Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر 347

Posted on 09/11/2021 by Sikander Parvez

ظہر سے قبل چار سنتیں چھوڑنا

سوال
محترم مفتی صاحب!!
ایک بیان میں یہ حدیث سنی کہ جس نے ظہر کی چار سنتیں چھوڑ دیں اسکو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہوگی…
        کیا یہ بات درست ہے؟
اور کیا حکیم اختر صاحب کے بیانات مکمل مستند ہوتے ہیں، اور ان میں ذکر کردہ روایات مکمل درست ہوتی ہیں؟
(سائل: امین جانگڑا، کراچی)

الجواب باسمه تعالی

سوال میں ذکر کردہ روایت ہدایہ اور فقہ حنفی کی مختلف کتب میں موجود ہے.

 حدیث: جس نے ظہر سے قبل چار رکعتیں چھوڑیں، اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی.

  حديث: من ترك الأربع قبل الظهر لم تنله شفاعتي.
   اس روایت کی اسنادی حیثیت:

علامہ ابن حجر “الدرایة فی تخریج احادیث الهدایة” میں لکھتے ہیں کہ مجھے یہ روایت نہیں ملی.

  لم أجده. (الدراية في تخريج أحاديث الهداية، لابن حجر، ج: ١، الصفحة: ٢٠٥)

 علامہ بدرالدین عینی نے بنایه میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے  لکھتے ہیں کہ یہ روایت “جس نے ظہر سے قبل چار رکعت چھوڑ دیں اس کو میری شفاعت نہیں ملےگی” اس روایت کی کوئی اصل نہیں، اور تعجب ہے کہ شراح نے اس روایت کو نقل کیا ہے، اور اس کی اسنادی حیثیت بیان نہیں کی.

بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بڑی وعید ہے، اور اس میں چار رکعت کی بڑی تاکید ہے.

علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو وعید ثابت ہوتی، جو روایت ثابت ہی نہیں، اس سے اتنی بڑی وعید کیسے ثابت ہو سکتی ہے. (البناية شرح الهداية ج: 2/577)

  م: (وقال في الأخرى) ش: أي قال النبي في سنة الظهر م «من ترك الأربع قبل الظهر لم تنله شفاعتي» ش: هذا ليس له أصل، والعجب من الشراح ذكروا هذا ولم يتعرضوا إلى بيان حاله وسكتوا عنه. وقال الأكمل: وهذا وعيد عظيم، ودلالته على وكادة الأربع أقوى من الأول. قلت: نعم يكون أقوى من الأول، إذا صح عن النبي عليه السلام، والذي لم يثبت كيف يكون أقوى…إلخ

 اسماعیل بن محمد العجلونی رحمه اللہ نے اپنی کتاب کشف الخفاء، (جلد: 2، صفحہ: 332) میں لکھا ہے:

اس روایت کو علامہ سیوطی نے ابن حجر عسقلانی سے نقل کیا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس روایت کی کچھ اصل نہیں.

  “من لم يداوم على أربع قبل الظهر لم تنله شفاعتي” نقل السيوطي رحمهم الله في الموضوعات عن الحافظ بن الحجر العسقلاني رحمه الله تعالى أنه يسأل عنه فأجاب بأنه لا أصل له.

 علامہ صدرالدین علی بن علی نے اپنی کتاب التنبیه علی مشکلات الھدایة، (صفحہ: 696) میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے:  یہ روایت جو مصنف علیه الرحمۃ نے ذکر کی ہے اس کو محدثین نے ذکر نہیں کیا اور اس کے ثبوت میں نظر ہے.

  هذا لفظه الذي ذكره المصنف لم يذكره أهل الحديث وفي ثبوته نظر.
    نوٹ:

آخری دو حوالے مولانا حسان بن شیخ یونس تاجپوری کے مضمون سے لئے گئے ہیں 

   بیانات میں ذکر کردہ روایات کا حکم:

ہمارے ہاں عموماً روایات کی تحقیق کا خاص دھیان نہیں رکھا جاتا، بلکہ کتابوں میں موجودگی کو روایت کا درست ہونا سمجھا جاتا ہے، جو کہ انتہائی کمزور طریقہ کار ہے.

حکیم اختر صاحب رحمه اللہ صاحبِ نسبت بزرگ تھے، البتہ علمی اور تحقیقی اعتبار سے اس درجے کی شخصیت نہیں، اس وجہ سے ان کے بیانات میں بھی دیگر حضرات کی طرح کمزور روایات موجود ہوتی ہیں، لہذا ان کے بیان میں ذکر کردہ کسی بھی روایت کو بلا تحقيق آگے نقل نہ کیا جائے.

خلاصہ کلام

سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کر کے اسکو بیان کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٦ نومبر ٢٠٢١ کراچی


Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
جلد7

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 390
  • تنبیہ نمبر 389
  • تنبیہ نمبر 388

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes