گھر والوں کے ساتھ ہاتھ بٹانے کا اجر
سوال
مندرجہ ذیل مضمون کی تحقیق مطلوب ہے:
روایت:
أمیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں گھر میں فاطمہ زہراء کے ساتھ بیٹھ کر عدس (دال) صاف کر رہا تھا، اتنے میں رسول خدا ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: اے ابالحسن! میں نے جواب دیا: لبیک یا رسول اللہﷺ! تو اپ نے فرمایا: اے علی! مجھ سے [یہ] باتیں سن لو (اور میں خدا کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرتا): جو شخص اپنی بیوی کا اس کے گھر میں ہاتھ بٹائے اور مدد کرے تو خدا تعالی اسے بدن پر موجود ہر بال کے بدلے میں ایک سال کی عبادت کا اجر عطا فرماتے ہیں (ایسی عبادت جو دن کو روزہ رکھنے اور رات کو نماز میں مشغول رہنے کے ساتھ ہو) اور اسے صابرین جیسے حضرت داود، یعقوب، اور عیسیٰ علیہم السلام کا ثواب عطا کرےگا”. (جامع الاخبار، ص:102)
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور مضمون مختصر ہے، یہ ایک طویل روایت نقل کی جاتی ہے جس میں گھر والوں کی خدمت پر ہزاروں سال کی عبادت کا اجر بیان کیا جاتا ہے، اور یہ کہ گھر والوں کی خدمت صدیق اور شہید ہی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ…الخ
ورد عن أمير المؤمنين قال: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفاطمةُ جالسة عند القِدر، وأنا أنقي العدس، فقال: يا علي! اسمع مني، وما أقول إلا عن أمر ربي، ما من رجل يعين امرأته في بيتها إلا كان له بكل شَعرة على بدنه عبادةُ سنة؛ صيام نهارها، وقيام ليلها، وأعطاه من الثواب مثل ما أَعطى الصابرين وداودَ ويعقوبَ وعيسى.
يا علي! مَن كان في خدمة العيال ولم يأنف، كُتب اسمه في ديوان الشهداء، وكُتب له بكل يوم وليلة ثوابُ ألف شهيد، وكُتب له بكل قدم ثوابُ حجَّة وعُمرة، وأعطاه الله بكل عرق في جسده مدينة.
يا علي! ساعة في خدمة العيال في البيت، خيرٌ له من عبادة ألف سنة، وألف حجَّة، وألف عُمرة، وخير مِن عِتق ألف رقبة، وألف غزوة، وألف مريض عاده، وألف جنازة، وألف جائع يُشبعهم، وألف عارٍ يكسوهم، وألف فرس يوجِّهه في سبيل الله، وخير له من ألف دينار يتصدَّق بها على المساكين، وخير من أن يقرأ التوراة، والإنجيل، والزبور، والفرقان، وخير له من ألف بَدنة يُعطي المساكين، ولا يَخرج من الدنيا حتى يرى مكانه في الجنة.
يا علي! مَن لم يأنف من خدمة العيال، دخل الجنة بغير حساب.
يا علي! خدمة العيال كفَّارة الكبائر، وتطفئ غضب…..”
يا علي! لا يخدم العيال إلا صديق أو شهيد أو رجل يريد الله به خير الدنيا والآخرة”. (مستدرك الوسائل: 13/48).
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، باوجود تلاش کے کسی بھی کتاب میں نہ مل سکی.
روایات کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ من گھڑت ہے، اور شیعوں کی خرافات میں سے ہے.
الدرجة: باطل، وموضوع، وهو من أكاذيب الشيعة.
خلاصہ کلام
انسان کا اپنے گھر والوں کیلئے محنت مشقت کرنا باعثِ اجر اور اعلی عبادات میں سے ہے، اور اس متعلق بہت ساری درست روایات موجود ہیں، لہذا اس کے بارے میں من گھڑت روایات کو پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٧ مارچ ٢٠٢٢ کراچی
