حضرت ابوبکرؓ کی نیکیاں
سوال: ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آرام فرما رہی تھیں، آسمان پر ستارے چمک رہے تھے تو دل میں خیال آیا کہ آسمان کے ستاروں کے برابر بھی کسی کی نیکیاں ہونگی؟ یہ سوال جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں عُمرؓ کی ہونگی، یہ سن کر حضرت عائشہؓ خاموش ہوگئیں، تھوڑی دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم سوچ رہی ہوگی کہ تمہارے والد کا نام نہیں لیا؟ کہنے لگیں: جی بالکل یہی سوچ رہی تھی، تو فرمایا: اُنکی بات کیا سوچتی ہو، اُنکی تو غارِ ثور میں گذری ہوئی ایک رات کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں. (خُطباتِ ذوالفقار: ٩/٦٩) .اس کی تحقیق فرمادیں.
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور الفاظ کی روایت باوجود تلاش کے ہمیں نہیں مل سکی، البتہ اس کے قریب کا مضمون کچھ روایات میں مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے.
١. عمر کی زندگی بھر کے اعمال ابوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں.
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: بينا رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجري في ليلة ضاحية إذ قلت: يارسول الله! هل يكون لأحد من الحسنات عدد نجوم السماء؟ قال: “نعم، عمر”، قلت: فأين حسنات أبي بكر؟ قال: *”إنما جميع حسنات عمر كحسنة واحدة من حسنات أبي بكر”.
٢. عمر تمہارے والد ہی کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے.
أَخبرنا أَبُومَنصُور القَزازُ، قال: أَخبرنا أَبُوبَكرٍ أَحمد بن عَلِي، قال: حَدَّثنا الحُسَينُ بن مُحَمد أَخُوالخَلالِ، قال: حَدَّثَنِي أَبُوالقاسِمِ بُرَيهُ بن مُحَمد بنِ بُرَيدٍ البَغدادِيُّ، قال: حَدَّثنا إِسماعِيلُ بن مُحَمد الصَّفارُ، قال: حَدَّثنا أَحمد بن مَنصُور الرَّمادِيُّ، قال: أَخبرنا عَبدالرَّزاقِ، قال: أَخبرنا مَعمَرٌ، عَن الزُّهرِيِّ، عَن هِشامِ بنِ عُروَةَ، عَن أَبِيه، عَن عائِشَةَ، قالت: «كانت لَيلَتِي مِن رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم، فَلَما ضَمَّنِي وإِياهُ الفِراشُ نَظَرتُ إِلَى السَّماءِ فَرَأَيتُ النُّجُومَ مُشتَبِكَةً، فَقُلتُ: يارَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم! ھل یوجد فِي هَذِهِ الدُّنيا رَجُلٌ لَهُ حَسَناتٌ بِعَدَدِ نُجُومِ السَّماءِ؟ فَقال: نَعَم، قُلتُ: مَن؟ قال عُمر، وإِنَّهُ لَحَسَنَةٌ مِن حَسَناتِ أَبِيكِ».
ان روایات کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں ایک راوی” بُریة بن محمد بن برید البغدادی” ہے، اس کے بارے میں محدثین کی رائے اور اقوال کافی سخت ہیں:
١. خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ اس کی روایات باطل من گھڑت ہوتی ہیں.
قال الخَطِيبُ: لَهُ أحاديث باطِلَةٌ مَوضُوعَةٌ مُنكَرَةُ المُتُونِ جِدًّا.
٢. میزان الاعتدال میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ جھوٹا راوی ہے.
بريه بن محمد عن إسماعيل الصفار: كذاب مدبر هو واضع حديث: يارسول الله! هل رجل له حسنات بعدد النجوم؟ قال: نعم عمر وهو حسنة من حسنات أبيك ياعائشة!…. فذكره بإسناد الصحيحين، عن إسماعيل الصفار.
ثم قال الخطيب: وفي كتابه بهذا الإسناد عدة أحاديث منكرة المتون جدا.
● دوسری روایت حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی سند سے ہے، اس میں یہ مضمون ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے.
أَنبَأَنا عَلِيُّ بن عُبَيدالله، قال: أَخبرنا عَلِيُّ بن أَحمد البُندارُ، قال: أَنبأنا أَبُوعَبدِالله بنِ بَطَّةَ، قال: حَدَّثنا أَبُوعَلِي إِسماعِيلُ بن مُحَمد الصَّفارُ، قال: حَدَّثنا الحَسن بن عَرَفَةَ، قال: حَدَّثنا الوَلِيدُ بن الفَضلِ الغُبَرِيُّ، قال: حَدَّثَنِي إِسماعِيلُ بن عُبَيد بنِ نافِعٍ البَصرِيُّ، عَن حَمادِ بنِ أَبِي سُلَيمانَ، عَن إِبراهِيم النَّخَعِيِّ، عَن عَلقَمَةَ، عَن عَمارِ بنِ ياسِرٍ، قال: قال رَسول الله صلى الله عليه وسلم: «أَتانِي جِبرِيلُ آنِفًا، فَقُلتُ: يا جِبرِيلُ! حَدِّثنِي بِفَضائِلِ عُمر فِي السَّماءِ؟ فَقال: يا مُحَمد! لَو حَدَّثتُكَ بِفَضائِلِ عُمر فِي السَّماءِ مِثلَ ما لَبِثَ نُوحٌ فِي قَومِهِ أَلفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمسِينَ عامًا ما نَفِدَت فَضائِلُ عُمر، وإِنَّ عُمر لَحَسَنَةٌ مِن حَسَناتِ أَبِي بَكرٍ».
[هذا الحديث يرويه الطبراني في “المعجم الأوسط” (2/158)، وأبويعلى في “المسند” (3/179)].
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس سند میں دو راوی متکلم فیه ہیں:
١. ولید بن الفضل العنزی:
اس کے بارے میں محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں.
ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ اہل عراق سے منکر اور موضوع روایات نقل کرتا ہے.
قال ابن حبان في “المجروحين” (3/82) في ترجمته: شيخ، يروي عن عبدالله بن إدريس وأهل العراق المناكير التي لا يشك من تبحر في هذه الصناعة أنها موضوعة، لا يجوز الاحتجاج به بحال إذا انفرد.
٢. اسماعیل بن عبید العجلی:
یہ بھی ضعیف راوی ہے.
وفيه أيضا: إسماعيل بن عبيد العجلي البصري، ضعيف (كمافي ميزانالاعتدال:1/238)
اس روایت کا حکم:
١. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ روایت باطل من گھڑت ہے.
قال أبوحاتم: هذا حديث باطل موضوع، اضرب عليه. (العلل:2/385).
٢. امام أحمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اسماعیل کو میں نہیں جانتا اور یہ روایت موضوع ہے.
وقال الإمام أحمد: لا أعرف إسماعيل بن نافع، هذا حديث موضوع. (“المنتخب من العلل” للخلال، ص:108).
٣. اس روایت پر امام ابن جوزی، ابن قیم اور ذہبی نے موضوع کا حکم لگایا ہے.
وحكم عليه بالوضع ابن الجوزي في “الموضوعات” (1/321)،
وابن القيم في “المنار المنيف” (ص:115)،
والذهبي في “ميزان الاعتدال” (1/238).
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور مضمون تو باوجود تلاش کے نہ مل سکا، البتہ اس کے قریب کے مضمون کی کچھ روایات ملی ہیں لیکن وہ بھی سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس مضمون کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب نہ کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ