ساتھیوں کی خدمت گذاری
سوال :ایک واقعہ سنتے آرہے ہیں کہ آپ علیہ السلام ایک سفر میں ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ کھانا پکانے کی ضرورت پیش آئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ لکڑی جمع کرنا ہمارے ذمے ہے…کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ سیرت اور مواعظ کی بہت ساری کتابوں میں منقول ہے.
امام طبری رحمه اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام ایک سفر میں ساتھیوں کے ساتھ تھے تو ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ ہوا، ایک ساتھی نے کہا کہ ذبح کرنا میرے ذمے ہے، دوسرے نے کہا کہ کھال اتارنا میرے ذمے، تیسرے صحابی نے کہا کہ پکانا میرے ذمے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ لکڑی جمع کرنا ہمارے ذمے ہے، تو صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہم کافی ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ کافی ہو لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں تم سے اونچا اور الگ رہوں، کیونکہ اللہ تعالی ایسے بندے کو ناپسند کرتے ہیں جس کی اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان ہو اور آپ علیہ السلام نے لکڑیاں جمع کیں.
قال المحب الطبري رحمه الله في “خلاصة سير سيد البشر” (ص:87): وَكَانَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي بعض أَسْفَاره، فَأمر بإصلاح شاة، فَقَالَ رجل: يَارَسُول الله! عَليّ ذَبحهَا، وَقَالَ آخر: عَليّ سلخها، وَقَالَ آخر: عَليّ طبخها، فَقَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: “وَعليّ جمع الْحَطب”. فَقَالُوا يَارَسُول الله! نَحن نكفيك. فَقَالَ: “قد علمت أَنكُمْ تكفوني، وَلَكِنِّي أكره أَن أتميز عَلَيْكُم؛ فَإِن الله يكره من عَبده أَن يرَاهُ متميزا بَين أَصْحَابه، وَقَامَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَجمع الْحَطب”.
– وكذا ذكره المقريزي في “إمتاع الأسماع” (2/188(
– والصفدي في “الوافي بالوفيات” (1/71(
– والنويري في “نهاية الأرب” (18/258(
– والحرضي في “بهجة المحافل” (2/284(
– والقارئ في جمع الوسائل (2/129(
– والعصامي في “سمط النجوم” (2/310[(.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت تمام کتب میں بغیر سند کے ہی منقول ہے.
علامہ سخاوی نے اس روایت کے ایک حصے کو ذکر کرکے فرمایا کہ میں اس روایت کو نہیں جانتا (یعنی اسکی کوئی أصل یا سند نہیں ملی(
وفي “المقاصد الحسنة” برقم (247): حَدِيث: “إِنَّ اللهَ يَكْرَهُ الْعَبْدَ الْمُتَمَيِّزَ عَلَى أَخِيهِ”، لا أعرفه.
ونقله العجلوني في “كشف الخفاء” برقم (765) ونقل كلام السخاوي عليه، ومثله: الحوت في “أسنى المطالب” (ص:83(
كتاب “الجد الحثیث فی بیان ما لیس بحدیث” میں مصنف لکھتے ہیں کہ باوجود شہرت کے اس واقعے کی سند یا کوئی أصل موجود نہیں.
قال في الجد الحثيث في بيان ما ليس بحديث: هذا الأثر على شهرته لا يعرف له إسناد. (ج:1، ص:64(
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کے أعلی أخلاق کا تو خود قرآن مجید شاہد ہے کہ فرمایا اِنَّكَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِيْمٍ لیکن سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) سند سے کہیں بھی منقول نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ