زکام کا علاج نہ کرنا
سوال: ایک روایت آج کل کافی مشہور ہورہی ہے کہ زکام کا علاج نہ کرو کیونکہ یہ جذام سے بچانے کا سبب ہے. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
مذکورہ روایت بہت ساری کتابوں میں منقول ہے، البتہ سب سے پہلے اس کو امام حاکم نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے.
“ما من أحد إلا وفي رأسه عرق من الجذام تنعر، فإذا هاج سلط الله عليه الزكام فلا تداووا له”.
– أخرجه الحاكم (4/411) وكذا القاسم السرقسطي في “غريب الحديث” (2/154/1) من طريق محمد بن يونس القرشي حدثنا بشر بن حجر السلمي، حدثنا فضيل بن عياض عن ليث عن مجاهد عن ابن عباس عن عائشة مرفوعا، وسكت عليه الحاكم.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو اگرچہ امام حاکم نے نقل کیا ہے، لیکن ان کے بعد کے محدثین نے اس روایت کی سند پر شدید کلام کیا ہے.
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں کدیمی پر جھوٹ کی تہمت لگی ہے.
وتعقبه الذهبي بقوله: قلت: كأنه موضوع؛ فالكديمي متهم.
ابن جوزی نے بھی اس روایت کو غیر صحیح قرار دیا ہے.
قلت: وقد أورده ابن الجوزي في “الموضوعات” (3/205) بإسناده إلى الكديمي به، ثم قال: لا يصح، محمد بن يونس هو الكديمي، يضع الحديث.
امام سیوطی نے اس روایت کو اور اس پر امام ذہبی کے قول کو اپنی کتاب اللآلی المصنوعہ میں اسی طرح ذکر کیا ہے.
وأقره السيوطي في “اللآليء” (2/402): فإنه لم يتعقبه بشيء إلا أنه ذكر أن الحاكم أخرجه وأن الذهبي تعقبه بما سبق.
محمد بن یونس بن سلیمان القرشی الکدیمی:
اس راوی کے بارے میں اگرچہ کچھ محدثین کی رائے نرم ہے، لیکن اکثر نقاد حدیث نے اس پر شدید کلام کیا ہے:
١. دارقطنی رحمه اللہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس کے بارے میں اچھی رائے قائم کی ہے ان کو اس کی اصلیت کا علم نہ تھا.
قال الدارقطني: من حسن فيه القول لم يختبر حاله.
٢. ابن عدی کہتے ہیں کہ اس پر روایات گھڑنے کا الزام ہے اور عام محدثین نے اس کی روایات بیان کرنے سے منع فرمایا ہے.
قال ابن عدي: اتهم الكديمي بوضع الحديث ورقته، وامتنع عامة مشايخنا عن الرواية عنه. (إكمال تهذيب الكمال).
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑ کر ثقہ لوگوں کی طرف منسوب کرتا تھا، اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں.
قال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات؛ وقد وضع أكثر من ألف حديث. (إكمال تهذيب الكمال).
٤. امام ابوداؤد اس کے بارے میں واضح طور پر جھوٹے ہونے کا الزام لگاتے تھے.
كان ابوداؤد يطلق فيه وفي محمد بن سنان الكذب. (تذهيب تهذيب الكمال).
٥. موسی بن ہارون لوگوں کو اس کی روایات سے منع فرمایا کرتے تھے.
كان موسى بن هارون ينهي الناس عن السماع من الكديمي. (تذهيب تهذيب الكمال).
● اس روایت کی دوسری سند کو دیلمی نے مسند فردوس میں ذکر کیا ہے لیکن اس میں بھی انتہائی کمزور راوی موجود ہیں.
وأخرجه الديلمي (4/22) من طريق ابن لال: حدثنا محمد بن أحمد بن منصور حدثنا الحسين بن يوسف الفحام بمصر حدثنا محمد بن سحنون التنوخي حدثنا محمد بن بشر المصري حدثنا أبومعاوية الضرير عن الأعمش عن زيد بن وهب عن جرير بن عبدالله رفعه.
اس سند کی کمزوری کی وجہ الحسین بن یوسف الفحام ہے.
١. اس کے بارے میں ابن عساکر نے فرمایا کہ یہ مجہول ہے.
انه الحسين بن يوسف الذي قال ابن عساكر: مجهول.
٢. امام ذہبی اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ باطل روایت نقل کرنے والا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون ہے.
قال الذهبي: روى عن أبي حفص الفلاس خبرا باطلا في لعن الرافضة والجهمية، لا يدرى من هو وكذلك الراوي عنه.
خلاصہ کلام
اس روایت کی دونوں اسناد پر محدثین کے شدید کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت شدید ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار روایت نہیں ہے، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ