Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر 351

Posted on 06/12/202106/12/2021 by Sikander Parvez

فاتحِ مکران کی قبر

سوال
کوہِ سلیمان ضلع راجن پور میں صحابی رسول (شریک غزوہ بدر) حضرت سہل بن عدی رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک کا وجود تاریخی حقائق کے اعتبار سے کس قدر درست ہے؟
آپ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے، مکران (بلوچستان) کی جنگ میں آپ شریک تھے، فتح کے بعد امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس علاقہ کا گورنر مقرر کیا اور آپ کا یہیں 27 ہجری میں انتقال ہوا.
جاتے ہوئے ذہن میں یہ سوال انگڑائیاں لینے لگا کہ آج اتنی سہولتوں کے باوجود ہمارا تھکاوٹ سے تن بدن درد کرنے لگا، آج سے 1400 سال پہلے ان مقدس نفوس کو کس چیز نے مجبور کیا کہ یہ اپنا گھر بار، علاقہ، وطن چھوڑ کر بیاباں علاقوں میں گئے اور دین اسلام پہنچا کر ہم پر احسان عظیم کیا…
لوگوں میں بہت مشہور ہے کہ یہ صحابی رسول حضرت سہل بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر ہے…
          کیا یہ بات درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور قبر کے متعلق تاریخ بلکل خاموش ہے، اور اس کے پس منظر میں بہت ساری وجوہات ہیں

 ١. پہلی وجہ  

فتح مكران میں شرکت کرنے والے صحابی کے نام کے متعلق مؤرخین کا اختلاف رہا ہے  کہ وہ سہل بن عدی تھے یا سہیل بن عدی

أسد الغابة اور الاصابة فی تمییز الصحابة میں سہل بن عدی کو فاتح مکران قرار دیا گیا.

  سَهْل بن عَدِيّ الأَنصاري  (أسد الغابة). أمه أم عثمان بنت مُعاذ بن فَروةَ بن عَمرو بن حَبيب بن غَنم، من بني قَوقَل. (الطبقات الكبير)
شهد بدرًا، قاله أَبو نعيم مختصرًا. وأَخرجه أَبو موسى، فقال  سهل بن عَدِيّ بن مالك بن حَرَام بن خَدِيج بن مُعَاوية بن عَوْف بن الخزرج، أَخو ثابت، وعبدالرحمن، شهد أَحدًا، تقدم ذكره في ترجمة أَخيه ثابت.
  ثَابِتُ بن عَدِيّ بن مَالك بن حَرَامَ بن خَدِيج بن معاوية بن مالك بن عوف بن عمرو الأنصاري الأوسي المعاوي. أخو عبدالرحمن، وسهل، والحارث، شهدوا جميعًا أحُدًا.
من ترجمة ثَابِتُ بن عَدِيّ بن مَالك بن حَرَام. (أسد الغابة)
وذكر الطَّبري أنّ عمر كتب إلى أبى موسى الأشعري بالبصرة أن يؤمّر سَهْلَ بن عدي هذا، وهو الذي فتح كرمان، وأعانه عبدالله بن عبدالله بن عتبان الآتي ذكره في مكانه. (الإصابة في تمييز الصحابة)

جبکہ اکثر مؤرخین نے سہیل بن عدی کو کرمان کا فاتح لکھا ہے، جبکہ یہ فتح مکران میں معاون تھے.

 بظاہر یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت کے معلوم ہوتے ہیں، کسی نے سہل لکھا ہے اور کسی نے سہیل.

   فتح مکران  

اصل فاتح مکران حکم بن عمرو التغلبی تھے، ان کی مدد دیگر صحابہ کرام نے کی اور یہ جنگ 23 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لڑی گئی، حضرت سہیل بن عدی دراصل کرمان کے فاتح تھے.

  فتح مكران كان قتالاً بين الخلافة الراشدة ومملكة راي التي يحكمها راجا راسل في أوائل 644م/23هـ.
حکم ابن عمرو التغلبي ناحية مكران حتى انتهى إليها، ولحق به شهاب بن المخارق بن شهاب فانضم إليه، وأمده سهيل بن عدي وعبدالله بن عبدالله بن عتبان بأنفسهما.

 مکران میں واقع ایک نہر کے کنارے مسلمانوں اور کفار کے درمیان شدید جنگ ہوئی، اور کفار کو شکست ہوئی.

  فانتهوا إلى دوين النهر، فحشد راجا راسل (حاكم هندوسي محلي من مملكة السند) جيوش ضخمة في مكران لوقف تقدم المسلمين. فاقتربوا منهم فالتقوا فاقتتلوا بمكان من مكران من النهر على أيام، فهُزمت قوات راجا راسيل في ساحة المعركة، وقتل منهم الكثير.

 اس نہر کے متعلق مقامی علمائےکرام سے بات چیت پر معلوم ہوا کہ اس طرح کی کئی نہریں ہیں جن میں سیلابی پانی بہتا ہے، البتہ خضدار کے پاس ایک نہر ہے جس میں مستقل پانی بہتا ہے.

شیخ عبدالغفار و مفتی آصف پنجگوری.

 مکران کو دارالاسلام کی آخری حد مقرر کیا گیا  

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ بلوچستان کی سرزمین بنجر اور بےکار ہے، تو انہوں نے لشکر کو مزید پیش قدمی سے روکا، اور مکران کو آخری حد مقرر فرمایا.

  عند ذلك (بعد أن علم أن بلوشستان أرض قاحلة وغير ملائمة لإرسال جيش) أرسل الخليفة عمر لقادته أن لا يغزوا بعد مكران، وليقتصروا على مادون النهر. ويجب أن تكون مكران الحدود الشرقية القصوى للخلافة الراشدة.
   مکران کی حدود  

مکران 1100 کلومیٹر کا احاطہ ہے جس میں سے اکثر علاقہ پاکستان میں اور کچھ ایران میں آتا ہے، یہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل خشک سرزمین ہے، مکران میں جو علاقے آتے ہیں وہ پاکستان میں گوادر، جیونی، اورماڑا اور پسنی کے آس پاس کے دیہات.

  تمتد مكران بطول 1100 كم على ساحل خليج عمان (700 كم في باكستان والباقي في إيران). الشريط الساحلي الضيق يرتفع سريعاً إلى عدة سلاسل من الجبال الشاهقة. المنطقة قاحلة شديدة الجفاف، شحيحة المطر. لذا فعدد سكانها قليل، وربما هاجر الكثير منها. ويتركز السكان في مدن ساحلية، منها في إيران  غواتر، تشابهار. وفي باكستان  غوادر، جيواني، بسني وأورمارة، بالإضافة إلى العديد من قرى الصيد.
   حضرت سہیل بن عدی رضی اللہ عنہ کی وفات اور قبر  

حضرت سہیل بن عدی کے انتقال کے متعلق تمام مؤرخین خاموش ہیں، اور نہ ہی ان کی قبر کے متعلق کوئی تذکرہ ہے.

   جغرافیائی نکتہ  

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مکران کو آخری حد قرار دیا گیا تھا، جبکہ سندھ پر 93 ہجری میں حملہ ہوا ہے، اگر مکران کی آخری حد خضدار کو بھی قرار دیا جائے، تو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خضدار اور داجل کے درمیان راستے اس قدر دشوار اور دور ہیں، تو اس زمانے میں ان پہاڑوں پر کس طرح پہنچ گئے. البتہ محمد بن قاسم سندھ کے فتح کے بعد ملتان کی طرف گئے، اور مظفر گڑھ کا علاقہ ملتان سے قریب پڑتا ہے، تو ہوسکتا ہے کہ اس لشکر میں شامل کوئی شخصیت یہاں آئی ہو.

خلاصہ کلام

ہماری تحقیق کے مطابق اس قبر کا تیئیسویں ہجری میں موجود ہونا بظاہر بہت مشکل معلوم ہوتا ہے، کہ نہ تاریخ میں اس علاقے کا ذکر ہے اور نہ یہاں اسلام پہنچنے کے آثار ملتے ہیں، لہذا اس قبر کو سہیل بن عدی کی قرار دینا کافی مشکل ہے.

باقی حقیقت حال تو اللہ رب العزت ہی خوب جانتے ہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢ دسمبر ٢٠٢١ کراچی


Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
جلد8

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 390
  • تنبیہ نمبر 389
  • تنبیہ نمبر 388

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes