قبر ابراہیم ومولد عیسی پر نماز
سوال
محترم مفتی صاحب!
مندرجہ ذیل واقعے کی تصدیق، اور اس میں بیان کردہ روایت کی تخریج وتحقيق مطلوب ہے…
آل سعود کو جب حکومت ملی تو انہوں نے سوچا کہ جہاں بھی کوئی بدعت ہو اسکو ختم کیا جائے، اِس نیت سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ گھر بھی ختم کرنا چاہا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے (مولد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)
بادشاہِ وقت نے علماء سے کہا کہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے، ساری دنیا سے علماء کو بلایا جائے، اُن سے تائید لینے کے بعد ایسا کریں گے، تو دارالعلوم دیوبند کو بھی مدعو کیا گیا، دیوبند سے امام العصر شیخ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے، جب امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش پر گئے تو اپنا سینہ مبارک وہاں کی زمین سے لگایا اور دو رکعت نفل پڑھے، وہاں کے علماء نے اعتراض کیا کہ یہی بدعت ختم کرنے کے لئے آپ سب کو مدعو کیا گیا ہے اور آپ خود ایسا کرتے ہیں..
تو امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ معراج کی رات حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ دو رکعت نماز پڑھنے کا کہا، جب امام الانبیاء خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور اُس جگہ کے بارے میں پوچھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے..
پھر مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے عرب علماء سے فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش اگر محترم ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش (مولد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں محترم نہیں؟
عرب علماء کے پاس اسکا کوئی جواب نہ تھا، گھر کو قائم رکھا اور وہاں لائبریری بنائی.
تفسیر مفتی محمد زرولی خان صاحب سے اقتباس
(سائل باور خان، سوات کوٹہ)
الجواب باسمه تعالی
آپ نے جو پوسٹ ارسال کی ہے، اس میں مذکور واقعہ کے بارے میں ہمیں باوجود تلاش بسیار کے کچھ نہ مل سکا، البتہ جہاں بھی یہ واقعہ نقل ملا مفتی زرولی خان رحمہ اللہ کی نسبت سے ملا ہے…واللہ اعلم.
ذکر کردہ روایت کا حکم
قطع نظر اس واقعے کی صحت کے اس میں بیان کردہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں.
□ رَوَى عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ مَرَّ بِي جِبْرِيلُ بِقَبْرِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ! انْزِلْ فَصَلِّ هُنَا رَكْعَتَيْنِ هَذَا قَبْرُ أَبِيكَ إِبْرَاهِيمَ، ثُمَّ مَرَّ بِي بِبَيْتِ لَحْمٍ، فَقَالَ انْزِلْ فَصَلِّ هَاهُنَا رَكْعَتَيْنِ، فَإِنَّهُ هُنَا وُلِدَ أَخُوكَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، ثُمَّ أَتَى بِي إِلَى الصَّخْرَةِ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ! مِنْ هُنَا عَرَجَ رَبُّكَ إِلَى السَّمَاءِ”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت
١. علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں اس روایت کو نقل کر کے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے، اس کا سبب راوی بکر بن زیاد الباہلی ہے.
٢. اسی طرح تقی الدین السبکی نے “شفاء السقام” میں صفحہ نمبر 247 پر اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے.
٣. علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے (اقتضاء الصراط المستقيم 2/352) میں بھی اس کو من گھڑت قرار دیا ہے.
مقام ولادت عیسی علیہ السلام پر دو رکعت پڑھنا
بیہقی نے دلائل نبوۃ میں معراج کی رات کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے، کہ جبریل علیہ السلام نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو چند مقامات پر اتر کر نماز پڑھنے کا حکم دیا،
یثرب دارالہجرۃ، مدین میں موسی علیہ السلام والے درخت کے پاس، جس کے نیچے بیٹھے تھے،
طور سینا پر نماز کا حکم دیا،
اور بیت اللحم جہاں عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے تھے،
فی البزَّار والطبراني والبَيْهقي وصحَّحه في كتابه “دلائل النبوة” من حديث شداد بن أوس أن النبي (صلى الله عليه وسلم) لما أُسرِي به مرَّ بأرض ذات نخْل، فأمره جبريل أن ينزل من فوق البُراق ليصلِّي، فصلَّى ثم أخبره أن المكان الذي صلى فيه هو يثرب أو طيبة، وإليها المهاجر، ثم أمره أن يصلِّي عندما مر بمُدَّين عند شجرة موسى، وهي التي استظل بها بعد أن سقى الغنم للمرأتين قبل أن يلتقي بأبيهما – كما قال بعض الشُّراح- ولمَّا مرَّ الركْب بطُور سَيْناء أمره أن يصلِّي أيضًا، وذلك حيث كلَّم الله موسى، وعند المرور ببيت لحم صلَّى أيضًا، وذلك حيث وُلِد عيسى ابن مريم.
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر
ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے (تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار، الجزء الأول، صفحة 23) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر کا تذکرہ کیا ہے، اور دلیل کے طور پر یہی روایت المسفر للقلوب نامی کتاب (جس کے مصنف علی بن جعفر الرازي ہیں) سے پیش کی ہے.
جبکہ علامہ ابن کثیر نے اس کو تعامل امت قرار دیا کہ زمانہ بنی اسرائیل سے آج تک یہی مشہور ہے کہ یہ مقام ابراہیم علیہ السلام کی قبر کا ہے، اور یہی کافی ہے.
□ وقال ابن كثير في البداية والنهاية 1/175) فقبره (أي قبر سيدنا إبراهيم عليه السلام) وقبر ولده اسحاق وقبر ولد ولده يعقوب في المربعة التي بناها سليمان بن داود عليهما السلام ببلد “حبرون” وهو البلد المعروف بالخليل اليوم، وهذا تلقى بالتواتر أمة بعد أمة وجيل بعد جيل من زمن بني اسرائيل وإلى زماننا هذا أن قبره بالمربعة تحقيقا.
خلاصہ کلام
انبیاء کرام علیہم السلام کے تبرکات یقیناً دنیا کی قیمتی ترین اشیاء میں شمار ہوتے ہیں، اور جس کو حاصل ہو وہ یقیناً اس کو اپنے سر آنکھوں پر رکھےگا.
لیکن سوال میں حضرت شاہ صاحب سے جس روایت کو منسوب کیا گیا ہے، وہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں.
لہذا اس پوسٹ کو شیئر کرنا، اور پھیلانا ہرگز ہرگز درست نہیں، اور نہ ہی خیر القرون میں سے کسی کا مقامِ ولادۃِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر نماز پڑھنا ثابت ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢ اکتوبر ٢٠٢٣ کراچی