والدین کا حق ادا کرنے والی دعا
سوال: مندرجہ ذیل روایت اور اس میں مذکور دعا کی تحقیق مطلوب ہے… علامہ عینی نے شرح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ مندرجہ ذیل دعا پڑھے اس کے بعد یہ دعا کرے کہ اس کا ثواب میرے والدین کو پہنچادے تو اس نے والدین کا حق ادا کردیا.
“الحمد للہ رب العالمین رب السماوات ورب الارض…..الخ”
کیا یہ دعا اس فضیلت کے ساتھ درست اور ثابت ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور دعا مختلف اذکار کی کتب میں منقول ہے.
حديث مرفوع: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُفَيْرٍ الأَنْصَارِيُّ، ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ قُتَيْبَةَ، ثنا بِشْرُ بْنُ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “مَنْ قَالَ: اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ، لِله الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ، لِله الْمُلْكُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الأَرْضِ وَرَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ النُّورُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ، مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ قَالَ: اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ؛ لَمْ يَبْقَ لِوَالِدَيْهِ عَلَيْهِ حَقٌّ إِلا أَدَّاهُ إِلَيْهِمَا”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں ایک راوی بشر بن الحسین الهلالی الاصبہانی ہے.
اس راوی کے متعلق محدثین کی رائے:
١. امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس راوی کے بارے میں نظر (اشکال) ہے.
قال فيه البخاري: فيه نظر.
[التاريخ الكبير: 2/59 – ت/1726]
[الضعفاء الكبير للعقيلي: 1/159 – ت/172]
[الكامل لابن عدي: 2/162 – ت/248].
٢. امام دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے، یہ زبیر بن عدی سے باطل روایات نقل کرتا ہے.
وقال الدارقطني: متروك عن الزبير بن عدي بواطيل وله عنه نسخة موضوعة. [الضعفاء والمتروكون: ص/159 ـ 160 ـ ت/126].
٣. امام ابوداود الطیالسی سے کسی نے کہا کہ بِشر، زبیر بن عدی عن انس سے روایات نقل کرتا ہے تو ابوداود نے فرمایا کہ جھوٹ بولتا ہے، زبیر نے انس بن مالک سے ایک ہی روایت نقل کی ہے.
“لا یأتي عليكم زمان إلا والذي بعده شر منه”. (البخاري)
وقيل لأبي داود: إن بشر بن الحسين يروي عن الزبير بن عدي عن أنس أحاديث فقال: كذب ما نعرف للزبير بن عدي عن أنس إلا حديثاً واحداً. [طبقات المحدثين بأصبهان: 1/385 ـ ت/48].
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ زبیر بن عدی کی روایات میں جس قدر کمزور چیزیں ہیں وہ سب بِشر ہی کی وجہ سے ہیں.
وقال ابن حبان في ترجمة الزبير بن عدي الهمداني: وكل ما في أخباره من مناكير فهي من جهة بشر بن الحسين الأصبهاني. [مشاهير علماء الأمصار: ت:992].
٥. امام عقیلی کہتے ہیں کہ بشر کی اس کے علاوہ بھی روایات ہیں جو سب مُنکَر ہیں.
وقال العقيلي: وله غير حديث من هذا النحو مناكير كلها. [الضعفاء الكبير: 1/160-ت/172].
٦. ابن عدی کہتے ہیں کہ بشر کی روایات محفوظ نہیں اور یہ زبیر کی طرف باطل روایات کی نسبت کرتا ہے.
وقال ابن عدي: وعامة حديثه ليس بالمحفوظ. وقال أيضاً بعد إيراد بعض الأحاديث للزبير بن عدي: وإنما أُتي ذلك من قبل بشر بن الحسين لأنه يبطل في روايته عن الزبير ما لا يتابعه أحد عليه؛ والزبير ثقة وبشر ضعيف. (الكامل: 2/263)
٧. امام ذہبی نے ابن ابی حاتم کا قول نقل کیا ہے کہ یہ زبیر پر جھوٹ باندھتا ہے. (میزان الاعتدال:315/1)
٨. ابوحاتم کے سامنے بشر عن زبیر عن انس کا تذکرہ ہوا کہ اس سند سے تقریبا بیس روایات نقل کی جاتی ہیں تو فرمایا کہ یہ سب جھوٹی ہیں، زبیر کی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صرف چار یا پانچ روایات منقول ہیں
خلاصہ کلام
مذکورہ بالا دعا کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں، اور جن کتب میں موجود ہے وہ سند انتہائی کمزور ہے، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس دعا کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ