جنید بغدادی اور غریب
سوال: ایک واقعے بیان کیا جاتا ہے کہ جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے. انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور، نحیف اور لاغر شخص آگیا. میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا. بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا. مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا: دیکھو جنید! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے، میں انتہائی غریب اور مجبور ہوں، اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازےگا، لیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندوبست کرنا میرے لئے مشکل ہوجائیگا. مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے. بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، اس نے دوبارہ اور پھر سہہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں دفعہ ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی. بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا کہ جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا جائے اور تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو بھی یہاں سے گذرےگا جنید پر تھوکتا ہوا جائےگا، جنید بغدادی کی أنا خاک میں مل گئی لیکن انکی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لئے آسمانوں پر سنا دیا گیا. کیا یہ واقعہ درست ہے؟ (سائل: مفتی سعد پراچہ صاحب)
الجواب باسمه تعالی
جنید بغدادی صاحب کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے لیکن تاریخی اعتبار سے یہ واقعہ درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ تاریخ کی معتبر کتب میں شیخ کی پیدائش، تعلیم اور پھر امت کو نفع پہنچانے کی پوری تفصیل موجود ہے، لیکن کہیں پر بھی ان کا پہلوان ہونا یا کسی اور عمل میں لگنا مذکور نہیں.
جنید بغدادی کی پیدائش اور تعلیم وتربیت:
ان کا نام جنید بن محمد بن جنید ہے، یہ اصلا نہاوند کے تھے لیکن ان کی پیدائش بغداد میں ہوئی، اپنے زمانے کے عظیم بزرگ سری سقطی رحمه اللہ ان کے ماموں تھے، بغداد میں پرورش ہوئی، وہیں پر علوم حاصل کئے اور مجاہدات کے ذریعے اپنے زمانے کی عظیم شخصیت بن گئے.
وهو: الجنيد بن مُحَمَّدِ بْنِ الجنيد أَبُوالْقَاسِمِ الخزاز، ويقال القواريري.
– وقيل: كان أبوه قواريريا، وكان هو خزازا، وأصله من نهاوند، إلا أن مولده ومنشأه ببغداد.
• قال الخطيب البغدادي رحمه الله: سمع بها الحديث، ولقي العلماء، ودرس الفقه عَلَى أَبِي ثور، وصحب جماعة من الصالحين، منهم الحارث المحاسبي، وسري السقطي.
وَتَفَقَّهَ عَلَى أَبِي ثَوْرٍ صاحب الإمام الشافعي. وَسَمِعَ مِنَ السَّرِيِّ السَّقَطِيِّ وَصَحِبَهُ، ثم اشتغل بالعبادة ولازمها حتى علت سنه، وصار شيخ وقته، وفريد عصره فِي علم الأحوال والكلام عَلَى لسان الصوفية، وطريقة الوعظ.
وله أخبار مشهورة، وأسند الحديث عَنِ الْحَسَن بن عرفة. (تاريخ بغداد: 8/168).
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ صوفیہ کے شیخ ہیں، خوب علم حاصل کیا اور ریاضت کے ذریعے اعلی درجے پر پہنچے مگر روایات کم ہی نقل کی ہیں.
وقال الذهبي رحمه الله: هُوَ شَيْخُ الصُّوْفِيَّةِ، وُلِدَ سَنَةَ نَيِّفٍ وَعِشْرِيْنَ وَمائَتَيْنِ، وَتَفَقَّهَ عَلَى أَبِي ثَوْرٍ.
• وَسَمِعَ مِنَ: السَّرِيِّ السَّقَطِيِّ، وَصَحِبَهُ، وَمِنَ الحَسَنِ بنِ عَرَفَةَ، وَصَحِبَ أَيْضاً: الحَارِثَ المُحَاسِبِيَّ، وَأَبَاحَمْزَةَ البَغْدَادِيَّ، وَأَتْقَنَ العِلْمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى شَأْنِهِ، وَتَأَلَّهَ، وَتَعَبَّدَ، وَقَلَّ مَا روى.
• حَدَّثَ عَنْهُ: جَعْفَرٌ الخُلْدِيُّ، وَأَبُومُحَمَّدٍ الجَرِيْرِيُّ، وَأَبُوبَكْرٍ الشِّبْلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ حُبَيْشٍ، وَعَبْدُالوَاحِدِ بنُ عِلْوَانَ، وَعِدَّةٌ. (سير أعلام النبلاء:11/43).
ابونعیم کہتے ہیں کہ جنید رحمه اللہ کا علم مضبوط علم تھا.
فقال أبونعيم الحافظ رحمه الله: كَانَ الْجُنَيْدُ رَحِمَهُ الله مِمَّنْ أَحْكَمَ عِلْمَ الشَّرِيعَةِ. (حلية الأولياء: 13/281).
علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جنید بغدادی صاحب اہلِ معرفت کے امام تھے جو قرآن و سنت کے راستے پر چلے.
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: الْجُنَيْد مِنْ شُيُوخِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ الْمُتَّبِعِينَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ. (مجموع الفتاوى: 5/126).
وقال أيضا: كَانَ الْجُنَيْد رحمه الله سَيِّدُ الطَّائِفَةِ، إمَامَ هُدًى. (مجموع الفتاوى:5/491)
امام ذہبی کہتے ہیں کہ وہ عارفین کے شیخ، سب کے رہنما اور اپنے زمانے کے تمام اولیاء سے زیادہ علم والے تھے.
وقال الحافظ الذهبي رحمه الله: كان شيخ العارفين وقُدْوة السّائرين وعَلَم الأولياء في زمانه، رحمة الله عليه. (تاريخ الإسلام: 22/72)
احمد بن جعفر کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے مشائخ سے علم حاصل کیا اور ذہانت اور سمجھداری کے اعلی درجے پر تھے.
وقال أحمد بن جعفر بن المنادي في تاريخه: سمع الكثير، وشاهد الصالحين وأهلَ المعرفة، ورزق من الذكاء وصواب الإجابات في فنون العلم، ما لم ير في زمانه مثله، عند أحد من أقرانه، ولا ممن أرفع سنا منه، في عفاف وعزوف عن الدّنيا وأبنائها.
جنید بغدادی خود فرماتے ہیں کہ میں ابوثور کی مجلس میں بیس(٢٠) سال کی عمر میں فتوے دیا کرتا تھا.
لقد قيل لي إنّه قال ذات يوم: كنت أُفتي في حلقة أبي ثَوْر الكلبيّ، ولي عشرون سنة.
جنید بغدادی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سات سال کی عمر میں کھیل رہا تھا کہ میرے ماموں اور مشہور بزرگ سری سقطی نے مجھ سے پوچھا کہ شکر کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ اللہ کی نعمتوں سے اللہ کی نافرمانی نہ کی جائے.
قَالَ الجُنَيْدُ: كُنْتُ بَيْنَ يَدَيِ السِّرِيِّ أَلْعَبُ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِيْنَ، فَتَكَلَّمُوا فِي الشُّكْرِ؟ فَقَالَ: يَا غُلاَمُ! مَا الشُّكْرُ؟ قُلْتُ: أَنْ لاَ يُعْصَى اللهُ بِنِعَمِهِ.
جنید بغدادی کو خلافت ان کے ماموں سری سقطی نے دی، ان کو معروف کرخی نے اور ان کو داودطائی نے اور ان کو حسن بصری نے جبکہ ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دی تھی.
واتفق العلماء على أن طريقة الإمام الجنيد طريقة متبعة، ومذهبه مذهب سالم. أخذ الطريقة ولبس الخرقة من يد خاله السرِي السقطي رضي الله عنه، وهو لبسها من يد الإمام معروف الكرخي، وهو لبسها من يد الإمام داود الطائي، وهو لبسها من يد الإمام الحسن البصري، وهو لبسها من يد سيدنا ومولانا الإمام علي بن أبي طالب رضي الله عنه، كما أورد ذلك الحافظ السيوطي.
جنید بغدادی کی خلافت کا عجیب واقعہ:
جب جنید بغدادی تیس سال کے ہوئے تو ان کے ماموں سری سقطی رحمه اللہ نے ان کو مجلس علم لگانے کا حکم دیا لیکن جنید بغدادی اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے. (جبکہ بیس سال کی عمر میں انہوں نے ابوثور رحمه اللہ کی سرپرستی میں فتوے دینا بھی شروع کردیئے تھے).
ایک رات خواب میں آپ علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور حکم ہوا کہ مجلسِ علم قائم کرو.
یہ صبح سویرے ماموں سری سقطی کے دروازے پر آگئے تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے حکم نہیں آیا ہماری بات نہیں مانی، اس کے بعد انہوں نے علمی مجلس لگانا شروع کردی.
حصّل الجنيد العلم الضروري الذي لا يحصل إلا بالنقل وهو علم الفقه والحديث على أبي ثور، وكان يُفتي بحضرته وهو ابن عشرين سنة، ولم يكد يبلغ الثلاثين من عمره حتى رأى السرّي السقطي أنه أصبح مُؤهّلاً للجلوس والتدريس وإدارة حلقات العلم بالمساجد، غير أنه تحشّم ولم يجد نفسه أهلا لذلك، حتى رأى ليلة في المنام رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت ليلة جمعة، فقال له صلى الله عليه وسلم: تكلّم على الناس، فانتبه من نومه وأتى باب السرّي السقطي قبل أن يصبح…، فقال له السرّي: لم تُصدِّقنا حتى قيل لك…، وكان أمرُ رسول الله صلى الله عليه وسلم حاسما، فقعد الجنيد في غدٍ للناس بالجامع. [وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، أبوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر بن خلكان (608-681ھ)، حقق أصوله وكتب هوامشه: يوسف علي طويل، ومريم قاسم طويل، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، (ط1، 1419ھ/1998م، 1/347)]
شیخ کا انتقال ٢٩٧ ہجری میں بغداد ہی میں ہوا اور وہیں پر انکا مزار ہے.
توفي رضي الله عنه سنة (٢٩٧هـ) ومقامه في الجانب الغربي من مدينة بغداد مزار ظاهر على رؤوس الأشهاد.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور یہ واقعہ اگرچہ اسنادی تحقیق کے زمرے میں نہیں آتا لیکن تاریخی طور پر اس واقعے کی صحت درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ محققین علمائےکرام نے شیخ بغدادی کی زندگی کے ہر حصے کو بیان کیا ہے لیکن یہ واقعہ کسی مستند جگہ نہ مل سکا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ