علیہ السلام کا استعمال
سوال
مختلف کتابوں میں اور بیانات میں انبیائے کرام کے علاوہ دیگر حضرات کیلئے علیہ السلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، کیا انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ حضرات کیلئے لفظ “علیہ السلام” کا استعمال درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ لفظ صلاۃ اور سلام کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک ہے ان الفاظ کا اصطلاحی استعمال.
صلاۃ وسلام کا لغوی معنی:
صلاۃ کا لغوی معنی رحمت کے نزول کا ہوتا ہے، اور اس معنی میں صلاۃ کا استعمال روایات میں موجود ہے.
امام بخاری نے اپنی کتاب میں ترجمۃ الباب قائم کیا ہے
هَلْ يُصَلّٰی عَلٰی غَيْرِ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم.
“کیا نبی کے علاوہ کسی پر صلوٰۃ بھیجی جا سکتی ہے؟”
اور پھر درجہ ذیل روایت نقل کی:
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب بھی کوئی شخص صدقہ (ہدیہ) پیش کرتا تو سرکار فرماتے: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَيه ’’اے اللہ اس پر صلوٰۃ (رحمت) نازل فرما‘‘۔
میرے والد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا صدقہ (ہدیہ) لائے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِيْ اوفٰی.
’’اے اللہ! آل ابی اوفیٰ پر رحمت بھیج‘‘. (بخاری، کتاب الدعوات، ج: 2، ص:941، طبع کراچی، صحيح مسلم، ج:1، کتابُ الزکوة)
اسی طرح امام ابوداؤد نے بھی یہی باب قائم کر کے روایت نقل کی ہے:
سیدنا جابر اور ان کی زوجہ رضی اللہ عنہما کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی:
صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْكَ وَعَلٰی زَوْجِكَ.
’’اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہاری بیوی پر رحمت نازل فرمائے‘‘۔
١. صحيح ابن حبان، باب الادعية، ذکر الاباحاة… (3.197، رقم: 916)
٢. سنن ابی داؤد ، کتاب الصلوة، باب الصلوة علی غير النبی صلی الله عليه وآله وسلم. (2.88، رقم: 1533)
لفظ سلام کا لغوی معنی میں استعمال:
جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں اس کو واضح کیا گیا ہے:
واضح رہے کہ کسی بزرگ کے نام کے ساتھ “علیہ السلام” کا لفظ کہنا شرعاً ممنوع نہیں ہے؛ کیوں کہ “علیہ السلام” کا معنیٰ ہے: “اس پر سلامتی ہو”، اور ہم آپس میں بھی جو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں “السلام علیکم” اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ “تم پر سلامتی ہو”، تو شرعاً اس کے کہنے میں کچھ ممانعت نہیں ہے، البتہ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں “علیہ السلام” کے الفاظ انبیاء کے ساتھ خاص ہیں، اور “رضی اللہ عنہ” کے الفاظ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ شعائرِ اہلِ سنت میں سے ہے، جو کوئی اس کے خلاف کرتا ہے وہ شعائرِ اہلِ سنت کے خلاف کرتا ہے. واللہ اعلم.
کتبہ: محمد ولی درویش (17/1/1403)
اہل بیت کیلئے علیہ السلام کا استعمال:
اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے علیہ السلام کا استعمال سابقین امت کے ہاں جائز رہا ہے، اور امام بخاری سے لے کر مابعد کے بہت سارے مصنفین نے اس کا استعمال کیا ہے.
١. امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں (700/2) پر حسنین کریمین کیلئے علیہ السلام کا استعمال کرتے ہیں.
هذه الآية دالة على أن الحسن والحسين عليهما السلام كانا إبني رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٢. اسی طرح تفسیر کبیر میں (3/722) پر حضرت علی کیلئے لکھتے ہیں: لا يجوز إسناده إلى علي عليه السلام.
٣. اسی صفحہ پر تیسری سطر میں ہے: وهو أن اللائق بعلي عليه السلام.
سید محمود آلوسی بغدادی “روح المعانی” میں لکھتے ہیں کہ صلاۃ کا استعمال انبیاء کرام اور فرشتوں کے علاوہ دیگر افراد کیلئے کرنے کے متعلق مختلف اقوال ہیں، البتہ قاضی عیاض مطلقا اس کو جائز قرار دیتے ہیں، اور یہی عام قول ہے، اور بطور دلیل یہ آیت پیش کرتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے تم پر صلاۃ بھیجتے ہیں.
اسی طرح ابن ابی اوفی والی روایت اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ! اپنی رحمت اور برکت سعد بن عبادہ کو عطا فرما.
وأما الصلاة على غير الأنبياء والملائكة عليهم السّلام فقد اضطربت فيها أقوال العلماء.. فقيل: تجوز مطلقا، قاله القاضي عياض: وعليه عامة أهل العلم، واستدل له بقوله تعالى: {هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلائِكَتُهُ} وبما صح من قوله صلّى الله عليه وسلم: «اللهم صلّ على آل أبي أوفى» وقوله عليه الصلاة والسلام وقد رفع يديه: «اللهم اجعل صلواتك ورحمتك على آل سعد بن عبادة» (روح المعاني، جلد: 22، ص: 85، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان)
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے عربی رسالہ “سر الشهادتین” میں جابجا اہل بیت اطہار کے ناموں کے ساتھ “علیہ السلام” استعمال فرماتے ہیں
چنانچہ کتاب “سر الشهادتین” (مطبوعہ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ، لاہور) کے صفحہ نمبر 72 پر ہے:
فتوجهت عناية الله تعالى بعد انقضاء أيام الخلافة إلى هذا الإلحاق فاستنابت الحسنين عليهما السلام مناب جدهما عليه افضل الصلوات والتحيات.
صفحہ نمبر 86 پر ہے:
وكتب إلى عامله بالمدينة الوليد بن عقبة أن يأخذ البيعة من الحسين عليه السلام فامتنع الحسين عليه السلام من بيعته. ولما وصل الخبر إلى أهل كوفة اتفق منهم جمع كثير وكتبوا إلى الحسين عليه السلام يدعونه إليهم.
صفحہ نمبر 88 پر ہے:
وفي ذلك اليوم خرج الحسين عليه السلام من مكة إلى الكوفة.
اسی طرح حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اہل سنت کے متقدمین کے ہاں اہل بیت، آپ کی اولاد، آپ کی ازواج مطہرات کیلئے علیہ السلام کا استعمال رہا ہے، البتہ متأخرین نے اس کو چھوڑ دیا ہے.
و متعارف در متقدمین تسلیم بود بر اہل بیت رسول از ذریت و ازواج مطہرات و در کتب قدیمہ از مشائخ اہل سنت و جماعت کتابت آں یافتہ می شود۔ و در متأخرين ترک آں متعارف شدہ است. واللہ تعالیٰ اعلم. (أشعة اللمعات شرح مشکوۃ، جلد اول، صفحہ: 405)
متأخرين علماء اہل سنت نے علیہ السلام کا استعمال اہل بیت اطہار کیلئے کیوں منع کیا؟
فتاوی عزیزی میں ایک سوال کے جواب میں اس کی تفصیل ہے:
جواب: تحفۂ اثنا عشریہ میں کسی جگہ صلوۃ بالاستقلال غیر انبیاء کے حق میں نہیں لکھا گیا، البتہ لفظ “علیہ السلام” کا حضرت امیر المؤمنین اور حضرت سیدۃ النساء و جناب حسنین و دیگر أئمہ کے حق میں مذکور ہے اور اہلِ سنت کا مذہب یہی ہے کہ صلوٰۃ بالاستقلال غیر انبیاء کے حق میں درست نہیں اور لفظ سلام کا غیر انبیاء کی شان میں کہہ سکتے ہیں۔ اس کی سند یہ ہے کہ اہل سنت کی کتب قدیمۂ حدیث میں علی الخصوص ابوداؤد و صحیح بخاری میں حضرت علی و حضرات حسنین و حضرت فاطمہ و حضرت خدیجہ و حضرت عباس کے ذکر مبارک کے ساتھ لفظ علیہ السلام کا مذکور ہے۔ البتہ بعض علمائے ماوراء النہر نے شیعہ کی مشابہت کے لحاظ سے اس کو منع لکھا ہے، لیکن فی الواقع مشابہت بدوں کی امر خیر (غیر) میں منع ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ پہلی کتاب اصول حنفیہ کی شاشی ہے۔ اس میں نفس خطبہ میں بعد حمد و صلٰوۃ کے لکھا ہے: “والسلام على أبي حنيفة واحبابه” یعنی سلام نازل ہو حضرت ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ پر اور آپ کے احباب پر۔ اور ظاہر ہے کہ مرتبہ حضرات موصوفین کا جن کا نام نامی اوپر مذکور ہوا حضرت امام اعظم کے مرتبہ سے کم نہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے نزدیک بھی لفظ سلام کا اطلاق ان بزرگوں کی شان میں بہتر ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ لفظ “علیہ السلام” غیر انبیاء کی شان میں کہنا چاہیئے۔ چنانچہ یہ حدیث ہے: “عليه السلام تحية الموتى” یعنی اموات کی شان میں علیہ السلام کہنا ان کے لئے تحفہ ہے. یعنی بلا تخصیص ہر میت مسلمان کے لئے لفظ علیہ السلام کا تحفہ ہے تو اہل اسلام میں غیر انبیاء کی شان میں بھی علیہ السلام کہنا شرعاً ثابت ہے. (فتاویٰ عزیزی اردو، ص:261-260، ناشر: ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل، پاکستان چوک، کراچی)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اب یہ اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اسلئے اس سے احتراز کرنا چاہیئے.
أن قوله: “علي علیه السلام” من شعار أھل البدعة، فلا یستحسن في مقام المرام.” (فقہ اکبر، ص:167، ط:قدیمی)
علامہ شامی لکھتے ہیں کہ علیہ السلام کا استعمال اب رافضی بعض ائمہ کیلئے کرتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت سے بچنا چاہیئے.
وَإِنَّمَا أَحْدَثَهُ الرَّافِضَةُ فِي بَعْضِ الْأَئِمَّةِ وَالتَّشَبُّهُ بِأَهْلِ الْبِدَعِ مَنْهِيٌّ عَنْهُ فَتَجِبُ مُخَالَفَتُهُمْ اهـ. أقُولُ: وَكَرَاهَةُ التَّشَبُّهِ بِأَهْلِ الْبِدَعِ مُقَرَّرَةٌ عِنْدَنَا أَيْضًا لَكِنْ لَا مُطْلَقًا بَلْ فِي الْمَذْمُومِ وَفِيمَا قُصِدَ بِهِ التَّشَبُّهُ بِهِمْ. (شامی، جلد:5، صفحہ: 658).
مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب جـد الممتـار میں فرماتے ہیں کہ
اب حضرت علی کو علیہ السلام کہنا روافض کا شعار بن چکا ہے، اور اس کے منع پر اجماع منعقد ہو چکا ہے، لہذا اب ان حضرات کیلئے علیہ السلام کا استعمال اس کے بعد کوئی مطلب نہیں رکھتا.
ان افراد غیر الانبیاء بالسلام ابتداء واجب الاجتناب وصرح علی القاری فی شرح الفقه الاکبر ان قول علیه السلام لسیدنا علي کرم الله وجهه من شعار الروافض، قلت: واذ قد انعقد الاجماع علی منعه فلا معنی لارتکابه.
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے
غیر نبی کے لئے بھی ’علیہ السلام‘ کا استعمال کر سکتے ہیں، البتہ اہل بیت میں سے بعض حضرات کو مثل نبی معصوم، مفترض الطاعہ سمجھ کر ان کے نام کے ساتھ امام یا علیہ السلام لگانا جائز نہیں. (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
خلاصہ کلام
صلاۃ وسلام کے الفاظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے کسی بھی شخص کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں، لیکن چونکہ اب امت کا تعامل ان الفاظ کے استعمال میں انبیائے کرام اور فرشتوں کیلئے خاص ہو چکا ہے لہذا کسی اور کیلئے استعمال کرنے سے مشابہت کا شبہ ہوتا ہے، جس سے بچنا چاہیئے.
علیہ السلام کا استعمال اگرچہ زمانہ قدیم میں بزرگ ہستیوں کیلئے ہوتا رہا ہے، لیکن اب یہ غلط عقیدے کی علامت بن چکا ہے، اور اہل سنت والجماعت کا اجماع ہو چکا ہے کہ شعارِ روافض کی وجہ سے اب اس کو بھی ترک کر دینا چاہیئے، البتہ اگر کوئی صحیح العقیدہ شخص کبھی اس لفظ کا استعمال کسی معزز ہستی کیلئے کرلے تو اس کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جا سکتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ اکتوبر ٢٠٢٣ کراچی