شوہر کیلئے مرنے کے بعد بیوی کو غسل دینے کا حکم
سوال: شوہر کیلئے مرنے کے بعد بیوی کو غسل دینے کا حکم.
الجواب باسمه تعالی
اس مسئلے میں کچھ امور وضاحت طلب ہیں:
1. بیوی کا شوہر کو غسل دینا.
2. شوہر کا بیوی کو غسل دینا.
3. فقہائے کرام کا اختلاف.
4. روایات پر کلام.
بیوی کا شوہر کو غسل دینا.
اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ دونوں کے درمیان نکاح باقی ہے اور اسی بنیاد پر بیوی شوہر کی عدت گذارتی ہے.
قال الإمام ابن قدمة في المغني: (مَسْأَلَةٌ: قَالَ: وَتُغَسِّلُ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ تُغَسِّلُ زَوْجَهَا إذَا مَاتَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ اسْتَقْبَلْنَا مِنْ أَمْرِنَا مَا اسْتَدْبَرْنَا؛ مَا غَسَّلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إلَّا نِسَاؤُهُ.
)رَوَاهُ أَبُو دَاوُد(
وَأَوْصَى أَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه أَنْ تُغَسِّلَهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَكَانَتْ صَائِمَةً، فَعُزِمَ عَلَيْهَا أَنْ تُفْطِرَ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ غُسْلِهِ ذَكَرَتْ يَمِينَهُ، فَقَالَتْ: لَا أُتْبِعُهُ الْيَوْمَ حِنْثًا؛ فَدَعَتْ بِمَاءٍ فَشَرِبَتْ، وَأَوْصَى جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ أَنْ تُغَسِّلَهُ امْرَأَتُهُ.
قَالَ أَحْمَدُ: لَيْسَ فِيهِ اخْتِلَافٌ بَيْنَ النَّاسِ.
وعنها رضي الله عنها أنها قالت -بعد موت النبي صلى الله عليه وسلم- لو استقبلنا من أمرنا ما استدبرنا ما غسل رسول الله غير نسائه.
صحيح.
– أخرجه أبو داود (3141(
– وابن ماجه (1464(
– وابن حبان في صحيحه (6552(
– والحاكم في المستدرك (3/59(
– والبغوي في شرح السنة (1484(
– وضعّفه النووي في المجموع (5/114(
– وقال البوصيري في الزوائد: إسناده صحيح ورجاله ثقات.
– وحسنه الألباني في موارد الظمآن (2056(
-وأخرج مالك في “الموطأ” صـ200 في “كتاب الجنائز”، “باب غسل الميت” عن عبد الله بن أبي بكر أن أسماء بنت عميس غسلت أبابكر الصديق حين توفي ثم خرجت فسألت من حضرها من المهاجرين فقالت: (إني صائمة وأن هذا يوم شديد البرد فهل علي من غسل؟ فقالوا: لا(
– وأخرجه أيضاً عبد الرزاق في “المصنف” (6143(
)فتاوی محمودیہ: ج 8، صفحہ 493(
عورت کیلئے یہ جائز ہے کہ مرنے کے بعد شوہر کو غسل اور کفن دے.
فتاوی رحیمیہ اور احسن الفتاوی میں بهى یہی مضمون موجود ہے.
شوہر کا بیوی کو غسل دینا.
جمہور امت آئمہ ثلاثہ کے نزدیک شوہر کیلئے مرنے کے بعد بیوی کو غسل دینا جائز ہے اور احناف کے نزدیک اس کی اجازت نہیں.
اجازت کے قائلین:
وبه قال من الصحابة علي ابن أبي طالب وابن عباس، وغيرهما، ومن التابعين والفقهاء سعيد بن المسيب، والحسن، والنخعي، وعطاء، وقتادة، والزهري، ويحيى بن سعيد القطان، ومالك، والليث، وعلقمة، وجابر بن زيد، وعبد الرحمن بن الأسود، وسليمان بن يسار، وأبوسلمة بن عبدالرحمن، وحمّاد بن أبي سليمان، والأوزاعي، والشافعي، وأحمد بن حنبل، وإسحاق.
– انظر الأوسط لابن المنذر (5/336(
– والإنتصار في مسائل الكبار لأبي الخطاب محفوظ بن أحمد الحنبلی (2/660-661(
عدم جواز کے قائلین:
المذهب الثالث: تغسله ولا يغسلها، وهو قول أبي حنيفة وأصحابه والثوري واستدلوا: ما أخرجه ابن أبي شيبة في “المصنف” عن مسروق قال: (ماتت امرأة لعمر فقال: إنا كنا أولى إذا كانت حية، فأما الآن فأنتم أولى بها(
– وهذا سند رجاله ثقات إلا يزيد بن أبي سليمان، وهو الكوفي، سكت عنه الذهبي.
– وقال الحافظ في التقريب: مقبول.
○ وقالوا إن الرجل لا عدة عليه وكيف يغسل امرأته وهي يحل له أن يتزوج أختها ويتزوج ابنتها إذا لم يكن دخل بها.
– الآثار لأبي الحسن الشيباني (2/38(
روایات پر کلام:
جو حضرات جواز کے قائل ہیں ان کے دلائل:
١. حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ تشریف لائے اور اپنا سر مبارک پکڑ کر فرمایا ہائے میرے سر میں درد ہے؛
حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ میرے سر میں بهى شدید درد ہے تو حضور ﷺنے فرمایا کہ عائشہ تم کو کیا فکر ہے اگر تم پہلے انتقال کرجاؤ تو میں تم کو غسل دونگا….. الی آخرہ.
وحديث عائشة عند الدارقطني (192) أنها قالت (رجع إلي رسول الله من جنازة ببقيع وأنا أجد صداعاً في رأسي، وأقول وآ رأساه فقال: (بل أنا وا رأساه ما ضرك لو مت قبلي فغسلتك وكفنتك ثم صليت عليك ودفنتك).
– أخرجه الدارمي (1/37(
– وابن ماجه (1464(
– وأبو يعلى في وصححه الألباني في أحكام الجنائز 67.
٢. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ کو غسل دینا.
حضرت فاطمہ نے اس بات کی وصیت کی تهى مجهےحضرت علی غسل دینگے اور پھر انکو حضرت علی نے غسل دیا.
غسل علي ابن أبي طالب امرأته فاطمة بنت محمد صلى الله عليه وسلم.
– أخرجه عبد الرزاق (6177) و (6124(
– والدارقطني (2/79) رقم (12(
– والبيهقي في السنن (3/396(
– وحسنه الحافظ في تلخيص الحبير (2/150(
– والشوكاني في نيل الأوطار (2/54(
– والألباني في الإرواء (3/162(
٣. ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھما کا عمل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے تهے کہ شوہر ہی بیوی کو غسل دینے کا حقدار ہے، اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما کے بارے میں وارد ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو غسل دیا.
وقال ابن عباس: “الرجل أحق بغسل امرأته” وغسل ابن مسعود امرأته.
ولم يخالف غير أصحاب الرأي.
انظر شرح السنة للبغوي (5/310-311(
احناف کی طرف سے جوابات
1. روایت عائشہ صدیقہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں آپ ﷺنے لاڈ کے انداز میں فرمایا اور مقصود انتظامات کرنا تھا.
2. حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو جو غسل دیا وہ ایک تخصیصی امر تھا جیسے ابن مسعود کے سوال کرنے پر حضرت علی نے جواب دیا کہ فاطمہ میری دنیا اور آخرت کی بیوی ہے اسلئے میں نے انکو غسل دیا.
عقلی دلیل
اس بیوی کی موجودگی میں جن خواتین سے نکاح ناجائز تھا بیوی کا انتقال ہوتے ہی وہ تمام خواتین اس مرد کیلئے حلال ہوگئیں، مثلا: بیوی کی بھن، بھتیجی، بھانجی وغیرہ. اس سے معلوم ہوا کہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہذا شوہر بیوی کو دیکھ سکتا ہے لیکن چهونا جائز نہیں.
وأجابوا عن حديث عائشة “غسلتك”: أي قمت بأسباب غسلك؛ كما يقال بني فلان داراً وإن لم يكن هو بني…
وحديث علي رضي الله عنه أنه غسلها -فاطمة- فقد ورد أن فاطمة غسلتها أم أيمن… ولو ثبت أن علياً رضي الله عنه غسلها فقد أنكر عليه ابن مسعود رضي الله عنه حتی قال له علي: أما علمت أن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال: (فاطمة زوجتك فى الدنيا والآخرة) فادعاؤه الخصوصية دليل علي أنه كان معروفاً بينهم أن الرجل لا يغسل زوجته؛ وقد قال صلی الله عليه وآله وسلم (كل سبب ونسب منقطع بالموت إلا سببي ونسبي) فهذا دليل على خصوصية في حقه وفي حق علي رضي الله عنه أيضا لأن نكاحه من أسباب رسول الله صلى الله عليه وسلم. [المبسوط (2/115({
ایک مخصوص روایت کی تحقیق
ایک روایت مشہور کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ نے انتقال سے پہلے غسل کیا اور فرمایا مجهےدوبارہ غسل نہ دیا جائے، یہ روایت من گھڑت ہے.
وقد يقولون أيضاً “أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم اغتسلت قبل موتها وأوصت أن لا يحرك فدفنت بذلك الغسل، وفي هذا دليل على أن علياً لم يغسل فاطمة.
فالجواب أن هذه الرواية لا تصح.
– كما قال ابن حزم في المحلى (5/175(
– وابن الجوزي في الموضوعات (3/277(
– وقال الشيخ أحمد شاكر: ولعلها من مفتريات الشيعة
ابن مسعود کا اپنی بیوی کو غسل دینا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو غسل دیا یہ روایات سند کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں لہذا اس سے استدلال کرنا درست نہیں، اور خود ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا حضرت علی سے سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتے.
أنَّ ابنَ مسعودٍ غسَّل امرأتَه حيثُ ماتتْ.
– الراوي: عبدالرحمن بن الأسود.
– المحدث: الإمام أحمد .
– المصدر: العلل ومعرفة الرجال.
– الصفحة أو الرقم: 3/190.
– خلاصة حكم المحدث: ما انکرہ.
خلاصہ کلام
یہ مسئلہ صحابہ کرام کے زمانے سے ہی اختلافی مسئلہ رہا ہے، لہذا اس مسئلے میں کسی بهى جانب شدت کا اختیار کرنا درست نہیں کیونکہ اگر ایک طرف حضرت علی کا عمل ہے تو دوسری طرف حضرت عمر کا عمل ہے. لیکن چونکہ زمانے کا فساد غالب ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ مردوں کو مرد غسل دے اور عورتوں کو عورت ہی غسل دے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ