءَكُم سورَةَ الواقِعَةِ، فإِنَّها سورَةُ الغِنَى”.
– الراوي: نهيك بن صريم السكوني.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: ضعيف الجامع.
– الصفحة أو الرقم: 3730.
– خلاصة حكم المحدث: ضعيف.
٢- “علِّمُوا نساءَكم سورةَ الواقعة، فإنها سورةُ الغِنَى”.
– الراوي: أنس بن مالك.
– المحدث: الألباني.
– المصدر: السلسلة الضعيفة.
– الصفحة أو الرقم: 3880.
– خلاصة حكم المحدث: ضعيف.
ان روایات پر اعتراض کی وجوہات:
١. امام دارقطنی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں انقطاع ہے.
١- أحدها الانقطاع، كما بينه الدارقطني وغيره.
٢. اس کا متن منکر ہے.
٢- نكارة متنه، كما ذكره أحمد.
٣. اس کی سند میں ضعف ہے.
٣- ضعف رواته، كما قاله ابن الجوزي.
٤. اس کی سند میں اضطراب ہے.
٤- اضطرابه.
اکثر محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے.
وقد أجمع على ضعفه أحمد، وأبوحاتم، وابنه، والدارقطني، والبيهقي،وغيرهم (6/213).
اعتراضات کے جوابات:
اعتراض نمبر١:
یہ سند منقطع ہے.
جواب: یہ روایت متصل سند سے بھی منقول ہے
اس روایت کو ابویعلی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے.
عن اسحاق بن إبراهيم عن محمد بن منيب العدني عن السري بن يحيی عن شجاع عن أبي ظبية عن ابن مسعود.
اسی سند سے ابن سنی نے عمل اليوم واللیلة میں نقل کیا ہے اور اس کو “جید السند والمتن” کہا گیا.
اعتراض نمبر٢:
اس کا متن غریب اور منکر ہے.
جواب: یہ روایات تین صحابہ کرام سے مختلف الفاظ سے منقول ہیں، لہذا اس پر نکارت اور غریب کا حکم لگانا درست معلوم نہیں ہوتا.
اعتراض نمبر٣:
ان روایات میں ضعف ہے.
جواب: اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن دیگر طرق کے مل جانے سے یہ ضعف کم ہوجاتا ہے، اسی لئے علامہ البانی جیسے متشدد شخصیت نے بھی اس کے تمام طرق کو موضوع قرار نہیں دیا بلکہ ضعیف کہا ہے، لہذا ان شواہد کی وجہ سے اس کا ضعف قابل عمل درجے کا ہوگیا ہے.
اعتراض نمبر٤:
اس سند میں اضطراب ہے.
جواب: اس روایت میں اضطراب کی وجوہات چند راویوں کے بارے میں محدثین کے مختلف اقوال ہیں:
شجاع یا أبوشجاع:
اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ راوی شجاع ہے یا أبوشجاع ہے؟
ابن ابی حاتم نے اس کو متعین کرکے فرمایا کہ یہ أبوشجاع ہے اور اس کا نام سعید بن یزید القبتانی البصري ہے اور یہ صحیح مسلم، ابوداؤد اور ترمذی کا راوی ہے.
ابوطیبہ یا ابوفاطمہ یا ابوظبیہ:
اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ أبوطیبہ ہے یا أبوفاطمہ ہے یا ابوظبیہ ہے؟ دارقطنی، ابن ابی حاتم اور ثعلبة کہتے ہیں کہ یہ أبوطیبہ ہے، اس کا نام عیسی بن سلیمان الدارمی الجرجانی ہے. جبکہ بیہقی نے اس کو مجہول قرار دیا ہے.
أبوطیبہ پر محدثین کا کلام:
ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے.
ابن عدی کہتے ہیں: کان رجلا صالحا له مناکیر، ولا أظن انه یتعمد الكذب ولکن لعله کان یشبه علیه فیغلط.
ابن ابی حاتم نے نہ جرح کی نہ تعدیل.
ابوحاتم کہتے ہیں: یکتب حدیثه.
امام مالک نے اس سے روایات نقل کی ہیں. (تہذیب الکمال، معجم آسامی الرواۃ).
بعض محدثین نے اس کو أبوطیبہ الکلاعی قرار دیا ہے، یہ قول ابن قطان اور أبونعیم بن حداد کا ہے، اور الکلاعی تابعی ہیں جو مقداد بن اسود سے روایات نقل کرتے ہیں.
أبوحاتم کہتے ہیں کہ ابوظبیہ ہی عیسی بن سلیمان بن دینار ہے.
خلاصہ کلام
فضائل کے باب میں ضعیف روایات پر عمل کرنے کا معمول شروع زمانے سے چلتا ہوا آرہا ہے بشرطیکہ وہ روایت موضوع یا انتہائی ضعیف نہ ہو. سورۃ واقعہ کے فضائل والی روایات ضعیف ضرور ہیں لیکن ان کو ناقابل اعتبار کہنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ