شوال کے چھ روزے
الجواب باسمه تعالی
حضور اکرم ﷺ نے اپنی امت کو مختلف مواقع پر مختلف اعمال کرنے کی ترغیب دی اور ان اعمال کی فضیلت بهى بیان فرمائی.
ان ہی اعمال میں سے شوال کے چھ روزے بهى ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے بعد یہ چھ روزے رکھ لے گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لئے.
صحیح مسلم شریف کی روایت:
روایت نمبر 1
مَنْ صامَ رمضانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ ستًّا مِنْ شوَّالٍ كانَ كصيامِ الدَّهْرِ.
– الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
– المحدث: مسلم
– المصدر: صحيح مسلم.
– الصفحة أو الرقم: 1164
– خلاصة حکم المحدث: صحيح
● ہر روزہ دس دن کے روزوں کے برابر ہے
روایت نمبر 2
من صامَ رمضانَ وأتبعَهُ ستًّا من شوَّالٍ فذلكَ صيامُ الدَّهرِ قالَ قلتُ لكلِّ يومٍ عشرٌ قالَ نعم.
– الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
– المحدث: الهيثمي.
– المصدر: مجمع الزوائد.
– الصفحة أو الرقم: 3/187
– خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح.
● گویا رمضان کے تیس روزے تین سو دنوں کے برابر اور شوال کے چھ روزے ساٹھ دنوں کے برابر ہوگئے.
☆ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مختلف صحابہ کرام سے منقول ہے لیکن سب سے قوی سند ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہے.
وحديث أبي أيوب رضي الله عنه الذي رواه الإمام مسلم في صحيحه هو أقوى هذه الأحاديث؛ وذلك لأن مسلماً رواه من ثلاثة طرق نظيفة؛ جميعها تدور على سعد ابن سعيد.
والرواية الأولى لم تسلم طرقها من الكلام على بعض رجال إسنادها، لكن بعضها يحمل بعضاً، إذ ليس في رجال إسنادها من هو كذاب أو متهم بكذب، وعلى طريقة الإمام الترمذي في تحسين الأحاديث فإنها حسنة لغيرها
أما الرواية الثانية فإسنادها صحيح، وبخاصة من طريق النسائي والدارمي، وطريق ابن خزيمة يلتقي معهما في يحيى بن حسان.
روایت نمبر ٣:
حديث جَابِر بْنَ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِي: أنه سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ كُلَّهَا.
■ روایت نمبر ٤:
حديث أبي هريرة رضي الله عنه؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “من صام رمضان وأتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر كله”.
وفي رواية أخرى: “من صام ستة أيام بعد الفطر متتابعة فكأنما صام السنة كلها”.
أما الرواية الأولى فذكرها الهيثمي في مجمع الزوائد، وقال: رواه البزار، وله طرق رجال بعضها رجال الثقات.
■ روایت نمبر ٥:
حديث ابن عباس وجابر رضي الله عنهم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال صام السنة كلها”.
■ روایت نمبر ٦:
حديث ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه”.
قلت: هذا الحديث منكر؛ لأن مسلمة بن علي: متروك ، كما أن متنه مخالف لجميع الروايات الأخرى.
● یہ روایات چھ صحابہ کرام سے مروی ہیں
ان روایات کا متن اتنا مشہور ہے کہ بعض محدثین نے ان کو متواتر روایات میں شمار کیا ہے.
كما أن متن الحديث مروي من طرق كثيرة من غير طريق سعد بن سعيد، وقد بلغت هذه الطرق من الكثرة حداً جعل بعض المصنفين يُدرجون هذا الحديث في الأحاديث المتواترة، فأورده الكتاني في كتابه: “نظم المتناثر من الحديث المتواتر”، وذَكَرَ أن السيوطي أورده في كتابه: “الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة من طريق ثمانية أنفس من الصحابة هم: أبو أيوب الأنصاري، وجابر بن عبد الله، وثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابن عباس وابن عمر، والبراء بن عازب، وغنام، وعائشة رضي الله عنهم جميعاً، كلهم بألفاظ متقاربة .
■ اس روایت کو “صحیح” کا درجہ دینے والے محدثین کرام:
كما أن ثلَّة من العلماء قد صححوا هذا الحديث قديماً وحديثا منهم: الترمذي، وابن حبان، والدار قطني، والنووي، والهيثمي، والقرطبي، وابن القيم، والمباركفوری، والخطيب التبريزي، ومحمد بن مفلح المقدسي
ومن المُحدَثين: الشيخ شعيب الأرناؤوط[131{
☆ اگرچہ روایت کی سند پر کلام موجود ہے لیکن تعدد طرق اور محدثین کرام کا اس روایت کو قبول کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ یہ روایت قابل قبول اور قابل عمل ہے.
☆ صحابہ کرام، تابعین اور متقدمین اور متاخرین فقہائے کرام کا اس عمل کو جائز اور مستحسن قرار دینا بهى اس کی قبولیت عند الأمة کی علامت ہے.
خلاصة القول: إن حديث أبي أيوب رضي الله عنه حديث صحيح ويصلح للاحتجاج به، وكذلك حديث ثوبان رضي الله عنه، وباقي الأحاديث شواهد تتقوى بهما، باستثناء حديث ابن عمر فإنه ضعيف جداً ومنكر؛ لشدة ضعف رواته ولمخالفة متنه لباقي الروايات جميعاً.
جمہور امت کا قول:
استحب صيام ستة من شوال أكثر العلماء، منهم: ابن عباس رضي الله عنهما وطاؤوس والشعبي وميمون بن مهران، وهو قول ابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق.
وقال السيد البكري: “ويسن متأكدا صوم ستة أيام من شهر شوال”.
الرأي الأول: الاستحباب. وبه أخذ جمهور الفقهاء من فقهاء المذهب الشافعي[132]، والمذهب الحنبلي[133]، وبعض فقهاء المذهب الحنفي[134]، والمالكي[135
قال النووي: قال أصحابنا: يستحب صوم ستة أيام من شوال لهذا الحديث.. وهذا لا خلاف فيه عندنا، وبه قال أحمد وداود.
– وقال مالك وأبوحنيفة: يكره صومها.
■ امام مالک اور امام ابوحنیفه رحمھما اللہ:
فقہائے کرام میں سے ان دو حضرات کی طرف اس قول کی نسبت کی جاتی ہے کہ وہ ان چھ روزوں کو مکروہ یعنی ناپسندیدہ سمجھتے تهے
● الراي الثاني: الكراهة. وهو قول في المذهب الحنفي[136]، والمالكي[137{
● الرأي الثالث: كراهة صيامها متتابعة فإذا فرقت الأيام فلا بأس في ذلك[138]. وبه قال بعض المالكية[139] وأبويوسف وغيره من الحنفية[140{
احناف کی رائے:
امام ابویوسف رحمه اللہ ان روزوں کو مسلسل رکھنے کی کراہت کے قول کو نقل فرماتے ہیں، لیکن اگر یہ روزے متفرق طور پر رکهے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.
وقال ابن نُجيم في البحر الرائق: ومن المكروه… صوم ستة من شوال عند أبي حنيفة متفرقا كان أو متتابعا، وعن أبي يوسف كراهته متتابعا لا متفرقا [161{
وعامة مشايخ الأحناف لم يروا بذلك بأسا. (كما في فتح القدير 2/349(
“البحرالرائق” میں مطلقا کراہت کو نقل کیا گیا ہے لیکن “فتح القدیر” میں جمہور احناف کا قول ان روزوں کے استحباب کا نقل کیا ہے اور یہی قول ہمارے زمانے کے تمام فتاوی میں بهى موجود ہے.
امام مالک رحمه اللہ کی رائے:
امام مالک کی طرف ان روزوں کی کراہیت کا جو قول منسوب کیا جاتا ہے اس کے متعلق خود مالکیہ نے مختلف تاویلات کی ہیں:
١. ابن عبدالبر رحمه اللہ کا قول:
ابن عبدالبر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ان روزوں کی ممانعت ایک خاص وجہ سے کی ہے اور وہ یہ کہ ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے لہذا احتیاطا امام مالک نے ان روزوں کی کراہت کا قول فرمایا.
٢. ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ:
ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک اس بات سے ڈرتے تهے کہ کہیں لوگ ان روزوں کو واجب نہ سمجھ لیں اس لئے منع فرماتے تهے ورنہ امام مالک رحمه اللہ خود ان روزوں کو رکھتے تهے.
یہی بات امام قرطبی نے بهى مطرف کی روایت سے نقل کی ہے.
وذهب أبو عبدالله العبدري إلى تأويل آخر لقول مالك وهو: أن مالكا إنما كره صومها لسرعة أخذ الناس بقوله فيظن الجاهل وجوبها، وزعم العبدري -وهو من فقهاء المالكية- أنّ مالكا كان يصومها وحضَّ مالكٌ الرشيدَ على صيامها [168].
كما أن القرطبي قال: “وروي مطرف عن مالك أنه كان يصومها في خاصة نفسه”. [169]
اہل خراسان کا عمل:
امام مالک جس بات کا خوف کرتے تهے وہ عمل اہل خراسان نے شروع کیا کہ ان روزوں کا بهى باقاعدہ اسی طرح کا اہتمام کیا جاتا جیسا کہ رمضان کے روزوں میں کیا جاتا تھا.
قد وقع ما خافه الإمام مالك في بعض بلاد خراسان إذ كانوا يقومون لسحورها على عادتهم في رمضان (153(
جمہور مالکیة کا عمل:
جمہور مالکیہ کا عمل ابتداء سے ہی ان روزوں کے رکھنے کا ہے اور ابتدائی دور میں جب جہل زیادہ تھا تو خوف تھا کہ لوگ اسکو فرض کا حصہ نہ سمجھ بیٹہىں لیکن جب علم عام ہوا تو اب کراہت بهى ختم ہوگئی.
وللمالكية المتأخرين قيود معروفة لثبوت الكراهة، إذا انتفى قيد منها انتفت الكراهة.وعمل جمهورهم منذ زمن على المبادرة لصومها اتباعا لظاهر النص، بعد انتشار العلم وذهاب ما خشيه الإمام. والله أعلم.
خلاصہ کلام
شوال کے چھ روزوں کا ثبوت چونکہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے لہذا ان روزوں کے رکھنے پر اسی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے جو روایات میں وارد ہے.
اور جن فقہائے کرام کی طرف اسکی ممانعت کی نسبت تهى وہ عمومی ممانعت نہیں بلکہ ایک خاص نوعیت اور صورت میں تهى اور چونکہ موجودہ دور میں ان روزوں کو لازم یا رمضان کا حصہ سمجھنے کا خدشہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا لہذا اب ایسی ممانعت یا کراہت والی کوئی بات نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
23 رمضان المبارک 1438