گھر میں چار شیطانی مقامات
سوال
محترم مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب
ایک پوسٹ بہت وائرل ہو رہی ہے، جس میں گھر کے کچھ مقامات کو شیطانی مقامات بتایا گیا ہے.
آپ سے اسکی تحقیق کی درخواست ہے.
آپ کے گھر میں چار ایسے مقامات ہیں جہاں شیطان قیام کرتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ بہت احتیاط سے پیش آئیں
١. وہ بستر جس پر طویل عرصے تک کوئی نہ سوئے
ایسا بستر شیطان کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ یہ بات سنت سے ثابت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“آدمی کے لئے ایک بستر، اس کے اہل کے لئے ایک اور بستر، مہمان کے لئے ایک اور چوتھا بستر شیطان کے لئے ہے۔”
لہٰذا بستر کو تہہ کرنا اور ہر دو تین دن بعد اس پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرنا چاہیئے۔
٢. حمام (غسل خانہ)
یہ تو سب جانتے ہیں کہ شیطان غسل خانے میں قیام کرتا ہے اور وہ شیطان سب سے ناپاک ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“یہ غسل خانے (پُر شیطان) ہیں، لہذا جب تم وہاں جاؤ تو کہو ‘اعوذ بالله من الخبث والخبائث’ یعنی اے اللہ میں ناپاکیوں اور ناپاکوں کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں”.
غسل خانے میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا اور وہاں خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے.
٣. وہ کپڑے جو طویل عرصے تک بغیر استعمال یا صفائی کے لٹکے رہیں، چاہے وہ الماری میں ہوں یا باہر.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“اپنے کپڑوں کو لپیٹ کر رکھو، کیونکہ شیطان ان کپڑوں میں قیام کرتا ہے جو لٹکے رہتے ہیں۔”
اکثر لوگ کپڑے تیار حالت میں لٹکا کر رکھتے ہیں، لہٰذا ان سے محفوظ رہنے کے لئے وقتاً فوقتاً ان پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کریں یا الماری کھول کر سورۃ الفاتحہ اور آیت الکرسی پڑھیں۔
٤. آگ جلانے کی جگہ اور چولہا
یہ شیطانوں کا پسندیدہ مقام ہے کیونکہ وہ آگ سے پیدا ہوئے ہیں، لہٰذا جب بھی آپ آگ کے قریب جائیں یا اسے جلانے لگیں، تو اللہ کا ذکر ضرور کریں.
کیا یہ پورا مضمون درست ہے؟ (سائل مولانا نعمت الرحمن، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
إجمالا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس پوسٹ میں جن چیزوں کو شیطانی قرار دیا گیا ہے، یہ بات شرعی نقطہ نظر سے غلط ہے.
١. پہلا مقام
وہ بستر جس پر طویل عرصے تک کوئی نہ سوئے
اس عنوان کے تحت جس حدیث کو لایا گیا ہے، اس حدیث کا اس عنوان سے کوئی تعلق ہی نہیں.
یہ حدیث مسلم شریف میں منقول ہے کہ ایک بستر صاحب خانہ کا، ایک اس کے اہل خانہ کا اور ایک بستر مہمان کا اور چوتھا بستر شیطان کا.
فقد روى مسلم (2084) عن جابر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال “فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ”.
امام نووی رحمہ اللہ جو مسلم شریف کے شارح ہیں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ضرورت سے زائد بستر کو گھر میں رکھنے کی ممانعت مراد ہے، کہ اضافی اشیاء محض دکھلاوے اور دنیاوی زینت میں مبتلا ہونے کیلئے رکھی جاتی ہیں، پس اس نیت سے رکھنا مذموم ہے، اور اگر بغیر حاجت کے ایسا کرینگے، تو پھر شیطان اس پر سوئےگا، جیسے جس گھر میں بسم اللہ پڑھے بغیر داخل ہوں تو وہاں شیطان رات گذارنے آجاتا ہے، البتہ بطور ضرورت رکھنے میں کوئی حرج نہیں.
قال النووي رحمه الله في “شرح صحيح مسلم” قال العلماء معناه أن ما زاد على الحاجة فاتخاذه إنما هو للمباهاة والاختيال والالتهاء بزينة الدنيا، وما كان بهذه الصفة فهو مذموم، وكل مذموم يضاف إلى الشيطان لأنه يرتضيه ويوسوس به ويحسنه ويساعد عليه، وقيل إنه على ظاهره، وأنه إذا كان لغير حاجة كان للشيطان عليه مبيت ومقيل، كما أنه يحصل له المبيت بالبيت الذي لا يَذكر اللهَ تعالى صاحبُه عند دخوله عَشاءً، وأما تعدد الفراش للزوج والزوجة فلا بأس به، لأنه قد يحتاج كل واحد منهما إلى فراش عند المرض ونحوه وغير ذلك.
٢. دوسرا مقام
حمام (غسل خانہ)
یہ واقعی شیطانی جگہ ہے، دعا پڑھ کر جانا چاہیئے، لیکن حمام میں جانے سے کسی کو شیطان چمٹ جائے، یا حمام میں کپڑے لٹکانے سے ان کپڑوں پر شیطان چمٹ جاتا ہے، یہ بات کسی صورت درست نہیں.
٣. تیسرا مقام
وہ کپڑے جو طویل عرصے تک بغیر استعمال یا صفائی کے لٹکے رہیں، چاہے وہ الماری میں ہوں یا باہر
اس بات کیلئے جس روایت کو پیش کیا گیا ہے وہ روایت مختلف کتب حدیث میں موجود ہے.
”اپنے کپڑے لپیٹ کر (یعنی طے کر کے) رکھو، ان کی طرف ان کی روحیں لوٹتی ہیں، بلاشبہ شیطان اگر لپیٹے ہوئے کپڑے پا لے تو انہیں نہیں پہنتا اور اگر بکھرے ہوئے کپڑے ہوں تو انہیں پہن لیتا ہے۔“
1120. “اطووا ثيابكم؛ ترجع إليها أرواحها؛ فإن الشيطان إذا وجد ثوبا مطويا لم يلبسه؛ وإن وجده منشورا لبسه”. (طس) عن جابر رضی اللہ عنه. (فيض القدير للمناوي 546/1)
اس روایت کی اسنادی حیثیت
١. امام سخاوی کہتے ہیں کہ اس کی سند بیکار ہے.
وقال السخاوي إسناده واه.
٢. امام ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عمر بن موسی بن وجیہ ہے، جو کہ وضاع یعنی من گھڑت روایات بنانے والا ہے.
قال الهيثمي رحمه الله تعالى رواه الطبراني في “الأوسط”، وفيه عمر بن موسى بن وجيه، وهو وضاع. (مجمع الزوائد 5/135).
٣. علامہ ابن جوزی نے اس راوی کے متعلق مختلف ائمہ کے اقوال نقل کئے ہیں
١. یحيی بن معین کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں.
قال يحيى ليس بثقة.
٢. ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے، یہ روایات گھڑتا تھا.
وقال أبوحاتم الرازي متروك الحديث، كان يضع الحديث.
٣. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ عمر بن موسی سند اور متن دونوں اپنی طرف سے بناتا تھا.
وقال ابن عدي هو في عداد من يضع الحديث متنا وإسنادا.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مشہور لوگوں سے منکر روایات نقل کرتا تھا، لہذا اس کا چھوڑنا ضروری ہوگیا.
وقال ابن حبان يروي المناكير عن المشاهير كثيرا، فاستحق الترك. (الضعفاء والمتروكين 2/217).
اسی معنی میں ایک اور روایت نقل کی جاتی ہے کہ “شیاطین تمہارے لباس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جب تم میں سے کوئی اپنا لباس اتارے تو اس کو تہہ کر لیا کرے، تاکہ اس کی روح واپس آجائے، اسلئے کہ شیطان تہہ شدہ کپڑے نہیں پہنتا”.
وروى ابن عساكر في “تاريخ دمشق” (37/338) عن ياسين بن معاذ، عن أبي الزبير، عن جابر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “الشياطين يستمتعون بثيابكم، فإذا نزع أحدكم ثوبه فليطوه حتى ترجع إليها أنفاسها، فإن الشيطان لا يلبس ثوبا مطويا”.
اس روایت کا حکم
١. اس روایت کی سند میں یاسین بن معاذ راوی ہیں، انکے متعلق امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس راوی کو امام نسائی نے متروک قرار دیا تھا.
قال الذهبي رحمه الله تعالى ياسين بن معاذ الزيات، عن الزهري، تركه النسائي وغيره. (المغني 2/729).
٢. شیخ البانی نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے.
¤ وقد حكم عليه الشيخ الألباني بأنه موضوع. كما في “السلسلة الضعيفة” (12/831).
اسی معنی میں ایک اور روایت ہے کہ اپنے کپڑے رات کو تہہ کر کے رکھو، جنات وہ کپڑے رات کو نہیں پہن سکیں گے.
فیض القدیر للمناوی کے حاشیہ میں ہے کہ یہ روایت کہیں ملی نہیں.
وأما خبر “اطووا ثيابكم بالليل؛ لا تلبسها الجن”. (ص 547) فلم أره؛
٤. چوتھا مقام
آگ جلانے کی جگہ اور چولھا
یہ ایک بےبنیاد بات کہی گئی ہے، ایسی کوئی روایت یا دلیل موجود نہیں.
البتہ رات کو چراغ بجھانے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ پرانے زمانے میں چراغ میں دھاگہ تیل میں رکھ کر فتیلہ جلایا جاتا تھا، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو بجھا کر سویا کرو، کہیں شیطان چوہیا اس کو لے کر گھر کو آگ نہ لگادے.
عن جابر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “خمروا الآنية، وأوكئوا الاسقية، واجيفوا الابواب، واطفئوا المصابيح، فإن الفويسقة ربما جرت الفتيلة فاحرقت اهل البيت”. (ترمذی 2857)
ترجمہ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(رات میں) برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو اور مشکوں کے منہ باندھ دیا کرو، گھر کے دروازے بند کر دیا کرو، اور چراغوں کو بجھا دیا کرو، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چوہیا چراغ کی بتی کھینچ کر لے جاتی ہے اور گھر والوں کو جلا ڈالتی ہے”۔
خلاصہ کلام
گھر کی برکت اور شیطان سے دور رہنے کیلئے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے جو اعمال بتائے ہیں، ان میں سلام کرنا، درود شریف پڑھنا، بسم اللہ پڑھنا، آیۃ الکرسی پڑھنا، چاروں قل پڑھنا۔ لیکن شریعت نے مسلمان کو شکی مزاج نہیں بنایا، اور نہ ہی من گھڑت باتوں کی بنیاد پر ڈرپوک بنایا ہے، لہذا ایسی بےبنیاد باتوں کو نشر کرنا اور پھیلانا ہرگز درست نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٦ اکتوبر ٢٠٢٤ کراچی
