ماہ رجب کے روزے اور اعمال
سوال: محترم مفتی صاحب! کچھ سوالات کے جواب مطلوب ہیں
١. “اللهم بارك لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان” کیا یہ دعا ثابت ہے؟
٢. کیا رجب کی پہلی تاریخ کا روزہ ثابت ہے؟
٣. کیا ستائیس رجب کو معراج کا ہونا اور اس دن کا روزہ مسنون ہے؟
٤. کیا رجب کی پہلی رات کی فضیلت کسی روایت سے ثابت ہے؟
برائے کرم رجب سے متعلق ان امور کی وضاحت فرمادیجئے.
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکورہ تمام باتوں کے جوابات نمبروار دیئے جائیں گے:
● جواب نمبر ١ :
یہ دعا ضعیف سند سے وارد ہے، لہذا اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں.
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل رجب قال: «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» [ضعيف].
● جواب نمبر ٢ :
رجب کے مہینے کی پہلی تاریخ کا روزہ کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں، البتہ شیعوں کی کتب میں اس روزے کی فضیلت وارد ہوئی ہے.
شیعوں کی روایات:
١. شیعہ کی روایات میں ہے کہ پہلی رجب کا روزہ نوح علیہ السلام نے رکھا اور اپنے ساتھیوں کو یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو شخص یہ روزہ رکھےگا وہ جہنم سے ایک سال کے فاصلے پر دور کردیا جائےگا.
عن أبي الحسن عليه السلام قال: ان نوحا عليه السلام ركب السفينة أول يوم من رجب فامر من معه أن يصوموا ذلك اليوم وقال: من صام ذلك تباعدت عنه النار مسيرة سنة.
٢. شیعہ کی کتب میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص پہلی رجب کا روزہ رکھےگا اس کیلئےجنت واجب کردی جائےگی.
ومن ذلك ما رواه الشيخ جعفر بن محمد الدوريستي في كتاب الحسني بإسناده إلى الباقر عليه السلام، عن أبيه، عن جده عليهم السلام قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلم: “من صام أوّل يوم من رجب وجبت له الجنّة”.
● جواب نمبر ٣ :
ستائیس رجب کو معراج کا ہونا کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں.
(اس پر تفصیلی بحث تنبیہات نمبر 28 میں ہوچکی)
اس دن کا روزہ بھی کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں، البتہ شیعوں کی کتب میں اس روزے کی فضیلت وارد ہوئی ہے.
امام جعفر صادق کہتے ہیں
کہ ستائیس رجب کا روزہ نہ چھوڑو اسلئے کہ اس دن آپ علیہ السلام پر نبوت نازل ہوئی ہے اور اس ایک دن کا روزہ ساٹھ(٦٠) مہینوں کے روزوں کے برابر ہے.
الصادق جعفر بن محمد عليهما السلام: لا تدع صيام يوم سبعة وعشرين من رجب فانه اليوم الذي نزلت فيه النبوة على محمد صلى الله عليه وآله وسلم، وثوابه مثل ستين شهرا لكم. (“فضل الاشهر الثلاثة”…تأليف محمد بن علي بن الحسين بن موسى بن بابويه القمي).
● جواب نمبر ٤ :
رجب کی پہلی رات کی فضیلت والی روایات دو طرح کی ہیں: ایک وہ ہیں جن میں فضیلت کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہے، یہ روایات سند کے لحاظ سے درست نہیں.
دوسری وہ روایات ہیں جن میں نسبت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف کی جاتی ہے وہ روایات درست ہیں، گویا یہ کہا جائےگا کہ اس رات کی فضیلت صحابہ کے اقوال سے ثابت ہے.
خمسُ ليالٍ لا تُرَدُّ فيهنَّ الدعوةُ: أولُ ليلةٍ من رجبٍ وليلةُ النِّصفِ من شعبانَ وليلةُ الجمعةِ وليلةُ الفطرِ وليلةُ النَّحرِ.
– الراوي: أبوأمامة الباهلي.
– المحدث: ابن عساكر.
– المصدر: تاريخ دمشق.
– الجزء أو الصفحة: 10/408.
– حكم المحدث:[فيه] بندار بن عمر الروياني. قال النخشبي: کذاب.
ولكن العلماء رووا هذا النص من كلام بعض الصحابة والتابعين؛ فأخرجه عبد الرزاق في “المصنف” (317/4، ح:7927) موقوفاً على ابن عمر، وأخرجه البيهقي موقوفاً على أبي الدرداء في “السنن الكبرى” (319/3، ح:6087)، وفي أسانيدهم ضعف أيضاً.
وقال الإمام الشافعي رضي الله عنه: بلغنا أنه كان يقال: إن الدعاء يُستجاب في خمس ليال: في ليلة الجمعة، وليلة الأضحى، وليلة الفطر، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان… وأنا أستحب كل ما حكيت في هذه الليالي من غير أن يكون فرضاً. (“الأم” 1/264).
رجب کے روزے کے متعلق کچھ اہم باتیں:
رجب کے مہینے میں کسی خاص دن کا کوئی خاص روزہ ثابت نہیں، البتہ آپ علیہ السلام نے اشہرحرم کے روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے اسلئے اگر کسی مخصوص دن کو متعین کئے بغیر رجب کا کوئی روزہ رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں.
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اشہر حرم میں کبھی روزے رکھو کبھی چھوڑو.
قَالَ صلى الله عليه وسلم: “صُمْ مِنْ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ”. [رواه أبوداود (2428) وضعفه الألباني في ضعيف أبي داود].
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ رجب کے روزے کے متعلق کوئی روایت درست سند سے موجود نہیں.
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في “مجموع الفتاوى” (25/290): وأما صوم رجب بخصوصه فأحاديثه كلها ضعيفة، بل موضوعة، لا يعتمد أهل العلم على شيء منها، وليست من الضعيف الذي يروى في الفضائل، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات..
علامہ ابن قیم بھی رجب کے کسی مخصوص نماز اور روزے کا انکار کرتے ہیں.
وقال ابن القيم رحمه الله: كل حديث في ذكر صيام رجب وصلاة بعض الليالي فيه فهو كذب مفترى. (المنار المنيف، ص:96).
علامہ ابن حجر رحمه اللہ بھی کسی فضیلت کے ثبوت کے منکر ہیں.
وقال الحافظ ابن حجر في “تبيين العجب” (ص11): لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه ولا صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للحجة.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رجب کے مخصوص روزے یا مکمل روزے رکھنے والوں کے روزے تڑوادیا کرتے تھے.
وأخرج ابن أبي شيبة في مصنفه أن عمر رضی اللہ عنه كان يضرب أكف الناس في رجب حتى يضعوها في الجفان، ويقول: كلوا، فإنما هو شهر كان تعظمه الجاهلية.
امام شافعی رحمه اللہ بھی رجب کے کسی مخصوص دن میں روزے کو مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تھے.
وقد نقل البيهقي عن الشافعي قوله في القديم: أكره أن يتخذ الرجل صوم شهر يكمله من بين الشهور، كما يكمل رمضان، وكذلك أكره أن يتخذ الرجل يوماً من بين الأيام، وإنما كرهت ذلك؛ لئلا يتأسى جاهل، فيظن أن ذلك واجب.
خلاصہ کلام
اہل سنت والجماعت کے نزدیک رجب کے کسی مخصوص دن کا کوئی روزہ کسی بھی مستند صحیح یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں، لہذا ایسی کوئی بھی فضیلت اگر حدیث کہہ کر آپ کے سامنے آتی ہے تو آپ سمجھ لیں کہ یہ من گھڑت اور شیعوں کی روایات ہیں، البتہ پیر اور جمعرات کا روزہ یا ایام بیض کے روزے جیسے عام مہینوں میں رکھے جاتے ہیں اسی طرح اس مہینے میں بھی انکے رکھنے میں کوئی حرج نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ