تنبیہ نمبر112

مدینے کا حکیم

سوال: ایک واقعہ کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ ایک حکیم مدینہ منورہ آیا اور اس نے دکان کھولی لیکن ایک سال گذر جانے کے باوجود بھی کوئی بیمار نہ ہوا تو وہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم لوگ جب تک بھوک نہ لگے نہیں کھاتے اور جب کھاتے ہیں تو خوب پیٹ نہیں بھرتے اسلئے یہاں بیماری نہیں ہے.
اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند یا ضعیف سند سے کہیں بھی نہیں ملا،  البتہ اس کے قریب قریب ایک واقعہ تاریخ کی بعض کتابوں میں بغیر سند مذکور ہے:

روم کے بادشاہ مقوقس نے ایک طبیب آپ علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تو آپ علیہ السلام نے اس کو واپس جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہم جب تک بھوک نہ لگے کھانا نہیں کھاتے اور جب مزید بھوک باقی ہو تو کھانا چھوڑ دیتے ہیں.
وقد قال بعضهم: إن المقوقس أرسل مع الهدية طبيبا، فقال له النبي: «ارجع إلى أهلك؛ نحن قوم لا نأكل حتى نجوع وإذا أكلنا لا نشبع».
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:

یہ واقعہ سیرت حلبیہ میں بغیر سند کے نقل کیا گیا ہے لیکن کسی بھی کتاب یا مصدر کی طرف اسکی نسبت نہیں کی گئی.

برهان الدين الحلبي في “السيرة الحلبية” (3/295) من غير إسناد ولا عزو لكتب الأثر.

علامہ البانی نے اس واقعے کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف کرنے کو بےاصل قرار دیا ہے.

قال الشيخ الألباني رحمه الله:
“ھذا القول الذي نسبه إلى النبي صلى الله عليه وسلم لا أصل له”. (السلسلة الصحيحة، رقم:3942)

سعودی عرب کے سب سے بڑے ادارے

“اللجنة الدائمة”

سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث کے الفاظ نہیں ہیں.

وجاء في “فتاوى اللجنة الدائمة” المجموعة الثانية (3/224): هذا اللفظ المذكور ليس حديثا فيما نعلم.

شیعہ کی کتب میں اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے.

سنن النبي (ص) للسيد الطباطبائي، (ص:226)
الملحقات في الأطعمة والأشربة.
 في مقدمة طب النبي: في حديث قال صلى الله عليه وآله وسلم: نحن قوم لا نأكل حتى نجوع، وإذا أكلنا لا نشبع. (هامش (١)طب النبي صلى الله عليه وآله وسلم، المقدمة، ص:3)
اس واقعے کے مختلف پہلو:

یہ الفاظ اگرچہ سند کے لحاظ سے درست نہیں لیکن یہ مضمون صحیح روایات سے ثابت ہے.

حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ سب سے برا برتن جس کو انسان بھرتا ہے وہ پیٹ ہے، انسان کیلئے تو چند لقمے کافی ہیں جن سے کمر سیدھی کرلے، اور اگر زیادہ کھانا ہو تو ایک تہائی کھانا ایک تہائی پانی اور ایک تہائی سانس کیلئے ہونا چاہیئے.

عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ؛ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَات يُقِمْنَ صُلْبَهُ؛ فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ”. [رواه أحمد (16735)، والترمذي (2380)].
وقال الترمذي: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

کبھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا کرتے تھے.

● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ بھر کر دودھ پینا:
ففي البخاري أن النبي صلى الله عليه وسلم أعطى أباهريرة لبنا فشرب، فما زال يقول: اشرب، حتى قال له: والذي بعثك بالحق ما أجد له مسلكا.
● حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دعوت میں صحابہ کرام کا پیٹ بھر کر کھانا:
في الصحيحين أن جابرا صنع طعاما فدعا له النبي صلى الله عليه وسلم أهل الخندق، ثم قال لجابر، ائذن لعشرة فأذن لهم فأكلوا حتى شبعوا..
مدینہ منورہ میں کسی کا بیمار نہ ہونا:

یہ دعوی بھی درست نہیں کہ مدینہ منورہ میں کوئی صحابی بیمار نہیں ہوتا کیونکہ کثرت سے ایسی روایات موجود ہیں کہ صحابہ کرام مدینہ پہنچ کر بیمار ہوئے اور آپ علیہ السلام نے مدینہ کے موسم کیلئے دعا فرمائی، اسی طرح اہل مکہ یہ کہتے تھے کہ صحابہ کو مدینہ کی آب و ہوا نے کمزور کردیا تو آپ علیہ السلام نے طواف میں رمل کا حکم دیا

خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ اور روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ مضمون درست روایات سے ثابت ہے لہذا پیٹ بھر کر کھانے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٦ اپریل ٢٠١٨

اپنا تبصرہ بھیجیں