بارش کے پانی سے شفا
سوال: ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل بتایا کہ جو شخص بارش کے پانی پر ستر(۷۰) بار سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر اس پانی کو سات دن تک صبح شام پیئے تو اس کو ہر بیماری سے شفا حاصل ہوگی. کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور عمل مختلف کتب شیعہ میں سند کے ساتھ اور کتب اہل سنت میں بغیر سند کے منقول ہے.
روایت کے الفاظ:
جو شخص یہ پانی پیئےگا اس کی رگوں سے، گوشت سے اور تمام اعضاء سے بیماری نکل جائےگی.
علَّمني جبريلُ عليه السَّلام دواءً لا أحتاجُ إلى دواءِ الأطبَّاء معه. فقال أبوبكرٍ وعُمرُ وعُثمانُ رضي الله عنهم: يارسولَ الله! نُحبُّ أن تُخبِرَنا بهذا الدعاء. قال: نَعَمْ. تأخُذُ من ماءِ المطرِ، وتقرأ عليه فاتحةَ الكتابِ سبعينَ مرَّةً، وآيةَ الكُرسيِّ سبعينَ مرَّةً، و{قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} سبعينَ مرَّةً، و{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} سبعينَ مَرَّةً و{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} سبعينَ مرَّةً، وتقول: لا إلهَ إلا اللهُ وحْدَه لا شريكَ له، له المُلْك وله الحَمدُ يُحْيي ويُميتُ، وهو حيٌّ لا يموتُ، بِيَدِه الخيرُ وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ سبعينَ مرَّةً، ثم تَشْرَبُ من ذلك الماءِ سبعَةَ أيَّامٍ متواليَةً، كل يومٍ قَدْرُ قَدَحٍ، والذي نفسي بيدِه إنَّ جبريلَ عليه السَّلام أخبَرَني أنَّ الله تعالى يدفَعُ عن الذي يَشربُ هذا الماءَ كلَّ داءٍ في جَسَدِه ويُخْرجُه مِن عُروقِه ولَحْمِه وجميعِ أعضائِه.
بعض روایات میں یہ اضافہ ہے کہ:
١. جن کی اولاد نہیں وہ یہ پانی پیئے تو اولاد ہوجائےگی.
٢. جس پر بندش ہو وہ آزاد ہوجائےگا.
٣. جس کو مستقل سر کا درد ہو وہ ٹھیک ہوجائےگا.
٤. جس کی آنکھیں خراب ہوں وہ ٹھیک ہوجائینگی.
٥. کان کی بیماری ٹھیک ہوجائےگی وغیرہ وغیرہ کئی بیماریوں کا اس میں ذکر ہے۔
قال النبي صلى الله عليه وسلم: “والذي بعثني بالحق، إنه من لم يولد له ولد وشرب من ذلك الماء هو وامرأته إلا رزقهما الله ولدا، وإن كان حصورا. وإن شرب منه المربوط يطلق بإذن الله، وقال جبريل عليه السلام: من كان به صداع الرأس وشرب من ذلك الماء نفعه بإذن الله، وإن كان به وجع العين ذهب عنه وجعه، وينتفع به من وجع الأذنين، ويشد أصول الأسنان، ويطيب الفم والنكهه، ولا يسيل من فمه اللعاب، وينقطع البلغم، ولا يتخم إذا أكل أو شرب ولا يتأذى بالرياح، ولا يصيبه الفالج، ولا تصيبه اللقوة، ولا يشتكي من وجع سرته وصلبه، ولا وجع صدره، ولا يصيبه البرد، ولا الحكة ولا الجدري، ولا يحتاج إلى الحجامة، ولا إلى قطع العروق، ولا يصيبه الطاعون ولا الرعاف، ولا الجذام، ولا نزف الدم ولا ضيق النفس، ولا الثواليل، ولا يصير أصم، ولا أخرس ولا يصيبه الإعياء، ولا الجرب، ولا يصيبه الماء الأسود في عينيه، ولا تخرج عليه الخنازير، ولا يصيبه الفزع في منامه، ولا الوسوسة ولا تصل إليه الجن ولا الشياطين، وإن سقيت منه البهيمة أو صب عليها انتفعت بذلك أن شاءالله تعالى”. (مکارم الأخلاق طبرسی، ابن زنجویه، الدر النظیم فی خواص القرآن العظیم).
شیخ طلحہ منیار صاحب کی تحریر:
شیخ طلحہ منیار صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ عمل اس ترکیب کے ساتھ عموما روافض کی کتابوں میں نیسان (سریانی، شمسی تقویم کے چوتھے مہینے) کے اعمال ووظائف میں ملتا ہے.
رافضی عالم مجلسی کی کتاب (بحار الأنوار) میں یہ عمل حسین بن حسن بن خلف کاشونی کی کتاب (زاد العابدین) کے حوالے سے منقول ہے، اور اسکی سند اس طرح سے مذکور ہے:
قال الکاشونی: أخبرنا الوالد أبوالفتح، حدثنا أبوبکر محمد بن عبدالله الخشابی البلخی، حدثنا أبونصر محمد بن أحمد بن محمد الباب حریزی، أخبرنا أبونصر عبدالله بن عباس المذکر البلخی، حدثنا أحمد بن أحید، حدثنا عیسی بن هارون، عن محمد بن جعفر بن عبدالله بن عمر، حدثنا نافع، عن ابن عمر…. فذكره.
سند مذکور (علی فرض ثبوته) کے بعض رواۃ اواخر سند میں معروف ہیں، باقی مجاھیل یا ضعفاء ہیں، خصوصا اوائل سند میں مذکورہ رواۃ تو روافض ہیں، مزید یہ ہے کہ اس روایت سے اہل سنت کی کتابیں خالی ہیں، اس لئے اس پر اعتماد نہیں کرسکتے، اسی طرح مذکورہ دعا کے جو عجیب وغریب فضائل روایت میں بتائے گئے ہیں، اسی سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا واضح ہے.
• بارش کے پانی سے نہانا:
حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ تھے کہ بارش ہونے لگی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بدن مبارک سے کپڑا ہٹایا تاکہ بارش کا پانی جسم اطہر کو لگے اور فرمایا کہ یہ ابھی رب کے پاس سے آیا ہے.
عن أنس قال: أصابنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مطر قال: فحسر رسول الله صلى الله عليه وسلم ثوبه حتى أصابه من المطر فقلنا: يارسول الله! لم صنعت هذا؟ قال: «لأنه حديث عهد بربه». [رواه الإمام مسلم (1494)، والبخاري في الأدب المفرد (571)، والإمام أحمد في المسند].
• سورہ کافرون اور سورہ فلق کو بطور علاج پڑھنا:
حضرت علی کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کو بچّھو نے ڈنک مارا، نماز کے بعد آپ علیه الصلاۃ والسلام نے فرمایا: بچھو پر لعنت ہو یہ کسی کو نہیں بخشتا، پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے نمک منگوایا اور اس جگہ لگا کر قل یاأیها الکافرون سورہ فلق اور سورہ الناس پڑھ کر دم کیا.
فابن القيم في “زاد المعاد” لم يره حديثاً وإنما عزاه لبعض الأطباء فقال: وقال بعض الأطباء: لو علم الناس منافعها، لاشتروها بوزنها ذهباً.
(الكافرون) و(الفلق) و(الناس) فورد فيها ما رواه الطبراني في “المعجم الصغير” (830) عن علي قال: لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي؛ فلما فرغ قال: “لعن الله العقرب لا تدع مصليا ولا غيره” ثم دعا بماء وملح وجعل يمسح عليها ويقرأ بقل ياأيها الكافرون، وقل أعوذ برب الفلق، وقل أعوذ برب الناس. [صححه الألباني في “الصحيحة” (548)]
• بارش کے پانی کو بطورِ علاج استعمال کرنا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو وہ اپنی بیوی کے مہر میں سے تین درہم لے اور اس سے شہد خرید لے اور اس کو بارش کے پانی کے ساتھ ملا کر پی لے تو اس کو شفا ملےگی کیونکہ تین اعلی چیزیں جمع ہوگئیں: بیوی کی رضامندی والا مال، بارش کا پاکیزہ پانی اور شفا والا شہد.
روى ابن أبي شيبة في “مصنفه” (5/59)، وابن أبي حاتم في تفسيره (3/862)، وابن المنذر في تفسيره (2/560) من طريق السُّدِّيِّ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ المُغِيرَةَ بن شُعبَة، عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: إِذَا اشْتَكَى أَحَدُكُمْ شَيْئًا فَلْيَسْأَلِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَةَ دَرَاهِمَ مِنْ صَدَاقِهَا، فَلْيَشْتَرِ بِهَا عَسَلًا، فَيَشْرَبْهُ بِمَاءِ السَّمَاءِ، فَيَجْمَعُ الله الْهَنِيءَ الْمَرِيءَ وَالْمَاءَ الْمُبَارَكَ وَالشِّفَاءَ.
وقال الحافظ في “الفتح” (10/170): أخرجه ابن أَبِي حَاتِمٍ فِي التَّفْسِيرِ بِسَنَدٍ حَسَنٍ.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند پر کلام کیا گیا ہے کیونکہ سدی الکبیر پر بعض محدثین نے سخت کلام کیا ہے اور اسی طرح یہ متشدد شیعوں میں سے تھا.
والسدي هو إسماعيل بن عبدالرحمن بن أبي كريمة أبومحمد القرشي مولاهم الكوفي الأعور، وهو السدي الكبير.
وثقه أحمد والعجلي وابن حبان.
وقال أبوزرعة: لين.
وقال أبوحاتم: يكتب حديثه ولا يحتج به.
وقال النسائي في الكنى: صالح.
وقال في موضع آخر: ليس به بأس.
وقال ابن عدي: له أحاديث يرويها عن عدة شيوخ، وهو عندي مستقيم الحديث، صدوق لا بأس به.
وقال حسين بن واقد: سمعت من السدي فأقمت حتى سمعته يتناول أبابكر وعمر، فلم أعد إليه.
وقال العقيلي: ضعيف وكان يتناول الشيخين.
وقال الساجي: صدوق فيه نظر.
وقال الطبري: لا يحتج بحديثه. (تهذيب التهذيب:1/313-314).
وقال الذهبي: رمى السدي بالتشيع. (ميزان الاعتدال:1/237).
خلاصہ کلام
بارش کا پانی پاکیزہ اور مبارک پانی ہے اور یقینا اپنی تازگی اور صفائی کی بنیاد پر دیگر پانی سے اعلی بھی ہے، لیکن اس پانی کے متعلق کوئی خاص عمل کسی مستند روایت میں منقول نہیں، البتہ جس قدر منقول ہے وہ سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے، لہذا سوال میں مذکور روایت کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ