فضائلِ تبلیغ کی روایات کی تخریج و تحقیق
جیسا کہ سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ فضائل أعمال پر تفصیلی کام ہوچکا ہے، اور روایات کی تحقیق وتخریج کا کام کیا جاچکا ہے.
اس سلسلے میں ہر کتاب پر الگ سرسری نظر ڈالیں گے، اور روایات کی تحقیق سے جو کچھ سامنے آیا ہے وہ اپنے قارئین کے سامنے رکھیں گے.
نیز یہ جو تحقیق یا تخریج ہے، يہ ہماری ذاتی محنت اور کوشش ہے، اس میں غلطی کا امکان سوفیصد موجود ہے، البتہ غلطی کی نشاندہی وہ شخص کرے جو تحقیق کے ساتھ ہماری تحقیق کو غلط ثابت کرسکے۔
فضائل تبلیغ میں روایات کی تعداد
فضائل تبلیغ نامی کتابچہ سات فصلوں پر مشتمل ہے. اس میں کل 62 روایات ہیں، 16 روایات عربی متن کے ساتھ موجود ہیں، بقیہ روایات فائدے میں حضرت شیخ نے ذکر فرمائی ہیں.
62 میں سے 30 روایات صحيح لذاتہ یا صحیح لغیرہ ہیں، ان میں سے اکثر روایات صحاح ستہ کی ہیں.
17 روایات حسن لذاتہ یا حسن لغیرہ درجے کی ہیں، 12 روایات ضعیف درجے کی ہیں، جبکہ فقط تین روایات ضعیف جدا درجے کی ہیں.
فضائل تبلیغ کے کتابچے میں ہماری تحقیق کے مطابق کوئی موضوع روایت موجود نہیں.
تین ضعیف ترین روایات کی تحقیق
١. پہلی روایت
أخبرنا أبو القاسم بن أبي حرب بنيسابور؛ أنا الحاكم أبو الحسن السقا؛ أنا أبو الطيب محمد بن محمد الحناط؛ ثنا جعفر بن سهل، ثنا محمد بن زياد، ثنا العمري، عن إبراهيم بن طهمان عن أبان عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تزل لا إله إلا الله تنفع من قالها وترد عنهم العذاب والنقمة ما لم يستخفوا بحقها قالوا يارسول الله وما الاستخفاف بحقها؟ قال يظهر العمل بمعاصي الله فلا ينكر ولا يغير. (الکتاب الترغيب والترهيب لقوام السنة، المؤلف الأصبهاني، إسماعيل، الجزء 1، صفحة 219)
(یہ روایت کتب خانہ فیضی لاہور کے صفحہ نمبر 608 پر منقول ہے)
اس روایت میں حضرت انس رضي اللہ عنہ سے روایت کرنے والا ابان بن ابی عیاش ہے، جس کے بارے میں محدثین کے اقوال بہت شدید قسم کے ہیں.
امام ترمذی کتاب العلل میں لکھتے ہیں
قَالَ أَبُو عِيسَى وَأَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ وُصِفَ بِالْعِبَادَةِ وَالاجْتِهَادِ؛ فَهَذِهِ حَالُهُ فِي الْحَدِيثِ؛ وَالْقَوْمُ كَانُوا أَصْحَابَ حِفْظٍ فَرُبَّ رَجُلٍ وَإِنْ كَانَ صَالِحًا لا يُقِيمُ الشَّهَادَةَ، وَلا يَحْفَظُهَا؛ فَكُلُّ مَنْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ بِالْكَذِبِ أَوْ كَانَ مُغَفَّلا يُخْطِئُ الْكَثِيرَ؛ فَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ الأَئِمَّةِ أَنْ لا يُشْتَغَلَ بِالرِّوَايَةِ عَنْهُ، أَلا تَرَى أَنَّ عَبْدَالله بْنَ الْمُبَارَكِ حَدَّثَ عَنْ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَمْرُهُمْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ.
امام ترمذی کہتے ہیں ابان بن ابی عیاش اگرچہ عبادت اور زہد و ریاضت کے وصف سے متصف ہیں، لیکن حدیث میں ان کا یہ حال ہے اور محدثین کی جماعت حفظ والی تھی، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نیک اور صالح ہوتا ہے، لیکن نہ وہ شہادت دے سکتا ہے، اور نہ اسے یاد رکھتا ہے، تو ہر متہم بالکذب راوی یا مغفل راوی جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہے، اہل حدیث کی اکثریت کے مختار مذہب میں ایسے راویوں سے حدیث نہیں روایت کی جائےگی۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ہو کہ عبداللہ بن المبارک نے اہل علم کی ایک جماعت سے حدیث روایت کی تھی لیکن ان کے حالات کے واضح ہونے جانے پر ان سے روایت ترک کر دی. (سنن ترمذي، کتاب العلل، حدیث 3959)
اسی طرح امام ترمذی نے امام ابوعوانہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں اس سے روایت نقل کرنے کو حلال نہیں سمجھتا.
قَالَ وأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ لَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ اشْتَهَيْتُ كَلَامَهُ؛ فَتَتَبَّعْتُهُ عَنْ أَصْحَابِ الْحَسَنِ؛ فَأَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ؛ فَقَرَأَهُ عَلَيَّ كُلَّهُ عَنْ الْحَسَنِ، فَمَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا.
ابوعوانہ کہتے ہیں جب حسن بصری کا انتقال ہو گیا تو مجھے ان کے اقوال جاننے کی خواہش ہوئی، میں نے اصحاب حسن بصری کی تلاش کی، ابان بن ابی عیاش کے پاس آیا تو اس نے ہم پر احادیث پڑھیں سب کی سب حسن بصری سے تھیں، میں ان میں سے کچھ بھی روایت کرنا حلال نہیں سمجھتا. (سنن ترمذي، کتاب العلل، حدیث 3959)
امام ابن حبان کہتے ہیں کہ اس نے حضرت انس سے بھی روایات سنی ہیں، اسی طرح حسن بصری کی محفل میں بیٹھا ہے، یہ روایت نقل کرتے ہوئے حسن بصری کے اقوال کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال بنا لیتا تھا، اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا، اس نے حضرت انس سے 1500 سے زیادہ روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثریت کی کوئی اصل نہیں.
قال ابن حبان “سمع من أنس أحاديث، وجالس الحسن، فكان يسمع كلامه ويحفظه، فإذا حدث ربما جعل كلام الحسن الذي سمعه من قوله عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم وهو لا يعلم، ولعله روى عن أنس أكثر من ألف وخمس مئة حديث ما لكثير شيء منُها أصل يرجع إليه”.
(یہ روایت ضعیف جدا ناقابل بیان ہے)
٢. دوسری روایت
محمد بن كثير الشريني، نا عبدالملك بن إبراهيم الجدي، نا عبدالله بن عبدالعزيز العمري، عن أبي طوالة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال الزبانية أسرع إلى فسقة القرآن منهم إلى عبدة الأوثان، فيقولون يبدأ بنا قبل عبدة الأوثان. فيقال ليس من علم كمن لم يعلم. (تاريخ الإسلام للذهبي، ج ١٢، الصفحة ٢١٨)
(یہ روایت صفحہ نمبر 616 پر منقول ہے)
امام ذہبی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کو منکر قرار دیا ہے.
تفرد به العمري، وهو خبر منكر، وشيخ الطبراني لا أعرفه.
امام ابن جوزی نے اس روایت کو اپنی کتاب الموضوعات میں نقل کرنے کے بعد اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے.
باب عقوبة فسقة العلماء
أنبأنا المحمدان ابن ناصر وابن عبدالباقي قالا أنبأنا حمد بن أحمد قال أنبأنا أبو نعيم الحافظ قال حدثنا سليمان بن أحمد قال حدثنا موسى بن محمد السيريني قال حدثنا عبدالملك بن إبراهيم الجندي قال حدثنا عبدالله بن عبدالعزيز العمرى عن أبي طوالة عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم “لَلزبانية أسرع إلى فسقة حملة القرآن منهم إلى عبدة الأوثان، فيقولون يبدأ بنا قبل عبدة الأوثان؟ فيقال لهم ليس مَن عَلم كمن لا يعلم”.
وقد رواه جابر بن مرزوق الجدي عن العمرى. وهو حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. (الموضوعات، ابن الجوزي، ج ١، الصفحة ٢٦٦)
امام ابن حبان نے اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کو باطل خبر قرار دیا ہے.
جَابِر بْن مَرْزُوق الجدي شيخ من أهل جدة سكن مَكَّة يروي عَن عَبْدالله بْن عَبْدالْعَزِيز الْعمريّ الزَّاهِد روى عَنْهُ قُتَيْبَة بْن سَعِيد وَعلي بْن بَحر الْبري يَأْتِي بِمَا لَا يشبه حَدِيث الثِّقَات عَن الْأَثْبَات، لَا يَجُوز الِاحْتِجَاج بِهِ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ عَبْدِالله بْن عَبْدالْعَزِيز الْعمريّ الزَّاهِدِ عَنْ أَبِي طَوَالَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يُدْعَى بِفَسَقَةِ الْعُلَمَاءِ فَيُؤْمَرُ بِهِمْ إِلَى النَّارِ قَبْلَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ لَيْسَ مَنْ عَلِمَ كَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ. وَهَذَا خَبَرٌ بَاطِلٌ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا أَنَسٌ. رَوَاهُ وَأَبُو طَوَالَةَ اسْمُهُ عَبْدُاللہ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الأَنْصَارِيُّ مِنْ ثِقَاتِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، لَيْسَ هَذَا مِنْ حَدِيثِهِ فَكَانَ الْقلب إِلَى أَنه مَعْمُول أميل. (ابن حبان، المجروحون)
(یہ روایت بھی انتہائی ضعيف ناقابل بیان ہے)
٣. تیسری روایت
(یہ روایت فضائل أعمال میں صفحہ نمبر 630 پر منقول ہے)
عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “إن لقمان قال لابنه يا بني عليك بمجالسة العلماء، واسمع كلام الحكماء، فإن الله يُحيي القلب الميت بنور الحكمة كما يُحيي الأرض الميتة بوابل المطر”. (مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد، كتاب العلم، باب في فضل العلماء ومجالستهم، صفحة 125)
روایت کا حکم
امام ہیثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کے دو راویوں کو ناقابل احتجاج قرار دیا ہے.
رواه الطبراني في الكبير، وفيه عبيدالله بن زحر عن علي بن يزيد، وكلاهما ضعيف لا يحتج به.
ابن حبان نے المجروحین میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن زید کے بارے میں لکھا ہے کہ جب یہ دونوں راوی کسی سند میں جمع ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ یہ روایت گھڑی گئی ہے.
عبيد الله بن زحر الضمرِي الإفْرِيقِي الْكِنَانِي يروي عَن عَليّ بن بذيمة وَلَيْث بن أبي سليم وَعلي بن يزِيد روى عَنهُ يحيى بن سعيد الْأنْصَارِيّ وَأهل الشَّام مُنكر الحَدِيث جدا يروي الموضوعات عَن الْأَثْبَات، وَإِذا روى عَن عَليّ بن يزِيد أَتَى بالطامات، وَإِذا اجْتمع فِي إِسْنَاد خبر عبيد الله بن زحر وَعلي بن يزِيد وَالقَاسِم أَبُو عبدالرَّحْمَن لَا يكون متن ذَلِك الْخَبَر إِلَّا مِمَّا عملت أَيْديهم، فَلَا يحل الِاحْتِجَاج بِهَذِهِ الصَّحِيفَة بل التنكب عَن رِوَايَة عبيد الله بن زحر على الْأَحْوَال أولى.
سَمِعت الْحَنْبَلِيّ يَقُول سَمِعت أَحْمَد بْن زُهَيْر يَقُول سُئِلَ يَحْيَى بْن معِين عَن عبيد الله بن زحر فَقَالَ لَيْسَ بِشَيْء. (ابن حبان فی المجروحين)
خلاصہ کلام
یہ تین روایات ایسی ہیں جو ہماری تحقیق کے مطابق اقوال محدثین کی روشنی میں ضعیف جدا قرار دی جاسکتی ہیں، لہذا فضائل تبلیغ میں ان تین روایات کو بیان نہ کیا جائے، باقی 59 روایات بیان کی جاسکتی ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٥ مارچ ٢٠٢٥ کراچی
