خضر علیہ السلام کی دعا
سوال: دعائے خضر کے نام سے ایک دعا بہت عام کی جارہی ہے کہ اس میں ہر بلاء اور مصیبت سے امان ہے…
اس دعا کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
دعائے خضر کے نام سے مشہور دعا مختلف کتب میں منقول ہے، لیکن یہ دعا سند كے لحاظ سے درست نہیں.
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کی ہر سال موسمِ حج میں ملاقات ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کا حلق کرتے ہیں اور پھر اس دعا کو پڑھتے ہوئے (اگلے سال تک کیلئے) رخصت ہوتے ہیں.
حديث مرفوع: أَخْرَجَ الْعُقَيْلِيُّ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ فِي الْأَفْرَادِ، وَابْنُ عَسَاكِرَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، قَالَ: يَلْتَقِي الْخِضِرُ وَإِلْيَاسُ كُلَّ عَامٍ فِي الْمَوْسِمِ، فَيَحْلِقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا رَأَسَ صَاحِبِهِ، وَيَتَفَرَّقَانِ عَنْ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ: بِسْمِ الله مَاشَاءَالله، لَا يَسُوقُ الْخَيْرَ إِلَّا الله، بِسْمِ الله مَاشَاءَالله، لَا يَصْرِفُ السُّوءَ إِلَّا الله، بِسْمِ الله مَاشَاءَالله، مَا كَانَ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ الله، بِسْمِ الله مَاشَاءَالله، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ دعا صبح شام تین تین بار پڑھےگا اللہ تعالی اسکو ڈوبنے، جلنے، چوری، شیاطین، ظالم بادشاہ، سانپ اور بچھو سے محفوظ فرمائینگے.
قال ابن عباس: من قالهن حين يصبح وحين يمسي ثلاث مرات، أمنه الله من الغرق والحرق والسرق ومن الشياطين والسلطان والحية والعقرب.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
١. ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ انتہائی بیکار روایت ہے.
وقال ابن حجر في الإصابة: الحدیث واہ جدا.
٢. دارقطنی کہتے ہیں کہ اس روایت کو نقل کرنے والا صرف الحسن بن رزین البصری ہے.
قال الدارقطني في الأفراد: لم يحدث به عن ابن جريج غير الحسن بن رزين.
٣. عقیلی کہتے ہیں کہ حسن بن رزین کا کوئی متابع نہیں، یہ مجہول ہے اور اس کی روایات محفوظ نہیں.
وقال أبوجعفر العقيلي: لم يتابع عليه؛ وهو مجهول؛ وحديثه غيرمحفوظ.
٤. ابو الحسين بن المنادی کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن بن رزین کی وجہ سے بیکار ہوگئی.
وقال أبوالحسين بن المنادي: هو حديث واه بالحسن المذكور.
٥. امام ذہبی کہتے ہیں کہ اسکی روایات کی کوئی حیثیت نہیں.
الحسن عن ابن جریج لیس بشئ وهو منکر. (المیزان)
• اس دعا کی دوسری سند:
أخرجه ابن الجوزي من طريق أحمد بن عمار حدثنا محمد بن مهدي حدثنا مهدي بن هلال حدثني ابن جريج… فذكر له لفظاً قريباً مما سبق.
اس سند میں أحمد بن عمار متروک راوی ہے.
ثم قال ابن الجوزي: أحمد بن عمار متروك عند الدارقطني.
دوسرا راوی مهدی بن هلال ہے.
١. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
قال ابن حبان: مهدي بن هلال يروي الموضوعات.
٢. ابن معین اور یحیی بن سعید نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے.
كذبه يحيى بن سعيد، وَابن مَعِين.
٣. ابن معین فرماتے ہیں کہ یہ بدعتی اور جھوٹا آدمی ہے.
وقال ابن مَعِين أيضًا: صاحب بدعة يضع الحديث.
٤. أبونعیم کہتے ہیں کہ امام أحمد نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے.
وقال أبونعيم الأصبهاني: كذبه أحمد بن حنبل.
٥. کشف الخفاء میں عجلونی فرماتے ہیں کہ اس باب میں کوئی روایت ثابت نہیں.
وقال العجلوني في كشف الخفاء: أخرجه الحارث بن أبي أسامة في مسنده بسند ضعيف عن أنس وأخرجه أبوإسحاق الزكي في جزء له عن ابن عباس. وقال في التمييز تبعاً للأصل كشيخة الحافظ ابن حجر: منكر لا يثبت فيه شيء.
خلاصہ کلام
دعائے خضر کے نام سے جو دعا مشہور کی گئی ہے اسکی کوئی اصل نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسكو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ