منی، عرفات میں نماز قصر یا مکمل
سوال: حج کے موقعے پر ایک بڑا اختلافی مسئلہ بار بار پیش آتا ہے کہ منی اور عرفات میں نماز پوری پڑھی جائے یا قصر؟
اس سلسلے میں حجاج کرام اور علمائےکرام تک میں اختلاف دیکھا گیا ہے
برائے مہربانی اس مسئلے کی وضاحت فرمادیجئے
الجواب باسمه تعالی
تمام امت کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نماز میں قصر کا حکم سفر کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ اگر سفر ہے تو نماز کو قصر کرینگے اور اگر کوئی مقیم شخص مسافر کی اقتداء میں نماز پڑھےگا تو اس کو اپنی نماز مکمل کرنی پڑےگی جیسا کہ آپ علیہ السلام کا عمل رہا ہے.
ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ فتح مکہ کے موقعہ پر نماز پڑھی، آپ علیہ السلام فرماتے تھے کہ اے اہل مکہ! تم اپنی نماز مکمل کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں.*
عن عمران بن حصين رضي الله عنه قال: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَهِدْتُ مَعَهُ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِي عَشْرَةَ لَيْلَةً لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، وَيَقُولُ: يَاأَهْلَ الْبَلَدِ! صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ. (رواه أبوداود، رقم:1229).
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل تھا کہ جب مکہ آتے تھے تو فرماتے: اے اہل مکہ! اپنی نماز مکمل کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں.
وروى مالك في “الموطأ” (2/206) عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ: كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ: يَاأَهْلَ مَكَّةَ! أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ.
علامہ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی پوری نماز پڑھےگا.
قال ابن قدامة رحمه الله: أجمع أهل العلم على أن المقيم إذا ائتم بالمسافر، وسلم المسافر من ركعتين، أن على المقيم إتمام الصلاة.
آپ علیہ السلام کا سفر حج:
آپ علیہ السلام چونکہ حج کے سفر میں مسافر تھے (اسلئے کہ آپ علیہ السلام کا وہاں پر قیام نو دن کا تھا) لہذا آپ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ مسافر صحابہ نے قصر نماز پڑھی تھی، لیکن جو اہل مکہ تھے ان کے بارے میں کوئی واضح روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قصر نماز پڑھی یا مکمل پڑھی، اور نہ ہی ایسی کوئی روایت ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام نے ان کو حج کے موقعہ پر مکمل نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو، لہذا اس مسئلے میں فقہائےکرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوا.
١. امام شافعی اور امام احمد کا قول ہے کہ قصر اسی کیلئے ہے جو مسافر ہے ورنہ نہیں.
عند الشافعي وأحمد وأكثر الفقهاء أن القصر لأجل السفر، فلا يجوز إلا للمسافر الذي يباح له القصر طرداًً للقياس.
٢. امام مالک کے نزدیک قصر کا سبب حج کے ایام کا ہونا ہے.
عند مالك وبعض أصحاب الشافعي وأحمد أن القصر لأهل مكة وغيرهم لأجل النسك، واختاره ابن كثير.
٣. احناف کے نزدیک قصر کا سبب سفر ہے اور عرفہ اور مزدلفہ میں جمع بین الصلواتین کا سبب حج ہے.
عند الحنفية القصر للسفر والجمع للنسك.
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ نے سفر کی وجہ سے قصر کیا تھا نہ کہ حج کی وجہ سے اسلئے کہ اگر حج سبب ہوتا تو مکہ مکرمہ میں احرام باندھتے ہی قصر شروع کرتے لہذا سفر ہی اس قصر کا سبب ہے نہ کہ حج کا ہونا.
اسی طرح اہل مکہ کا عرفات میں قصر نماز پڑھنا بھی مسافت سفر کی وجہ سے تھا حج کی وجہ سے نہیں.
قال شيخ الإسلام: وهو الصواب، وهو أنهم قصروا لأجل سفرهم، ولهذا لم يكونوا يقصرون بمكة، وكانوا محرمين، والقصر معلق بالسفر وجوداً وعدماً، ولا تعلق له بالنسك، ولا مسوغ لقصر أهل مكة بعرفة إلا إنهم بسفر.
یہی قول علامہ ابن القیم سے منقول ہے کہ قصر کا سبب وہ سفر ہے حج نہیں.
ووافقه ابن القيم فقال: ولا تأثير للنسك في قصر الصلاة البتة، وإنما التأثير لما جعله الله سبباً وهو السفر هذا مقتضى السنة، ولا وجه لما ذهب إليه المحددون.
اسی بات کو شیخ ابن عثیمین نے لکھا ہے کہ قصر کا سبب حج نہیں بلکہ سفر ہے.
اور شیخ نے علامہ ابن تیمیہ کے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ سفر وہ کہلاتا ہے جس میں انسان سامان اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے اور اس کی کوئی خاص تحدید نہیں ہے.
واختاره الشيخ ابن عثيمين رحمه الله فقال: الصحيح أن القصر في منى وعرفة ومزدلفة، ليس سببه النسك بل سببه السفر، والسفر لا يتقيد بالمسافة بل یتقید بالحال وهو أن الإنسان إذا خرج تأهب واستعد لهذا الخروج وحمل معه الزاد والشراب فهو مسافر.
سبب اختلاف اور اقوال کا نتیجہ:
اس بات پر تو اتفاق ہے کہ سفر کے علاوہ قصر نہیں، تو اب آپ علیہ السلام کے حج میں اہل مکہ نے کیا کیا تھا؟ قصر یا اتمام؟
علامہ ابن حجر نے یہی لکھا ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ مکہ اور منی کے درمیان قصر نہیں کیا جائےگا اور اس میں اختلاف ہے.
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: أصل المسألة مبني على تسليم أن المسافة بين منى ومكة لا يقصر فيها وهو من محل الخلاف. (فتح الباري:2/563)
١. جمہور علمائےکرام کے نزدیک اتمام تھا کیونکہ مسافت سفر مکمل نہیں تھی جس کے بارے میں آپ علیہ السلام پہلے ہی فتح مکہ کے موقعہ پر ہدایات دے چکے تھے.
٢. امام مالک کی طرف منسوب ہے کہ ان کے نزدیک حج ہی سبب قصر ہے.
لیکن شیخ زکریا کاندھلوی صاحب رحمه اللہ نے اپنی کتاب “اوجز المسالک” میں اس نسبت کو رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ امام مالک کا صحیح قول بھی یہی ہے کہ قصر کا سبب سفر ہے نہ کہ حج، البتہ مکہ سے منی اور منی سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منی اور مکہ کو انہوں نے سفر قرار دیتے ہوئے قصر کی اجازت دے دی.
بسط في الأوجز، عن كتب فروع المالكية، وفي هامش اللامع: والأوجه عندي أن القصر عند الإمام مالك أيضاً للسفر كما صرح في الموطأ إذ قال: الصلاة يوم عرفة إنما هي ظهر، ولكنها قصرت لأجل السفر، فهذا نص عنه رضي الله إلا أنه عد الذهاب من مكة إلى منى، ومنها إلى عرفة، ومنها إلى المزدلفة، ثم إلى منى ثم إلى مكة سفراً واحداً للزومه بالإحرام. (حجة الوداع للكاندهلوي)
گویا جمہور کے نزدیک مکہ کے صحابہ کرام نے حج کے موقعے پر اتمام کیا تھا جبکہ امام مالک کے نزدیک یہ سفر کے حکم میں ہے لہذا انہوں نے سفر کی وجہ سے قصر کیا.
علامہ ابن تیمیہ بھی اس کو سفر کے حکم میں شامل کرکے اہل مکہ کیلئے قصر کے قائل ہیں اور شیخ ابن عثیمین کا بھی پہلے یہی قول تھا.
شیخ ابن عثیمین کا جدید قول:
1410 ہجری تک شیخ کا فتوی علامہ ابن تیمیہ کے قول پر تھا کہ اہل مکہ سفر کی وجہ سے قصر کریں گے لیکن پھر انہوں اپنے قول سے رجوع کرلیا کہ اہل مکہ اب حج میں مکمل نماز پڑھینگے نہ کہ قصر نماز، اور اس کی وجہ ذکر کرتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں کہ جب ہم منی کو دیکھتے ہیں تو اب وہ مکہ کا ایک محلہ بن چکا ہے گویا کہ یہ بھی اب عزیزیہ کی طرح ہوچکا ہے اسلئے مکہ کا مقیم اب منی میں قصر نہیں کرےگا.
وممن كان موافقا لقول ابن تیمیة وناقلا وناشرا ومحققا لترجيحاته الشيخ ابن عثيمين رحمه الله فأخذ يفتي بذلك إلى ما قبل عام 1410هـ تقريبا ثم رجح القول الثاني وهو الإتمام.
حيث قال رحمه الله: ولكن يبقى علينا في وقتنا الحاضر إذا نظرنا إلى منى، وجدنا أنها أصبحت حيّاً من أحياء مكة، والذي يخرج إلى منى مثل الذي يخرج إلى العزيزية، بل ربما يكون بعض أفراد العزيزية الشرقية فوق منى، لذلك أرى أن من الأحوط لأهل مكة ألا يقصروا في منى. [انظر: مجموع دروس وفتاوى الحرم المكي (3/109)، (لقاء الباب المفتوح:51)]
موجودہ زمانے میں منی اور مکہ کا حکم:
پاکستان کے مفتیان کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اس وقت منی اور مکہ ایک ہی جگہ شمار ہوتے ہیں یا مختلف جگہیں؟
١. کچھ حضرات ان دونوں کو ایک مقام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مقیم بننے کیلئے مکہ میں داخل ہونے کے بعد سے لے کر مکہ سے نکلنے تک کا وقت پندرہ دن ہونا کافی ہے، لہذا یہ حاجی تمام مقامات (یعنی مکہ، منی، عرفات، مزدلفہ) میں پوری نماز ادا کرےگا.
٢. دیگر حضرات ان دونوں کو الگ الگ مقام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر منی جانے سے پہلے پندرہ دن مکمل ہوگئے تو یہ شخص مقیم ہے اور ہر جگہ پر مکمل نمازیں ادا کرےگا (یعنی مکہ میں بھی اور منی، عرفات، مزدلفہ میں بھی پوری نماز پڑھےگا) لیکن اگر منی جانے سے پہلے پندرہ دن مکمل نہ ہوئے تو تمام جگہوں پر قصر ادا کرےگا.
☆ ہماری رائے اس مسئلے میں مکہ اور منی کے ایک ہونے کی ہے کہ سعودی عرب کے تمام علمائےکرام اب منی کو مکے کا ہی ایک محلہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ شیخ ابن عثیمین نے لکھا ہے اور عرب کی ایک مشہور تحقیقی ویب سائٹ سے جب یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ منی اب مکہ کا ہی ایک محلہ ہے.
لأن مكة قد توسعت وصارت منى كأنها حي من أحياء مكة
خلاصہ کلام
یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ ہر حاجی کو ہر حال میں منی، عرفات، مزدلفہ میں قصر نماز ادا کرنی ہے یہ بات چاروں مسالک اور جمہور علمائے امت کے اقوال کے خلاف ہے.
لہذا جو حاجی پورے پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی وجہ سے مقیم ہوگا وہ پوری نماز ادا کرےگا، البتہ جس شخص کا قیام پندرہ دن سے کم ہوگا وہ مسافر ہونے کی وجہ سے قصر کرےگا
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ