شداد کی جنت
سوال
محترم مفتی صاحب!
آپ نے شداد کے واقعے کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے، جبکہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے بیان میں اس واقعے کو بیان کیا ہے…
برائے مہربانی اس کی تحقیق مطلوب ہے…

الجواب باسمه تعالی
استاد محترم نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ایک کتاب کے حوالے سے نقل فرمایا، اور ساتھ ہی فرما دیا کہ پتہ نہیں کیسا واقعہ ہے، لیکن لکھا ہوا ہے، گویا انہوں نے اس واقعے کی تصدیق نہیں کی بلکہ کسی کتاب کے حوالے سے فرمایا کہ وہاں یوں لکھا ہوا ہے.
شداد کے واقعے کی حقیقت
شداد کی جنت کے متعلق امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں بغیر کسی حوالے اور حکم کے ذکر فرمایا ہے.
لکھتے ہیں کہ عاد کے دو بیٹے تھے شداد اور شدید.. شدید کے بعد شداد بادشاہ ہوا، اور بہت زبردست بادشاہت کی، اس کی عمر نو سو سال تھی، اس نے تین سو سال میں عدن کی صحراء میں ارم نام سے شہر بسایا، جو سونا چاندی اور دنیا کی نعمتوں اور آرائش سے آراستہ تھا، جب وہ اس جنت میں جانے لگا تو ایک چیخ آئی جس سے سب ہلاک ہوگئے.
ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن قلابہ اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا تو ان کو وہ جنت ملی، اس نے وہ جو کچھ لے سکتے تھے لے لیا، حضرت معاویہ کو ان کا پتہ چلا تو ان کو بلایا، اور ان سے واقعہ پوچھا، اور پھر کعب أحبار سے پچھوایا گیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ ارم ذات العماد کا شہر ہے… (ملخص)
قال القرطبي رحمه الله وَرُوِيَ أَنَّهُ كَانَ لِعَادٍ ابْنَانِ شَدَّادٌ وَشَدِيدٌ، فَمَلَكَا وَقَهَرَا، ثُمَّ مَاتَ شَدِيدٌ، وَخَلَصَ الْأَمْرُ لِشَدَّادٍ فَمَلَكَ الدُّنْيَا، وَدَانَتْ لَهُ مُلُوكُهَا، فَسَمِعَ بِذِكْرِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ أَبْنِي مِثْلَهَا. فَبَنَى إِرَمَ في بعض صحاري عدن، في ثلاثمائة سَنَةٍ، وَكَانَ عُمُرُهُ تِسْعَمِائَةِ سَنَةٍ. وَهِيَ مَدِينَةٌ عَظِيمَةٌ، قُصُورُهَا مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَأَسَاطِينُهَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ وَالْيَاقُوتِ، وَفِيهَا أَصْنَافُ الْأَشْجَارِ وَالْأَنْهَارِ الْمُطَّرِدَةِ. وَلَمَّا تَمَّ بِنَاؤُهَا سَارَ إِلَيْهَا بِأَهْلِ مَمْلَكَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ مِنْهَا عَلَى مَسِيرَةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، بَعَثَ الله عَلَيْهِمْ صَيْحَةً مِنَ السَّمَاءِ فَهَلَكُوا.
وَعَنْ عَبْدِالله بْنِ قِلَابَةَ أَنَّهُ خَرَجَ فِي طَلَبِ إِبِلٍ لَهُ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَحَمَلَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِمَّا ثَمَّ، وَبَلَغَ خَبَرُهُ مُعَاوِيَةَ فَاسْتَحْضَرَهُ، فَقَصَّ عَلَيْهِ، فَبَعَثَ إِلَى كَعْبٍ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ هِيَ إِرَمُ ذَاتُ الْعِمَادِ، وَسَيَدْخُلُهَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي زَمَانِكَ، أَحْمَرُ أَشْقَرُ قَصِيرٌ، عَلَى حَاجِبِهِ خَالٌ، وَعَلَى عَقِبِهِ خَالٌ، يَخْرُجُ فِي طَلَبِ إِبِلٍ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَبْصَرَ ابْنَ قِلَابَةَ، وَقَالَ هَذَا وَاللهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ. (تفسير القرطبي 20/47)
ارم ذات العماد نامی شہر ایک من گھڑت واقعہ ہے.
علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں وضاحت سے اس بات کو بیان کیا ہے کہ ایسا شہر جس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہے وغیرہ وغیرہ یہ سب اسرائیلیات کی من گھڑت باتیں ہیں، بعض زنادقہ نے یہ باتیں گھڑی ہیں.
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ثعلبی نے کسی اعرابی کا واقعہ ذکر کیا ہے جو اس شہر میں حضرت معاویہ کے زمانے میں گیا تھا، پھر جب لوگ دوبارہ گئے تو کچھ بھی نہیں ملا.
ابن کثیر رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ سند کے لحاظ سے درست نہیں، اور اگر اس اعرابی تک واقعے کی سند کو درست مان بھی لیا جائے تو یہ اس دیہاتی نے گھڑا ہوگا.. اس کے بعد ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ بعینہ ان جعل سازوں کے عمل جیسا ہے جو لوگوں کو لالچ دلاتے ہیں کہ زمین کے نیچے ایسے خزانے وغیرہ چھپے ہوئے ہیں، جبکہ یہ سب باطل اور فضولیات ہیں.
قال ابن كثير رحمه الله الْمُرَادُ إِنَّمَا هُوَ الْإِخْبَارُ عَنْ إِهْلَاكِ الْقَبِيلَةِ الْمُسَمَّاةِ بِعَادٍ، وَمَا أَحَلَّ الله بِهِمْ مِنْ بَأْسِهِ الَّذِي لَا يُرَد، لَا أَنَّ المراد الإخبار عن مدينة أو إقليم.
وَإِنَّمَا نَبَّهْتُ عَلَى ذَلِكَ لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِكَثِيرٍ مِمَّا ذَكَرَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ، مِنْ ذِكْرِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا (إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ) مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قُصُورُهَا وَدَوْرُهَا وَبَسَاتِينُهَا، وَإِنَّ حَصْبَاءَهَا لَآلِئٌ وَجَوَاهِرُ، وَتُرَابُهَا بَنَادِقُ الْمِسْكِ، وَأَنْهَارُهَا سَارِحَةٌ، وَثِمَارُهَا سَاقِطَةٌ، وَدُورُهَا لَا أَنِيسَ بِهَا، وَسُورُهَا وَأَبْوَابُهَا تَصْفَرُّ، لَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٍ. وَأَنَّهَا تَنْتَقِلُ فَتَارَةٌ تَكُونُ بِأَرْضِ الشَّامِ، وَتَارَةٌ بِالْيَمَنِ، وَتَارَةٌ بِالْعِرَاقِ، وَتَارَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْبِلَادِ (فَإِنَّ هَذَا كُلَّهُ مِنْ خُرَافَاتِ الْإِسْرَائِيلِيِّينَ، مِنْ وَضْعِ بَعْضِ زَنَادِقَتِهِمْ)، لِيَخْتَبِرُوا بِذَلِكَ عُقُولَ الْجَهَلَةِ مِنَ النَّاسِ أَنْ تُصَدِّقَهُمْ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ.
وَذَكَرَ الثَّعْلَبِيُّ وَغَيْرُهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ (وَهُوَ عَبْدُالله بْنُ قِلابة) فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ ذَهَبَ فِي طَلَبِ أَبَاعِرَ لَهُ شَرَدَتْ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَتِيهُ فِي ابْتِغَائِهَا، إِذْ طَلَعَ عَلَى مَدِينَةٍ عَظِيمَةٍ لَهَا سُورٌ وَأَبْوَابٌ، فَدَخَلَهَا فَوَجَدَ فِيهَا قَرِيبًا مِمَّا ذَكَرْنَاهُ مِنْ صِفَاتِ الْمَدِينَةِ الذَّهَبِيَّةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُهَا، وَأَنَّهُ رَجَعَ فَأَخْبَرَ النَّاسَ، فَذَهَبُوا مَعَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي قَالَ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا.
وَقَدْ ذَكَرَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ قِصَّةَ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ هَاهُنَا مُطَوَّلَةً جِدًّا! فَهَذِهِ الْحِكَايَةُ لَيْسَ يَصِحُّ إِسْنَادُهَا، وَلَوْ صَحَّ إِلَى ذَلِكَ الْأَعْرَابِيِّ، فَقَدْ يَكُونُ اخْتَلَقَ ذَلِكَ، أَوْ أَنَّهُ أَصَابَهُ نَوْعٌ مِنَ الهَوَس وَالْخَبَالِ، فَاعْتَقَدَ أَنَّ ذَلِكَ لَهُ حَقِيقَةٌ فِي الْخَارِجِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ. وَهَذَا مِمَّا يُقْطَعُ بِعَدَمِ صِحَّتِهِ.
وَهَذَا قَرِيبٌ مِمَّا يُخْبِرُ بِهِ كَثِيرٌ مِنَ الْجَهَلَةِ وَالطَّامِعِينَ وَالْمُتَحَيِّلِينَ، مِنْ وُجُودِ مَطَالِبَ تَحْتَ الْأَرْضِ، فِيهَا قَنَاطِيرُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَأَلْوَانِ الْجَوَاهِرِ وَالْيَوَاقِيتِ وَاللَّآلِئِ وَالْإِكْسِيرِ الْكَبِيرِ، لَكِنْ عَلَيْهَا مَوَانِعُ تَمْنَعُ مِنَ الْوُصُولِ إِلَيْهَا وَالْأَخْذِ مِنْهَا، فَيَحْتَالُونَ عَلَى أَمْوَالِ الْأَغْنِيَاءِ وَالضَّعَفَةِ وَالسُّفَهَاءِ، فَيَأْكُلُونَهَا بِالْبَاطِلِ، فِي صَرْفِهَا فِي بَخَاخِيرَ وَعَقَاقِيرَ، وَنَحْوِ ذَلِكَ مِنَ الْهَذَيَانَاتِ، ويَطْنزون بِهِمْ [أي يسخرون ويستهزؤون بهم].
وَالَّذِي يُجْزَمُ بِهِ أَنَّ فِي الْأَرْضِ دَفَائِنَ جَاهِلِيَّةً وَإِسْلَامِيَّةً، وَكُنُوزًا كَثِيرَةً، مَنْ ظَفَرَ بِشَيْءٍ مِنْهَا أَمْكَنَهُ تَحْوِيلُهُ.
فَأَمَّا عَلَى الصِّفَةِ الَّتِي زَعَمُوهَا فَكَذِبٌ وَافْتِرَاءٌ وَبُهْتٌ، وَلَمْ يَصِحَّ فِي ذَلِكَ شَيْءٌ مِمَّا يَقُولُونَ إِلَّا عَنْ نَقْلِهِمْ، أَوْ نَقْلِ مَنْ أَخَذَ عَنْهُمْ، وَالله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْهَادِي لِلصَّوَابِ. (تفسير ابن كثير 8/395-396).
ایسا کوئی شہر تاریخ میں کبھی تھا ہی نہیں.
مشہور مؤرخ ابن خلدون کہتے ہیں کہ “ارم ذات العماد” کے تحت مفسرين جس شہر کا تذکرہ کرتے ہیں یہ عقل اور وہم سے دور باتیں ہیں، کیونکہ عدن کی صحراء یمن میں ہے، جبکہ وہ تعمیرات ہوتی رہی ہیں، اور وہاں کے آس پاس کے قصے لوگوں میں موجود ہیں، لیکن اس بارے میں نہ کوئی خبر ہے، نہ کسی قوم نے تذکرہ کیا، نہ کسی مؤرخ نے ذکر کیا، البتہ اگر اس شہر کے آثار کو بلکل مٹا ہوا مان لیا جائے تو الگ بات ہے، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ یہ ابھی بھی موجود ہے.
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس شہر سے مراد دمشق ہے، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ شہر نظروں سے غائب رہتا ہے اور وہاں پر تو کوئی بزرگ یا کوئی جادوگر ہی پہنچ سکتا ہے، یہ سب بکواسیات ہیں.
وقال ابن خلدون رحمه الله وأبعد من ذلك وأعرق في الوهم ما يتناقله المفسّرون في تفسير سورة «والفجر» في قوله تعالى {أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ○ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ} فيجعلون لفظة إرم اسما لمدينة وصفت بأنّها ذات عماد أي أساطين…..
وذكر مثل ما ذكره القرطبي، ثم قال وهذه المدينة لم يسمع لها خبر من يومئذ في شيء من بقاع الأرض.
وصحارى عدن الّتي زعموا أنّها بنيت فيها هي في وسط اليمن، وما زال عمرانه متعاقبا، والأدلّاء تقصّ طرقه من كلّ وجه، ولم ينقل عن هذه المدينة خبر، ولا ذكرها أحد من الأخباريـّين ولا من الأمم.
ولو قالوا إنّها درست فيما درس من الآثار لكان أشبه، إلّا أنّ ظاهر كلامهم أنّها موجودة، وبعضهم يقول إنّها دمشق، بناء على أنّ قوم عاد ملكوها، وقد ينتهي الهذيان ببعضهم إلى أنّها غائبة، وإنّما يعثر عليها أهل الرّياضة والسّحر، مزاعم كلّها أشبه بالخرافات. (تاريخ ابن خلدون 1/18-19)
جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں بھی اس واقعے کو من گھڑت کہا گیا ہے.
شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری ،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ فجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کر کے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جبکہ مؤخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کر کے (صاحبِ تفسیر روح المعانی) علامہ آلوسی رحمه اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے
“وخبر شداد المذكور أخوه في الضعف بل لم تصح روايته، كما ذكره الحافظ ابن حجر فهو موضوع كخبر ابن قلابة”. (روح المعانى 15/338)
یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔ نیز اول الذکر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا.
خلاصہ کلام
شداد کی جنت کا واقعہ اگرچہ زبان زد عام ہے، اور مختلف کتب میں موجود ہے لیکن اس واقعے کی کوئی سند نہیں، اور اکابر مفسرین نے اس کے وجود کا انکار کیا ہے، لہذا اس کو بیان کرنا یا کسی آیت کی تفسیر قرار دینا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٩ دسمبر ٢٠٢١ کراچی
