حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عجیب فضیلت
سوال
کچھ عرصہ پہلے محترم جناب مولانا ساجد نقشبندی صاحب نے معراج سے متعلق ایک واقعہ شیئر کرکے فرمایا تھا کہ یہ بزرگوں کا کشف بھی ہوسکتا ہے… واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے کہ کیا اس مقام پر صدیق مجھ سے پہلے پہنچے ہوئے ہیں؟ تو اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے میرے محبوب! چونکہ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں تو آپ کے دل سے وحشت اور خوف کو دور کرنے اور انسیت کو پیدا کرنے کیلئے یہ آواز ہم نے سنوائی… (مجموعہ رسائل شرنبلالی، جلد اول، ص:151)
نوٹ: اس قسم کے واقعات بزرگوں کے کشف و الہام پر مشتمل ہوتے ہیں جنکا انکار بھی ممکن ہے اور اقرار بھی (جب تک کہ نصوص کے معارض نہ ہوں)
کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
بندہ نے نقشبندی صاحب سے عرض بھی کیا تھا کہ معراج کے واقعات کشف کے ذریعے معلوم نہیں کئے جا سکتے ہیں، اور پھر ارادہ ہوا کہ اس کی مکمل تحقیق پیش کی جائے.
سب سے پہلے اس واقعے کو شفاء الصدور نامی کتاب میں نقل کیا گیا، اور پھر وہاں سے قسطلانی نے مواہب اللدنیہ میں نقل کیا ہے.
وأوّل من ذكره أبو الربيع سليمان بن سبع السبتي (توفّي في حدود 520هـ) في كتابه (شفاء الصدور/مخطوط)، ذكر ذلك القسطلاني (ت:923هـ) في المواهب اللدنّية، نقلاً عن أبي الحسن بن غالب.
ابن عباس کی روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام جب سدرة المنتهی تک پہنچے تو جبرئیل علیہ السلام وہیں رک گئے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے جبرئیل! یہاں کوئی کسی کا ساتھ نہیں چھوڑتا.
آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے وحشت ہونے لگی تو اچانک کسی نے مجھے ابوبکر صدیق کی آواز میں پکارا، مجھے حیرت ہوئی کہ کیا ابوبکر مجھ سے پہلے یہاں پہنچ گئے، مگر مجھے لگا کہ آواز اوپر سے آئی ہے… الخ
قال القسطلاني: وذكر أبو الحسن بن غالب، وعزاها لأبي الربيع بن سبع في شفاء الصدور من حديث ابن عبّاس: أنّ رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قال بعد أن ذكر مبدأ حديث الإسراء، كما ورد في الأُمّهات: أتاني جبريل وكان السفير بي إلى ربي، إلى أن انتهى إلى مقام ثمّ وقف عند ذلك، فقلت: يا جبريل! في مثل هذا المقام ھل يترك الخليل خليله؟ فقال: إن تجاوزتُه احترقتُ بالنور، فقال النبي صلى الله عليه وسلّم: ياجبريل! هل لك من حاجة؟ قال: يامحمّد! سل الله أن أبسط جناحيّ على الصراط لأُمّتك حتّى يجوزوا عليه، قال النبي صلى الله عليه وسلّم: ثمّ زجّ بي في النور زجّاً، فخرق بي إلى السبعين ألف حجاب، ليس فيها حجاب يشبه حجاباً، وانقطع عنّي حسّ كلّ إنسي وملك، فلحقني عند ذلك استيحاش، فعند ذلك ناداني مناد بلغة أبي بكر: قف إنّ ربّك يصلّي، فبينا أنا أتفكّر في ذلك فأقول: هل سبقني أبوبكر؟ فإذا النداء من العلي الأعلى، أدن يا خير البرية، أدن يا محمّد، أدن يا محمّد، ليدن الحبيب، فأدنانى ربّي حتّى كنت كما قال تعالى: {ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى فَكانَ قابَ قَوسَينِ أَو أَدنى}. (النجم:8-9).
وذكر الخبر أيضاً علاء الدين محمّد بن عبدالرحمن البخاري (ت:546هـ) في التفسير العلائي.
نقله عنه صاحب (نزهة المجالس ومنتخب النفائس) عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوري (ت894هـ)
اسی روایت کو عبیدی نے عمدة التحقیق میں بھی نقل کیا ہے.
بلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم لما كان قاب قوسين أو أدنى أخذته وحشة فسمع في حضرة الله تعالى بصوت أبى بكر رضى الله عنه فاطمأن قلبه واستأنس بصوت صاحبه.
ذكره العبيدي المالكي في عمدة التحقيق (ص:154) فقال: هذه كرامة للصديق إنفرد بها رضي الله تعالى عنه.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ زرقانی “المواہب اللدنیة” کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
اگرچہ اس کی ایک سند نقل کی گئی ہے، لیکن علامہ شامی نے مصنف کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ بلاشک و شبہ یہ جھوٹ ہے، اور تعجب تو نعمانی سے ہوتا ہے کہ دونوں قصوں کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے.
علامہ شامی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے.
قال الزرقاني (ت1122هـ) في (شرح المواهب) في بداية شرحه لحديث ابن عبّاس هذا: وظاهره أن ابن عبّاس رواه بلا واسطة وليس كذلك، فالمنقول عن ابن غالب، عن ابن سبع، عن ابن عبّاس، قال: قال عليّ: سلوني قبل أن تفقدوني عن علم لا يعرفه جبريل ولا ميكائيل، أعلمني رسول الله ممّا علمه ليلة الإسراء، قال: علّمني ربّي علوماً شتّى… إلى أن قال: فلمّا كانت ليلة الإسراء بعد أن بعثني الله أتاني جبريل وكان السفير… الحديث.
ثمّ قال الزرقاني في نهاية شرحه: قال الشامي (محمد بن يوسف بن علي بن يوسف، شمس الدين الشامي (942)، صاحب سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد) بعد نقل كلام المصنّف هذا: وهو كذب بلاشك، والعجب من النعماني حيث أورد الروايتين بطولهما ساكتاً عليهما، قائلاً: ولا يستبعد وقوع هذا كلّه في بعض ليلة. (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمّدية ٨: ١٩٤، ٢٠٠ المقصد الخامس).
وقد عدّه الشامي في كتابه “الآيات العظيمة الباهرة في معراج سيّد أهل الدنيا والآخرة” من الأحاديث الموضوعة، كما نقل ذلك عنه محمّد بن علوي المالكي. (كتاب “وهو بالأُفق الأعلى”، لمحمّد المالكي: ٢٩٠ الأحاديث الباطلة والموضوعة في هذا الباب).
ابن علوی نے اس قصے کے بعد ذکر کیا ہے کہ کسی بھی عقلمند کو اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں.
وقد علّق ابن علوي على بطلان هذا الحديث بقوله: وهذه القصة المنسوبة لابن عبّاس لا يشك عاقل في بطلان أكثر ما جاء فيها. (كتاب “وهو بالأُفق الأعلى”: ٢٥٦ قصص المعراج المتداولة).
اس واقعے کے کچھ اور من گھڑت حصے:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات ہر آسمان پر ایک فرشتہ ابوبکر کی صورت میں دیکھا، میں نے پوچھا کہ یاللہ! کیا ابوبکر مجھ سے پہلے آگئے؟ تو فرمایا گیا کہ نہیں، لیکن ابوبکر کی محبت کی وجہ سے میں نے ہر آسمان پر ایک فرشتہ ابوبکر کی صورت کا پیدا کردیا ہے.
وقال صلی اللہ علیه وسلم: رأيت ليلة الإسراء في كل سماء ملكا في صورة أبي بكر، فقلت: يا رب أعرج بأبي بكر قبلي، قال: لا ولكن من محبتي فيه خلقت في كل سماء ملكا على صورته. (مناقب أهل خلق الله على التحقيق أبي بكر الصديق، الجزء: 2، رقم الصفحة: 148/149)
شیعوں کا دعویٰ:
شیعہ حضرات ابوبکر صدیق والی روایت کو من گھڑت قرار دے کر کہتے ہیں کہ اصل میں یہ فضیلت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے، اور پوری سند سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ معراج میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کی آواز میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے کلام کیا تھا.
عن أبيه جعفر، عن أبيه أبي جعفر محمد، عن أبيه زيد الشهيد، عن أبيه علي زين العابدين، عن أبيه الحسين سيد الشهداء، عن أبيه أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليهم السلام قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: وقد سئل بأي لغة خاطبك ربك ليلة المعراج؟ قال: «خاطبني بلسان علي (عليه السلام) فألهمني أن قلت: يا رب خاطبتني أم علي، فقال: يا أحمد أنا شئ ليس كالأشياء، لا أقاس بالناس، ولا أوصف بالشبهات، خلقتك من نوري، وخلقت عليا من نورك، اطلعت على سرائر قلبك فلم أجد في قلبك أحب من علي بن أبي طالب (عليه السلام) فخاطبتك بلسانه كيما يطمئن قلبك». (رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، السدي علي خان المدني الشيرازي، ج: ١، الصفحة: ٣١)
خلاصہ کلام
معراج کے موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام فرمایا یہ حق اور سچ ہے، لیکن اس دوران حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آواز میں کلام کرنا، یا وحشت کو دور کرنے کیلئے آواز دینا، کسی بھی مستند روایت سے ثابت نہیں، اور نہ ہی یہ کشف سے ثابت ہونے والی چیزیں ہیں، لہذا ایسے امور کو پھیلانا اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف اسکو منسوب کرنا ہرگز درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
مارچ٢٠٢١ کراچیی