تیس سال کا مسافر
سوال: ایک قصہ کافی مشہور ہے کہ تابعین کے دور میں ایک شخص تیس سال اللہ کے راستے میں نکلا رہا اور جب واپس آیا تو اس کا بیٹا مدینے کا سب سے بڑا عالم تھا. اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے جیسے:
• خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد.
• تاریخ ابن خلکان.
• امام ذہبی کی تاریخ الاسلام وطبقات المشاہیر والاعلام.
امام ذہبی نے اپنی تاریخ میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کیا ہے
بنو امیہ کے دور میں فروخ نامی ایک شخص جہاد کیلئے نکلے اور اپنی بیوی کے پاس تیس ہزار دینار چھوڑے اور جب ستائیس سال کے بعد مدینہ لوٹے اور اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ان کا جوان بیٹا ربیعہ نکلا جو کہ اس قدر سخت کھٹکھٹانے پر ناراض ہوا، دوسری طرف فروخ ایک جوان کے اپنے گھر سے نکلنے پر ناراض تھے، دونوں میں تکرار بڑھنے لگی اور لوگ جمع ہونے لگے، اتنے میں امام مالک آئے تو سب خاموش ہوگئے، امام مالک نے فروخ سے کہا کہ آپ شاید اپنا گھر بھول گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ نہیں! یہی میرا گھر ہے اور میں فروخ ہوں، ان کی بیوی نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگیں کہ یہ میرا شوہر ہے، اور شوہر سے کہا کہ یہ آپ کا بیٹا ہے….. الی آخرہ
وقال الذهبي في كتابه “تاريخ الإسلام وطبقات المشاهير والأعلام”:
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَرْوَانَ الدينَوَريّ (صَاحِبُ الْمُجَالَسَةِ) وقد تكلّم فيه: ثنا يحيى ابن أَبِي طَالِبٍ ثنا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَشْيَخَةُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنَّ فَرُّوخًا وَالِد رَبِيعَةَ خَرَجَ فِي الْبُعُوثِ إِلَى خُرَاسَانَ أَيَّامَ بَنِي أُمَيَّةَ غَازِيًا وَرَبِيعَةُ حَمْلٌ فَخَلَفَ عِنْدَ الزَّوْجَةِ ثَلاثِينَ أَلْفَ دِينَارٍ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً فَنَزَلَ عَنْ فرسه ثم دفع الباب برمحه فخرج ربيعة، فَقَالَ: يَا عَدُوَّ الله! أَتَهْجُمْ عَلَى مَنْزِلِي؟ وَقَالَ فَرُّوخُ: يَا عَدُوَّ الله! أَنْتَ رَجُلٌ دَخَلْتَ عَلَى حُرْمَتِي، فَتَوَاثَبَا وَاجْتَمَعَ الْجِيرَانُ وَجَعَلَ رَبِيَعَةَ يَقُولُ: لا وَالله لا فَارَقْتُكَ إِلَى السُّلْطَانِ، وَجَعَلَ فَرُّوخُ يَقُولُ كَذَلِكَ، وَكَثُرَ الضَّجِيجُ. فَلَمَّا بَصَرُوا بِمَالِكٍ سَكَتَ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَقَالَ مَالِكٌ: أَيُّهَا الشَّيْخ! لَكَ سِعَةٌ فِي غَيْرِ هَذِهِ الدَّارُ، فَقَالَ: هِيَ دَارِي وَأَنَا فَرُّوخُ مَوْلَى بَنِي فُلانَ. فَسَمِعَتِ امْرَأَتُهُ كَلامَهُ فَخَرَجَتْ وَقَالَتْ: هَذَا زَوْجِي؟ وَقَالَتْ لَهُ: هَذَا ابْنُكَ الَّذِي خَلَّفْتَهُ وَأَنَا حَامِلٌ، فَاعْتَنَقَا جَمِيعًا وَبَكَيَا وَدَخَلَ فَرُّوخُ الْمَنْزِلَ وَقَالَ: هَذَا ابْنِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخْرِجِي الْمَالَ وَهَذِهِ أَرْبَعَةُ آلافِ دِينَارٍ مَعِي، قَالَتْ: إِنِّي قَدْ دَفَنْتُهُ وَسَأُخْرِجُهُ.
وَخَرَجَ رَبِيعَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَلَسَ فِي حَلْقَتِهِ وَأَتَاهُ مَالِكٌ وَالْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ وَابْنُ أَبِي عَلِيٍّ اللَّهَبِيُّ وَالأَشْرَافُ فَأَحْدَقُوا بِهِ؛ فَقَالَتِ امْرَأَةُ فَرُّوخَ: اخْرُجْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلِّ فِيهِ، فَنَظَرَ إِلَى حَلْقَةٍ وَافِرَةٍ فَأَتَى فَوَقَفَ فَفَرَجُوا لَهُ قَلِيلا وَنَكَسَ رَبِيعَةُ يُوهِمُ أَنَّهُ لَمْ يَرَهُ، وَعَلَيْهِ طَوِيلَةٌ فَشَكَّ فِيهِ أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا رَبِيعَةُ. فَرَجَعَ وَقَالَ لِوَالِدَتِهِ: لَقَدْ رَأَيْتُ وَلَدَكِ فِي حَالَةٍ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ عَلَيْهَا. قَالَتْ: فَأَيُّمَا أَحَبُّ إِلَيْكَ؛ ثَلاثُونَ أَلْفَ دِينَارٍ أَوْ هَذَا الَّذِي هُوَ فِيهِ مِنَ الْجَاهِ؟ قَالَ: لا وَالله إِلا هَذَا، قَالَتْ: فَإِنِّي قَدْ أَنْفَقْتُ الْمَالَ كُلَّهُ عَلَيْهِ.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
امام ذہبی نے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد اس کے متعلق سخت ترین الفاظ اختیار کئے اور اس واقعے کو باطل قرار دیا ہے.
وتشتهر مثل هذه القصة عن والِد ربيعة الرأي، وهو فَرّوخ.
قال الإمام الذهبي: ذِكْرُ حِكَايَةٍ بَاطِلَةٍ قَدْ رُوِيَتْ: ثم روى بإسناده إلى مشیخَة أَهْلِ المَدِيْنَةِ: أَنَّ فَرُّوْخَ وَالِدَ رَبِيْعَةَ، خَرَجَ فِي البُعوثِ إِلَى خُرَاسَانَ، أَيَّامَ بَنِي أُمَيَّةَ.
اس قصے کے باطل ہونے کی وجوہات:
امام ذہبی نے اس واقعے کو باطل اور جھوٹا واقعہ قرار دیا ہے اور اس کی کچھ وجوہات ذکر کی ہیں:
١. امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس واقعے میں ربیعة الرأی کا ستائیس(٢٧) سال کی عمر میں مسجد نبوی میں حلقے کا ذکر ہے جبکہ اس وقت ان کا کوئی حلقہ نہیں تھا بلکہ اس وقت قاسم اور سليمان بن یسار جیسے فقہاء کے حلقے تھے.
٢. جس وقت ربیعة الرأی ستائیس سال کے جوان تھے اس وقت یا تو امام مالک کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی یا وہ چھوٹے بچے تھے تو پھر ان کا آنا اور صلح کرانا کیسے ممکن ہے.
قُلْتُ (القائل: الذهبي): حِكَايَةٌ مُعْجِبَةٌ لَكِنَّهَا مَكْذُوبَةٌ؛ لِوُجُوهٍ:
الأول: أَنَّ رَبِيعَةَ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَلْقَةٌ وَهُوَ ابْنُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً، بَلْ كَانَ ذَلِكَ الْوَقت شُيُوخ الْمَدِينَةِ مِثْلَ الْقَاسِمِ، وَسَالِمٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَغَيْرِهِمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ السَّبْعَةِ.
الثَّانِي: أَنَّهُ لَمَّا كَانَ (أي ربيعةُ) ابْنَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً كَانَ مَالِكُ فَطِيمًا أَوْ لَمْ يُولَدْ بَعْدُ.
شیخ سلیم اللہ خان صاحب رحمه اللہ نے اس واقعے کو اپنی کتاب “کشف الباری” کے کتاب العلم، (جلد:٣، صفحہ نمبر:438) میں نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ علامہ ذہبی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے، اور ربیعة الرأی کا سن وفات 136 ہجری کو قرار دیا ہے.
اس واقعے کے دیگر مآخذ:
اس واقعے کو ایک اور جگہ نقل کرتے ہوئے مصنف ٥١ہجری سے واقعہ شروع کرتا ہے کہ صحابی رسول ربیع بن زیاد الحارثي اپنے غلام فروخ کے ساتھ جہاد میں مشغول ہے اور دو سال کے بعد یعنی ٥٣ہجری میں ربیع بن زیاد کا انتقال ہوجاتا ہے اور فروخ مدینہ منورہ لوٹ آتا ہے اور یہاں شادی کرتا ہے جبکہ اس کی عمر تيس(٣٠)سال ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اپنی بیوی اور اسکے حمل کو چھوڑ کر جہاد پر نکل جاتا ہے اور جب واپس آتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ(٦٠)سال ہوتی ہے.
الجزء الاول: الصحابي الجليل الربيع بن زياد الحارثي وغلامه المقدام فروخ والد العلامة ربيعة الرأي.
ها نحن أولاء في سنة احدى وخمسين للهجرة، وهاهي ذي كتائب المسلمين تضرب في فجاج الارض مشرقة مغربة تطل الحياة بعد ذلك اليوم الأبلج الأغر بالربيع بن زياد الحارثي حيث وافاه الاجل المحتوم بعد سنتين اثنتين من تحقيق حلمه الكبير.
كان فروخ حين هبط مدينة رسول الله صلى الله عليه وسلم شابا موفور الشباب دفاق الحيوية ممتلئا فتوة وفروسية… وكان يخطو نحو الثلاثين من عمره.
في ذات عشية من عشيات الصيف المقمرة، بلغ المدينة المنورة فارس في أواخر العقد السادس من عمره ومضى في أزقتها راكبا جواده قاصدا داره، وهو لا يدري إن كانت داره لا تزال قائمة على عهده.
گویا (بقول مصنف کے): 53 ہجری میں فروخ نے شادی کی اور اسکے تین سال بعد 56 ہجری کو جہاد میں روانہ ہوکر ستائیس(27) سال بعد تراسی(83)ہجری میں انکی واپسی ہوئی اور امام مالک کی پیدائش 93 ہجری کی ہے.
امام ربیعة الرأی کی وفات:
باوجود کوشش کے امام ربیعة الرأی کی تاریخ پیدائش کا علم نہ ہوسکا، البتہ امام ذہبی کے تبصرے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کی عمر ستر(70) سال تو ضرور تھی، البتہ ان کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، جیسے:
– 136 ہجری
– 138 ہجری
– 141 ہجری
لہذا اگر ان کی عمر ستر(70) سال قرار دی جائے اور (شیخ سلیم اللہ خان صاحب کی تحقیق کے مطابق) ان کی وفات 136 ہجری قرار دی جائے تو ان کی پیدائش کا سال 66 ہجری بنتا ہے، اس حساب سے یہ واقعہ 93 ہجری کا ہے، جبکہ امام مالک کی پیدائش 93 ہجری کی ہے تو گویا یہ امام مالک کی پیدائش سے پہلے یا اسی سال کا واقعہ ہے .
خلاصہ کلام
اگرچہ یہ کوئی حدیث یا شریعت کا حکم نہیں اور واقعہ بھی کافی مشہور ہے لیکن اس واقعے کا کردار اور تاریخی اختلاف اتنا واضح ہے کہ امام ذہبی جیسی شخصیت بھی اس کو غیرصحیح کہنے پر مجبور ہوگئی اور ہمارا رجحان بھی اس واقعے کی عدم صحت کی طرف ہی ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ