علمائے امت کی نظر میں گستاخِ رسول کی سزا
تمام علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت کریمہ
{اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَه لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ…}
کے ضمن میں ہر وہ عمل شامل ہے جس سے شان اقدس میں کسی بھی قسم کی گستاخی یا کمی کے الفاظ ادا کئے جائیں اور یہ عمل موجب کفر و سزا ہے.
١. امام اسحاق راہویہ کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے اللہ تعالی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی یا اللہ کے نبی کو قتل کیا تو باوجود اسلام قبول کرنے کے وہ کافر ہے.
قال اسحاق بن راهويه: قد أجمع العلماءُ أنَّ من سبَّ الله عزوجل أو سبَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو دفع شيئاً أنزله الله، أو قتل نبياً من أنبياء الله، وهو مع ذلك مُقرٌ بما أنزل الله أنه كافر. (التمهيد، ج:4/226).
۲. محمد بن سحنون کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ کے نبی کی شان میں کسی بھی قسم کی کمی کرنے والا کافر ہے اور اس کی سزا (امت کے نزدیک) قتل ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرےگا وہ بھی کافر ہے.
وقال محمد بن سحنون: أجمعَ العلماءُ أنَّ شاتم النبيّ صلى الله عليه وسلم المنتقِّصَ له كافرٌ، والوعيدُ جارٍ عليه بعذاب الله، وحكمُه عند الأمة القتلُ، ومن شكَّ في كفره وعذابِه كفر. (الشفا، ج:2/933)
٣. ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ تو تمام علمائےکرام کا متفقہ فتوی ہے کہ حضور کو گالی دینے والے کی سزا قتل ہے.
وقال ابن المنذر: أجمع عوامُّ أهل العلم على أنَّ حدَّ من سبَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم القتل.
٤. قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ گستاخِ رسول کی سزا قتل ہے.
ويقول القاضي عياض: ولا نعلم خلافاً في استباحة دمه (يعني سابَّ الرسول صلى الله عليه وسلم) بين علماء الأمصار وسلف الأمة، وقد ذكر غير واحد الإجماع على قتله وتكفيره. (الشفا، ج:2/933).
۵. امام أحمد فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان یا کافر نے آپ علیہ السلام کو گالی دی یا آپ کی شان اقدس میں کوئی ایسی کمی کی جو آپ کی شان کے لائق نہیں تو اس كو قتل کیا جائےگا اور اسکی توبہ بھی قبول نہ کی جائے.
وقال الإمام أحمد: كلُّ من شتم النبي صلى الله عليه وسلم، أو تنقَّصه مسلماً كان أو كافراً فعليه القتلُ، وأرى أن يُقتل ولا يُستتاب.
٦. امام أبویوسف فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کو گالی دینا یا جھٹلانا یا عیب جوئی کرنا یا نقص بیان کرنا یہ کفر ہے اور اس شخص کی بیوی اس پر حرام ہوگئی.
وقال أبويوسف: وأيما مسلم سبَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذبه، أو عابه، أو تنقصه فقد كفرَ بالله، وبانت منه امرأته. (الخراج لأبي يوسف، ص:293).
گستاخی کی نوعیت اور اسکے الفاظ:
اگر کسی عقل بالغ شخص نے (نعوذ باللہ) کسی نبی کو گالی دی یا لعنت کی یا کوئی عیب جوئی کی یا ان پر کوئی الزام لگایا یا ان کی حق تلفی کی مثلا: یوں کہا کہ مجھے ان کے احکامات کی پرواہ نہیں، وہ حکم کریں یا منع کریں، اور اگر وہ خود بھی آجاتے تب بھی میں ان کی بات قبول نہ کرتا وغیرہ، یا ان کی صفات میں نقص پیدا کیا جائے کہ مثلا: وہ کالے تھے یا ٹھنگنے تھے یا لنگڑے یا کانے تھے یا بخیل تھے یا ان کے مرتبے میں کمی کی کہ دنیا کے لالچی تھے یا انہوں نے دین نہیں پہنچایا وغیرہ تو اس شخص کو قتل کیا جائےگا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائےگی.
وان سبّ مكلّف نبيّاً أو لعنه أو عابه أي نسبه لعيب، أو قذفه أو استخفّ بحقّه كأن قال: لا أبالي بأمره ولا نهيه، أو ولو جاءني ما قبلته أو غير صفته كأسود أو قصير أو ألحَقَ به نقصاً وإنْ في بدنه كأعور أو أعرج أو خصلته (بفتح الخاء المعجمة) أي شتيمته وطبيعته كبخيل أو غضّ أي نقص من مرتبته العليّة أو من وفور علمه أو زهده أو أضاف له ما لا يجوز عليه كعدم التبليغ أو نسب إليه ما لا يليق بمنصبه على طريق الذّم… قتل ولم يستتب (أي بلا طلب أو بلا قبول توبة منه) حدًّا إنْ تاب والّا قتل كفراً. (الشرح الكبير لأبي البركات أحمد الدردير من فقهاء المالكيّة).
گستاخی رسول کرنے والا مرتد ہے:
اگر کوئی مسلمان آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرے تو علمائے امت کے نزدیک وہ مرتد شمار کیا جائےگا.
وهناك رواية عن الإمام مالك أنه جعل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم ردة في حق المسلم، وهي رواية الوليد بن مسلم عنه، وهي المذهب المشهور عن أبي حنيفة وأحد الوجهين في مذهب الشافعي، ويتخرج عليها أن سابّ النبي صلى الله عليه وسلم يستتاب ثلاثة أيام وجوباً، وهو مشهور مذهب مالك في المرتد، وبه قال أبوحنيفة والشافعي في أحد قوليه وأحمد في المشهور عنه.
اسلامی ملک میں رہنے والے غیرمسلم اقلیتوں کا شان اقدس میں گستاخی کرنے کا حکم:
سوال: اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر اسلامی ملک میں رہنے والے کسی غیرمسلم نے شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی تو اس کی سزا قتل ہے، لیکن کیا مسلمان ہونے سے اس کی یہ سزا ختم ہو جائےگی یا نہیں؟
وأما الذمي إذا سبّ النبي صلى الله عليه وسلم ثم أسلم مختاراً فهل يدرأ عنه الإسلام القتل؟
جواب
اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:
على قولين هما روايتان عن الإمام مالك، ذكرهما القاضي عبدالوهاب وغيره من علمائنا:
١. پہلا قول: بعض حضرات کہتے ہیں کہ کسی بھی حال میں توبہ قبول نہیں کی جائےگی.
إحداهما: لا يدرأ عنه إسلامه القتل، وبه قال أحمد في رواية عنه، وطائفة من أصحاب الشافعي، قال محمد بن سحنون من علمائنا: وحد القذف وشبهه من حقوق العباد لا يسقطه عن الذمي إسلامه، وإنما تسقط عنه بإسلامه حدود الله.
۲ . دوسرا قول: یہ ہے کہ اگر اس نے اپنی مرضی اور خوشی سے اسلام قبول کرلیا تو اس کی توبہ قبول کی جائےگی (یہی قول راجح ہے).
والرواية الأخرى:* يسقط عنه الحد. وبه قال الشافعي وأبوحنيفة وأحمد في المشهور عنه، قال الإمام مالك في رواية جماعة من أصحابه منهم ابن القاسم: من شتم نبينا من أهل الذمة أو أحداً من الأنبياء قتل إلا أن يسلم. وفي رواية: “لا يقال له: أسلم ولا لا تسلم! ولكن إن أسلم فذلك له توبة”.
اگر گستاخی کا مجرم اپنے جرم کے ثابت ہونے اور گرفتار ہونے کے بعد مسلمان ہوجائے تو کیا اس کی توبہ قبول کی جائےگی؟ تو علمائےکرام فرماتے ہیں کہ وہ مسلمان تو ہوگا لیکن اس کی توبہ قبول نہیں کی جائےگی
.*عن ابن القاسم أنه إذا أسلم الكافر الساب بعد أن يؤخذ وقد قُدر عليه، وثبت عليه السب ويعلم أنهم يريدون قتله لم ينفعه إسلامه، ولم يسقط عنه القتل لأنه مكره على إسلامه في هذه الحال، أما إذا أسلم مختاراً ورغبة في الإسلام فإنه يدرأ عنه الحد، وهذا هو تحقيق مذهب الإمام مالك.
گستاخی رسول عظیم جرم ہے:
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کو گالی دینا یا ان کے دین میں نقص نکالنا یہ کسی کو قتل کرنے یا مال چھیننے سے بھی زیادہ برا ہے کیونکہ وہ رسول جو دین لے کر آیا ہے اس کی گستاخی دین کی گستاخی سے بڑھ کر ہے.
أما سب الرسول والطعن في الدين ونحو ذلك فهو مما يضر المسلمين ضررا يفوق ضرر قتل النفس وأخذ المال من بعض الوجوه فإنه لا أبلغ في إسفال كلمة الله وإذلال كتاب الله وإهانة كتاب الله من أن يظهر الكافر المعاهد السب والشتم لمن جاء بالكتاب (وهو الرسول)… (الصارم المسلول ج: 2 ص: 453)
گستاخی رسول کرنے والے کی توبہ:
سوال: اگر کوئی مسلمان گستاخی رسول کر بیٹھے تو اس کی توبہ قبول کی جائےگی یا نہیں؟
جواب
اس کے متعلق علمائےأمت کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: موقف اوّل یہ ہے کہ اہانت رسالت مآب کا مرتکب بہرصورت واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقًا کسی صورت میں بھی قبول نہیں کی جائےگی خواہ وہ قبل الأخذ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا اس کے بعد تائب ہو، ہر صورت برابر ہے۔ کسی صورت میں بھی قطعاً قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائےگا. .
یہ قول امام مالک، امام احمد اور دیگر حضرات کا ہے.
في استتابة المسلم وقبول توبة من سبّ النبي صلى الله عليه وسلم، وقد ذكرنا أن المشهور عن مالك وأحمد: أنه لا يستتاب ولا تسقط القتل عنه توبته، وهو قول الليث بن سعد وذكر القاضي عياض أنه المشهور من قول السلف وجمهور العلماء، وهو أحد الوجهين لأصحاب الشافعي.
دوسرا قول: دوسرا موقف یہ ہے کہ گستاخِ رسول صلی اللہ علیه وسلم کی سزا حداً قتل ہی ہے لیکن قبولیت توبہ کے امکان کے ساتھ اس طور پر کہ اگر وہ قبل الأخذ یعنی گرفتاری یا مقدمے کے اندراج سے پہلے تائب ہو تو یہ توبہ لاسقاط الحد ہوگی یعنی اس توبہ سے قتل کی سزا اٹھ جائےگی۔ اکثر شوافع اور بعض احناف نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔
حضرت ابن عباس کا گستاخِ رسول کی توبہ کے متعلق فتوی:
امام ابن القیم نے زاد المعاد (ج ۵، ص:۶۰) میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی موقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ مسلمان سے توبہ کا مطالبہ کیا جائےگا.
أیما مسلم سبّ اللہ ورسوله أو سب أحدا من الأنبیاء فقد کذب برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وہی ردۃ یستتاب فان رجع وإلا قتل. (ناقل: مولانا زاہد الراشدی صاحب)
امام ابویوسف نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور عیب جوئی کی یا آپ کی شان اقدس میں تنقیص و اہانت کا مرتکب ہوا تو وہ کافر ہوجائےگا اور بیوی سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جائےگا.
فإن تاب وإلا قتل.
یعنی اگر وہ توبہ کرے تو درست وگرنہ اسے قتل کر دیا جائےگا. (ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 234)
امام ابن عابدین شامی نے امام أعظم أبوحنیفہ رحمه ﷲ کا دوسرا قول اس طرح بیان کیا ہے:
إن کان مسلما يستتاب فإن تاب وإلا قتل کالمرتد.
اگر کوئی مسلمان شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائےگا۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ مرتد کی طرح قتل کر دیا جائےگا۔ (ابن عابدين، ردالمحتار، 4:233)
یہی قول امام مالک، امام احمد، امام شافعی سے بھی منقول ہے.
وحكى مالك وأحمد: أنه تقبل توبته، وهو قول أبي حنيفة وأصحابه وهو المشهور من مذهب الشافعي بناء على قبول توبة المرتد. (الصارم المسلول: 3/578)
گستاخ رسول کی توبہ کے متعلق دارالعلوم دیوبند کا فتوی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا اگر صدق دل سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوجائےگی.
وحاصله أنه نقل الاجماع علی کفر الساب، ثم نقل عن مالك ومن ذکرہ بعدہ أنه لا تقبل توبته، فعلم أن المراد من نقل الاجماع علی قتله قبل التوبة. ثم قال: وبمثله قال أبوحنیفة وأصحابه… الی قوله… فهذا صریح کلام القاضی عیاض فی الشفاء والسبکی وابن تیمیة وأئمة مذهبه، علی أن مذهب الحنفیة قبول التوبة بلا حکایة قول آخر عنهم، وانما حکوا الخلاف في بقیة المذاہب وکفی بهؤلاء حجة لو لم یوجد النقل کذلك في کتب مذهبنا․ (شامی:۶/۳۷۱،۳۷۲)
(۲) حدود وقصاص کے نفاذ کے لئے اسلامی مملکت کا ہونا ضروری ہے، غیرمسلم ممالک میں اس کا نفاذ نہ ہوگا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم… دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند).
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کی عزت و آبرو اس امت کا ایمان ہے اور جو شخص بھی گستاخی رسول کا مرتکب ہوگا اس کی سزا وہی ہے جو آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام کے دور میں تھی کہ اس کو قتل کیا جائےگا، البتہ اگر وہ شخص توبہ کرلے تو اسکی توبہ قبول کی جائےگی، لیکن اگر کسی نے یہ عادت بنا ڈالی تو اس کو توبہ کے باوجود تعزیرًا قتل کیا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٧ نومبر ٢٠١٨