اہل سنت اہل بیت سے سب سے زیادہ روایات لیتے ہیں
(قسط نمبر 1)
سوال
سوال
محترم مفتی صاحب
ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ بیشک اہل سنت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں، لیکن دین اور روایات ان سے نہیں لیتے…
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سب سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اہل بیت کون کہلاتے ہیں، اور اہل سنت ان میں سے کتنی شخصیات کو اپنا امام اور رہبر مانتے ہیں.
اہل بیت کون ہیں؟
آپ علیہ الصلاۃ والسلام، آپ کی ازواج مطہرات، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھرانہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ، آل جعفر، آل عقیل، آل عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین.
ازواج مطہرات کو قرآن مجید نے اہل بیت میں شامل کیا.
آل علی رضی اللہ عنہم کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے چادر اوڑھ کر شامل فرمایا.
آل عباس کیلئے بھی باقاعدہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اہتمام سے فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں.
آل جعفر اور آل عقیل بھی مسلم شریف کی روایت کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں.
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
تمام مسلمانوں کے نزدیک سب سے اعلی واولی ذات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہے، سارا دین آپ کے ذریعے ہی اس امت تک پہنچا ہے.
آپ شارع تھے، آپ معلم تھے، آپ ہی سکھلانے آئے تھے، قرآن مجید اور احادیث مطہرہ آپ ہی کے ذریعے اس امت تک پہنچے ہیں، سارے دین کا دارومدار آپ ہی کی ذات اقدس ہے، تمام روایات اور دین امت نے آپ ہی سے لیا ہے.
اہل بیت کی خواتین کی روایات
سب سے کم روایات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں، کیونکہ شہزادی اپنے پیارے والد کی جدائی کو زیادہ برداشت نہ کر سکیں، اور محض چھ ماہ بعد انتقال ہوگیا، لہذا ان سے روایات زیادہ منقول بھی نہیں، آپ سے کل 11 روایات منقول ہیں، جبکہ آپ کی مرویات کی تعداد مختلف کتب احادیث میں تقریباً 253 ہیں.
روایات اور مرویات میں فرق
اگر روایات کے متن کو دیکھا جائے، تو مختلف متون کے اعتبار سے روایات کی تعداد کم ہوتی ہے، البتہ اگر سند مختلف ہوتے جائیں، کہ ہر محدث اسی متن کو اپنی سند سے نقل کرے تو اس طرح مرویات کی تعداد بڑھ جاتی ہے، گویا اس میں تکرار ہوتا ہے.
ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین
وہ مقدس اور پاکیزہ ہستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بنایا، جن کو امت کی ماؤوں کا لقب دیا، وہ جو حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رہتی تھیں، لیکن ان میں سے بھی اکثریت سے زیادہ روایات منقول نہیں.
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے 5
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے 24
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے 21
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے 6
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے 3
حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے 7
حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے 36
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے 174
(ان کی مرویات کو ذکر نہیں کیا گیا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ
آپ نے بچپن سے لے کر انتقال تک پچاس سال سے زائد کی زندگی اسلام میں گذاری، سفر حضر میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھی بن کر چلے، آپ اپنے طبقے میں مکثرین روایت میں شمار ہوتے ہیں.
خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ میں سے کسی سے بھی آپ جتنی روایات منقول نہیں ہیں.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تقریباً کتب اہل سنت میں 586 روایات منقول ہیں.
ان میں صحیحین میں مکررات کے ساتھ 90 روایات منقول ہیں.
بخاری اور مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جتنی روایات منقول ہیں، اتنی روایات تینوں خلفائے راشدین کی ملا کر بھی نہیں ہیں.
البتہ آپ کی مرویات کی تعداد بہت زیادہ ہے، تقریبا 12 ہزار کے قریب مختلف اسانید سے مرویات مختلف کتب احادیث میں موجود ہیں.
جیسے صحاح ستۃ، ابن حبان اور ابن خزیمہ میں 1736 مرويات.
مسانید کی کتب میں 1780 مرویات.
معاجم اور سنن میں 2017 مرویات.
مصنف ابن ابی شیبہ میں 1518 مرویات.
مصنف عبدالرزاق میں 800 کے قریب مرویات.
سنن کبری للبیہقی اور اس درجے کی کتب میں 2400 مرویات.
دلائل النبوۃ اور اسی طرح کی کتب میں 900 مرویات.
تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر مجاہد جیسی کتب میں 2015 مرویات.
• نوٹ ان تمام روایات کا صحیح ہونا ضروری نہیں، بس آپ کی روایات مختلف اسانید سے منقول ہیں، جن پر تحقیق کے بعد حکم لگتا ہے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایات کو نقل کرنے میں احتیاط
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو حدیث براہ راست آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے سنتا تھا، اس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دیتے تھے، لیکن اگر میں کسی اور سے روایت سنتا تھا تو اس کو قسم دیتا تھا کہ کیا اس نے واقعی یہ بات آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے سنی ہے.
كُنْتُ إذا سمِعْتُ مِن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ شيئًا نَفعَني اللهُ بما شاءَ منه، وإذا حدَّثَني عنه غيرُه تَحِلَّتُه يَمينُه. (رواه شعيب الأرناؤوط، في تخريج مشكل الآثار، عن أبي بكر الصديق وعلي بن أبي طالب، الصفحة أو الرقم 6048، حسن)
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ روایات کے نقل کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے کہ کہیں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف جھوٹ کی نسبت نہ ہو.
إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عن رَسولِ الله صَلَّى الله عليه وسلَّمَ، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إلَيَّ مِن أَنْ أَكْذِبَ عليه. (رواه البخاري، في صحيح البخاري، عن علي بن ابي طالب، الصفحة أو الرقم 3611، صحيح).
حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی روایات
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 35 ہے، جبکہ مختلف کتب احادیث میں انکی مرویات 707 ہیں.
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روایات
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 43 ہے، جبکہ مختلف کتب میں آپ کی مرویات کی تعداد 584 ہے.
امام زین العابدین بن حسین بن علی رحمه اللہ کی روایات
امام زین العابدین کی روایات صحاح میں 75 ہیں، بخاری میں 25، مسلم میں 15، ابوداؤد میں 11، نسائی میں 8.
آپ کی مرویات مختلف کتب میں مختلف اسانید سے 1074 ہیں.
امام باقر رحمه اللہ کی روایات
امام باقر سے منقول صحیح روایات کی تعداد تقریباً 212 ہے جو صحاح، ابن حبان اور ابن خزیمہ میں منقول ہیں، جبکہ مختلف اسانید سے آپ کی مرویات 2829 ہیں.
امام جعفر صادق رحمه اللہ
آپ سے صحاح میں تقریباً 164 روایات منقول ہیں، جبکہ مختلف کتب میں مختلف اسانید کے ساتھ 1816 روایات منقول ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٠ اکتوبر ٢.٢٤ کراچی
