شجرکاری کی فضیلت
سوال: کیا مندرجہ ذیل پوسٹ میں ذکر کردہ باتیں درست ہیں؟
شاہین پارک (شرف آباد) كى شجركارى مہم ميں ہمارے دست وبازو بنيں.
١. نبی کریم ﷺ کا ایک ارشاد کس قدر چونکا دینے والا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ اگر قیامت برپا ہورہی ہو اور تمہیں پودا لگانے کی نیکی کا موقع مل جائے تو فورا اس نیکی میں شامل ہوجاؤ.
٢. ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چوپایا کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم شریف:۵/۲۸)
٣. حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گيا ہے کہ حضرات صحابہ کرام صدقہ کی نیت سے درخت لگانے کا خاص اہتمام فرماتے تھے. (مجمع الزوائد:4/68)
مندرجہ بالا روایات کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
درختوں کے لگانے کے متعلق آپ علیہ السلام کے کافی ارشادات موجود ہیں جن میں آپ علیہ السلام نے اس عمل کی خوب ترغیب دی ہے.
روایات کی تحقیق:
١. نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر قیامت برپا ہورہی ہو اور تمہیں پودا لگانے (کی نیکی) کا موقع مل جائے تو فورا اس نیکی میں شامل ہوجاؤ.
روى أحمد (12902)، والبخاري في “الأدب المفرد” (479)، وعبد بن حميد في “مسنده” (1216)، والبزار في “مسنده” (7408) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا تَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَغْرِسْهَا”.
– ولفظ أحمد: “إِنْ قَامَتْ عَلَى أَحَدِكُمُ الْقِيَامَةُ، وَفِي يَدِهِ فَسِيلَةٌ فَلْيَغْرِسْهَا”. وصححه الألباني في “الصحيحة”.
٢. ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چوپایا کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم شریف:۵/۲۸)*
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ، أَوْ إِنْسَانٌ، أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ”.
الحديث الأول: أخرجه الطيالسي (ص:267، رقم:1998)، وأحمد (3/147، رقم:12517)، والبخاري (2/817، رقم:2195)، ومسلم (3/1189، رقم:1553)، والترمذى (3/666، رقم:1382) وقال: حسن صحيح.
وأخرجه أيضًا: أبويعلى (5/238، رقم:2851)، وأبوعوانة (3/332، رقم:5200)، والبيهقي (6/137، رقم:11527)
٣. حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گيا ہے کہ حضرات صحابہ کرام صدقہ کی نیت سے درخت لگانے کا خاص اہتمام فرماتے تھے. (مجمع الزوائد:4/68)
وَأما حَدِيث أبي الدَّرْدَاء فَرَوَاهُ أَحْمد فِي (مُسْنده) عَنهُ: أَن رجلا مر بِهِ وَهُوَ يغْرس غرسا بِدِمَشْق، فَقَالَ: أتفعل هَذَا وَأَنت صَاحب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم؟ قَالَ: لَا تعجل عَليّ، سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: من غرس غرساً لم يَأْكُل مِنْهُ آدَمِيّ وَلَا خلق من خلق الله إلاَّ كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَة”.
اس مضمون کی مزید روایات:
١. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی مسلمان جب کوئی درخت یا کھیت لگاتا ہے اور اس میں سے پرندہ، انسان یا کوئی چرند کھاتا ہے تو یہ اس کیلئے صدقہ ہوتا ہے.
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما من مسلمٍ يغرسُ غرساً أو يَزْرَعُ زَرْعاً فيأكلُ منه طيرٌ أو إنسانٌ أو بهيمةٌ إلَّا كان له به صدقة”. متفق عليه البخاري 226\1
٢. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کوئی درخت لگاتا ہے تو اس درخت سے جس قدر پھل نکلتا ہے اس قدر اس شخص کیلئے اجر لکھا جاتا ہے.
وعن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من رجل يغرس غرسا إلا كتب الله له من الأجر قدر ما يخرج من ثمر ذلك الغرس.
جامع الصغير 8016 حسن
٣. ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں نے خود آپ علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص کوئی درخت لگاتا ہے اور پھر اس کی حفاظت اور نگہداشت میں لگا رہتا ہے یہانتک کہ وہ درخت پھل دینے لگے تو اس پھل سے جو چیز بھی فائدہ اٹھائےگی وہ اس لگانے والے کیلئے صدقہ ہوتا ہے.
وعن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم بأذني هاتـين يقول: من نصب شجرة فصبر على حفظها والقيام عليها حتى تثمر كان له في كل شيء يصاب من ثمرها صدقة عند الله عزوجل. مسند احمد 22092
٤. آپ علیہ السلام أمّ مبشر الانصاریہ کے باغ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اے أمّ مبشر! یہ درخت مسلمان نے لگائے ہیں یا کافر نے؟ انہوں نے عرض کیا کہ مسلمان نے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی مسلمان جب کوئی درخت یا کھیت لگاتا ہے پھر اس میں سے انسان یا کوئی اور مخلوق کچھ کھالے وہ اس کیلئے صدقہ ہے.
ويدل لذلك ما رواه جـابر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنـه دخل على أم مبشر الأنصارية (وهي زوج زيد بن حارثة) في نخل لها فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: من غرس هذا النخل أمسلم أم كافر؟ فقالت: بل مسلم، فقال: لا يغرس مسلم غرسا، ولا يزرع زرعا فيأكل منه إنسان ولا دابة، ولا شيء إلا كانت له صدقة. مسلم 1552
٥. ایک اور روایت میں فرمایا کہ اس کھیتی میں سے اگر کوئی چوری کرلے یا کوئی درندہ یا پرندے اسکو کھالیں یا کچھ بھی ہوجائے تب بھی لگانے والے کیلئے وہ صدقہ شمار کیا جائےگا.
وعنه أيضا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من مسلم يغرس غرسا إلا كان ما أكل منه له صدقة، وما سرق منه له صدقة، وما أكل السبع فهو له صدقة، وما أكلت الطير فهو له صدقة، ولا يرزؤه أحد إلا كان له صدقة. مسلم
٦. آپ علیہ السلام نے اپنے خاندان کے لوگوں کو قضب کھجور کے لگانے کا مشورہ دیا کہ اس سے فقر دور ہوتا ہے.
وعن عبدالله بن الزبير قال: أمر النبي صلى الله عليه وسلم عمه العباس يأمر بنيه أن يحرثوا القضب فإنه ينفي الفقر.
مجمع الزوائد 69/4 ضعیف
٧. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ سات چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر انسان کو اپنے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک درخت کا لگانا بھی ہے.
أَخْرَجَ الْبَزَّارُ فِي “مُسْنَدِهِ”(ح7289)، وَأَبُو نُعَيْمٍ فِي “الْحِلْيَةِ”(1/366)، والْبَيْهَقِيُّ فِي “الشُّعَبِ” (5/122/3175)
مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هَانِئٍ النَّخْعِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ الْعَرْزَمِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: « سَبْعٌ يَجْرِي لِلْعَبْدِ أَجْرُهُنَّ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ وَهُوَ فِي قَبْرِهِ: مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا، أَوْ كَرَى نَهَرًا، أَوْ حَفَرَ بِئْرًا، أَوْ غَرَسَ نَخْلًا، أَوْ بَنَى مَسْجِدًا، أَوْ وَرَّثَ مُصْحَفًا، أَوْ تَرَكَ وَلَدًا يَسْتَغْفِرُ لَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ ».
ضعیف جدا
٨. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص درخت لگائے اور اس میں کوئی ظلم یا زیادتی نہ ہو تو جب تک وہ درخت نفع دیتا رہےگا لگانے والے کو اسکا اجر ملتا رہےگا.
وعن معاذ بن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من بنى بنيانا في غير ظلم ولا اعتداء، أو غرس غرسا في غير ظلم ولا اعتداء كان له أجرا جاريا ما انتفع به من خلق الرحمن تبارك وتعالى.
احمد باسناد حسن
٩. حضرت صدیق اکبرؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے مجاہدین کو خاص طور پر درختوں اور کھیتوں کے برباد کرنے سے منع فرمایا، سلف صالحین کے وصایا میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے تھے: لا تقطعوا شجرا یعنی کسی درخت کو مت کاٹو. ) رقم الحديث: 21(
(حديث موقوف) (حديث موقوف) قَالَ: ثُمَّ بَدَا لَهُ فِي الانْصِرَافِ إِلَى الْمَدِينَةِ, فَقَامَ فِي الْجَيْشِ، فَقَالَ: قَالَ: ثُمَّ بَدَا لَهُ فِي الانْصِرَافِ إِلَى الْمَدِينَةِ, فَقَامَ فِي الْجَيْشِ، فَقَالَ: “أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ لا تَعْصُوا, وَلا تَغُلُّوا, وَلا تَجْبُنُوا, وَلا تُغْرِقُوا نَخْلا, وَلا تَحْرِقُوا زَرْعًا, وَلا تَحْبِسُوا بَهِيمَةً, وَلا تَقْطَعُوا شَجَرَةً مُثْمِرَةً, وَلا تَقْتُلُوا شَيْخًا كَبِيرًا , وَلا صَبِيًّا صَغِيرًا, وَسَتَجِدُونَ أَقْوَامًا حَبَسُوا أَنْفُسَهُمْ لِلَّذِي حَبَسُوهَا، فَذَرُوهُمْ وَمَا حَبَسُوا أَنْفُسَهُمْ لَهُ, وَسَتَجِدُونَ أَقْوَامًا قَدِ اتَّخَذَتِ الشَّيَاطِينُ أَوْسَاطَ رُءُوسِهِمْ أَفْحَاصًا، فَاضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ, وَسَتَرِدُونَ بَلَدًا يَغْدُو عَلَيْكُمْ وَيَرُوحُ فِيهِ الطَّعَامُ وَالأَلْوَانُ, فَلا يَأْتِيَنَّكُمْ لَوْنٌ إِلا ذَكَرْتُمُ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ, وَلا يُرْفَعُ لَوْنٌ إِلا حَمَدْتُمُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ” .
مسند ابی بکر الصدیق للمروزی
خلاصہ کلام
ملک اور شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کیلئے درخت لگانا نہ صرف جسمانی اعتبار سے مفید عمل ہے بلکہ عند اللہ بھی اس کا خوب اجر ہے، خاص طور پر ایسے درخت اور پودے لگانا جو فائدہ مند ہوں اور انسانوں یا حیوانات کے کھانے کے بھی کام آجائیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ