نماز میں ٹانگ کا کاٹنا
سوال: ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تیر لگ گیا، اسکے نکالنے کیلئے انہوں نے کہا کہ جب میں نماز پڑھنے لگوں تو تیر نکال لینا، جب وہ نماز کی حالت میں تھے تو تیر نکالا گیا اور ان کو اسکا پتہ بھی نہ چلا…
کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کہیں بھی نہ مل سکا، البتہ اس کے قریب کا ایک واقعہ کتب تاریخ میں موجود ہے.
عروہ بن زبیر کی ٹانگ کٹنے کا واقعہ:
کتب تاریخ میں مشہور تابعی حضرت عروہ بن زبیر کا واقعہ مذکور ہے کہ ان کی ٹانگ میں پھوڑا نکلا جس سے ٹانگ میں مرض پھیل گیا تو حکماء نے ٹانگ کاٹنے کا علاج تجویز کیا اور کہا کہ آپ کو بےہوشی کی دواء پلاتے ہیں جس سے آپ کو درد کا احساس نہیں ہوگا لیکن عروہ بن زبیر نے اس کو قبول نہیں کیا.
ٹانگ کس حال میں کاٹی گئی اس متعلق روایات:
١. نماز کی حالت میں.
٢. روزے کی حالت میں.
٣. تلاوت کی حالت میں.
٤. سونے کی حالت میں.
٥. جاگ رہے تھے لیکن بلکل حرکت نہیں کی.
نماز کی حالت میں ٹانگ کاٹے جانے کی مشہور روایت:
حضرت عروہ نے مدینہ منورہ سے دمشق کا سفر کیا تو دورانِ سفر انکی ٹانگ میں ایک پھوڑا نکلا جو دمشق پہنچتے پہنچتے آدھی پنڈلی کو متاثر کر گیا، جب خلیفہ ولید کو اسکا علم ہوا تو طبیب بلائے گئے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ ٹانگ کاٹنی پڑےگی مبادا مرض پوری ٹانگ میں پھیل جائے اور عرض کیا کہ آپ کو بےہوشی کی دواء پلاتے ہیں، لیکن انہوں نے اسکے پینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب میں نماز پڑھنے لگوں تو کاٹ دینا، جب یہ نماز میں کھڑے ہوئے تو ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی لیکن ان کو درد کا احساس بھی نہ ہوا.
سافر عروة من المدينة إلى دمشق، وفي الطريق بوادي القرى أصيبتْ رجلُه بأَكَلَةٍ، ولم يَكَد يَصِل دمشق حتى كانت نصفُ ساقه قد تلِفتْ، فدخل على الخليفة الوليد بن عبدالملك، فبادر الوليد باستدعاء الأطبَّاء العارفين بالأمراض وطرق علاجها، فأجمعوا على أن العلاج الوحيد هو قطعها قبل أن يَسريَ المرض إلى الرِّجل كلِّها حتى الوَرِك، وربما أكلتِ الجسمَ كله، فوافق عروةُ بعد لأيٍ على أن تُنْشَر رِجله، وعرض عليه الأطباء إسقاءه مُرْقِدًا؛ حتى يغيب عن وعيه فلا يشعر بالألم، فرفض عروة ذلك بشدة قائلاً: لا والله، ما كنت أظن أحدًا يشرب شرابًا، أو يأكل شيئًا يُذهِب عقلَه، ولكن إن كنتم لابُدَّ فاعلين فافعلوا ذلك وأنا في الصلاة؛ فإني لا أحس بذلك ولا أشعر به، فقطعوا رجله من فوق الأكلة من المكان الحي؛ احتياطًا أن لا يبقى منها شيء، وهو قائم يصلي، فما تضوَّر ولا اختلج، فلما انصرف من الصلاة عزَّاه الوليد في رجله، فقال: اللهم لك الحمد…..
ان تمام روایات میں سے صحیح روایت:
ابن ابی الدنیا اور علامہ ذہبی نے اس واقعے کی صحیح روایت جو نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہے کہ جب بےہوشی کی دواء دینے کی پیشکش کی گئی تو حضرت عروہ نے اس سے انکار کردیا، پھر جب ان کی ٹانگ کاٹی گئی تو انہوں نے بلکل بھی حرکت نہیں کی.
قال ابنُ أبي الدنيا في “الأمراض والكفارات” (135-ط:دار الصحابة): حدثنا عبدالرحمن بن بشر بن الحكم، حدثنا عبدالرزاق، حدثنا مَعْمَر، عن الزهري، أن عروة بن الزبير لما وقَعَت الأَكَلَة في رِجْلِهِ، فقيل له: ألا ندعو لك طبيباً؟ قال: إن شئتم. فجاء الطبيب، فقال: أسقيك شراباً يزول فيه عقلك؟ فقال: امضِ لشأنك، ما ظننتُ أنَّ خلقاً شرب شراباً يزول فيه عقْله حتى لا يعرف ربّه. قال: فوضع المنشار على ركبته اليسرى، ونحن حوله، فما سمعنا حساً. فلما قطعها جعل يقول: لئن أخذت لقد أبقيت، ولئن ابتليت لقد عافيت. قال: وما تَرَكَ جُزأه بالقرآن تلك الليلة.
قلتُ: هذا إسنادٌ صحيحٌ.
وذكر كذلك الإمام الذهبي رحمه الله القصة في السير (بطرق ج:4، ص:429/430/431) وما جاء فيها: عمر بن عبدالغفار: حدثنا هشام، أن أباه وقعت في رجله الآكلة، فقيل: ألا ندعوا لك طبيبا؟ قال: إن شئتم، فقالوا: نسقيك شرابا يزول فيه عقلك؟ فقال: امض لشأنك، ما كنت أظن أنّ خلقاً يشرب ما يزيل عقله حتى لا يعرف ربه، فوضع المنشار على ركبته اليسرى، فما سمعنا له حسّا، فلما قطعها جعل يقول: لئن أخذت لقد أبقيت، ولئن ابتليت لقد عافيت. وما ترك جزءه بالقرآن تلك اللية.
خلاصہ کلام
نماز کے دوران تیر نکالنے والا واقعہ جس کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے یہ واقعہ کہیں بھی نہ مل سکا، اور عروہ بن زبیر رحمه اللہ کا واقعہ بھی مستند روایت سے ثابت نہیں، لہذا اس واقعے کو بیان کرنے میں احتیاط کی جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ