حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جوڑا
سوال :ایک واقعہ سنا ہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو ایک صحابی نے اعتراض کیا کہ آپ کا جوڑا دیگر مسلمانوں کی بنسبت زیادہ بڑا ہے، تو حضرت عمر کے بیٹے نے گواہی دی کہ میں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دیا ہے …کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ بہت ساری کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے لیکن کسی بھی کتاب میں اس واقعے کی سند ذکر نہیں کی گئی.
قام عمر بن الخطاب رضي الله عنه خطيباً فقال: أيها الناس اسمعوا وأطيعوا، فقام له سلمان الفارسي يقول: لا سمع لك اليوم علينا ولم؟ قال سلمان: حتى تبين لنا من أين لك هذا البرد الذي ائتزرت به، وقد نالك برد واحد كبقية المسلمين، وأنت رجل طوال لا يكفيك برد واحد ونادى عمر: ياعبدالله بن عمر! قال لبيك ياأمير المؤمنين، قال: نشدتك الله، هذا البرد الذي ائتزرت به، أهو بردك؟ قال: نعم، والتفت إلى المسلمين فقال: إن أبي قد ناله برد واحد كما نال بقية المسلمين وهو رجل طوال لا يكفيه برد واحد، فأعطيته بردي ليئتزر به. فقال: سلمان الآن مر، نسمع ونطع.
– فذكرها ابن قتيبة في (عيون الأخبار(.
– وابن الجوزي في (صفة الصفوة) وفي مناقب عمر.
– وابن دريد في (أماليه(.
– وابن حمدون في (التذكرة الحمدونية(.
– والآبي في (نثر الدر(
– ويوسف بن عبدالهادي المبرد في (محض الصواب(.
– وذكرها كذلك ابن القيم في (إعلام الموقعين(
– والخزاعي في (تخريج الدلالات السمعية(
ولم يذكر أحد منهم إسنادا.
بعض حضرات نے اس واقعے کی نسبت ایک شاعر اور ادب نویس عتبی کی طرف کی ہے.
إلا إن بعضهم كابن قتيبة وابن الجوزي أسندوها إلى العتبي من حكايته.
• عتبی کون ہے:
یہ بنوامیہ کا ایک مشہور ادیب گذرا ہے جو 228 ہجری میں انتقال کر گیا تھا، گویا اس کے اور حضرت عمر کے درمیان 150 سال سے زائد کا زمانہ گذرا ہے، اور اس درمیانی عرصے کی کوئی سند یہاں موجود نہیں.
قال الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد: محمد بن عبيدالله بن عمرو بن معاوية بن عمرو بن عتبة بن أبى سفيان بن حرب بن أمية بن عبدشمس بن عبد مناف أباعبدالرحمن العتبي من أهل البصرة كان صاحب أخبار ورواية للآداب وكان من أفصح الناس وحدث عن أبيه وعن سفيان بن عيينة وأبي مخنف لوط بن يحيى الكوفى روى عنه أبوحاتم السجستاني وأبوالفضل الرياشي وإسحاق بن محمد النخعي وعبدالعزيز بن معاوية القرشي وأبوالعباس الكديمي وغيرهم وقدم بغداد وحدث بها فأخذ عنه غير واحد من أهلها. مات سنة 228.
عتبی کے بارے میں علماء کی رائے:
اس کے بارے میں جرح و تعدیل کے متعلق علمائے امت کے زیادہ اقوال موجود نہیں، البتہ کچھ ایسے نکات ہیں جو اس سند کو انتہائی کمزور بناتے ہیں:
نکتہ نمبر ١:
امام ذہبی نے لکھا ہے کہ “کان یشرب” یعنی یہ شراب پیتے تھے، لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ شاید یہ لفظ “یخضب” تھا یعنی کہ وہ خضاب لگاتے تھے تو کسی نے شراب بنادیا.
وذكر الذهبي في سير أعلام النبلاء أنه كان يشرب (11/96)، وهذا طعنٌ في عدالته ولا شك، ولكن يخشى أن تكون (كان يخضب) فتحرفت.
نکتہ نمبر ٢:
جبکہ بعض محدثین نے اس روایت کا مأخذ عتبی کے رافضی استاد لوط بن یحيی کو قرار دیا ہے.
وقد يكون تلقى القصة من شيخه الرافضي لوط بن يحيى.
نکتہ نمبر ٣:
ابن جوزی اور عتبی کے درمیان کے زمانے کی سند بھی کہیں مذکور نہیں.
هذا مع عدم العلم بصحة سند ابن الجوزي إلى العتبي.
نکتہ نمبر ٤:
اس کی شہرت ادیب شاعر کے طور پر ہے نہ کہ محدث کے نام سے.
العتبي محمد بن عبيدالله بن عمرو بن معاوية العلامة الأخباري الشاعر المجود أبوعبدالرحمن محمد بن عبيدالله بن عمرو بن معاوية بن عمرو بن عتبة بن أبي سفيان بن حرب الأموي ثم العتبي البصري.
– روى عن: ابن عيينة وأبي مخنف ووالده.
– وعنه: أبوحاتم السجستاني وإسحاق بن محمد النخعي.
– وله تصانيف أدبيات وشهرة.
مات: سنة ثمان وعشرين ومائتين.
خلاصہ کلام
اس واقعے کو باوجود شہرت کے غیرثابت ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اصل مدار تو سند پر ہے جو یہاں موجود ہی نہیں، لہذا اس واقعے کے بیان کرنے میں احتیاط لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ