موت کے وقت اختیار دینا
سوال: محترم جناب مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب! آپ کا مضمون نظر سے گذرا جس میں آپ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روح قبض کرنے کی اجازت طلب کرنے والی روایت کی تحقیق کرتے ہوئے اس روایت کی تمام سندوں کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے، لیکن ہم نے بہت ہی معتبر حضرات سے انبیائےکرام علیہم السلام کو اختیار دیئے جانے کی روایات سنی ہیں جیسے آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، تو کیا یہ تمام روایات درست نہیں؟
الجواب باسمه تعالی
تمهید:
واضح رہے کہ اس امت کی خصوصیات میں سے ایک عظیم خصوصیت سند کا ہونا ہے اور تمام امت نے کسی روایت کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں اسی کو مدار بنایا ہے، لہذا اگر کسی واقعے کی سند درست ہے تو وہ واقعہ بھی ثابت کہلائےگا اور جس واقعے کی سند درست نہیں اس واقعے کو درست نہیں کہا جاسکتا چاہے بیان کرنا والا کوئی بھی شخص ہو یا اپنی کتاب میں نقل کرنے والا کوئی بھی ہو، اسی وجہ سے جس بھی روایت پر جو بھی حکم لگتا ہے وہ اس کی سند کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔
انبیائےکرام علیہم السلام کو اختیار دینا:
تمام انبیائےکرام علیہم السلام کو ان کے انتقال سے پہلے دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف جانے کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔
جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنی صحت کے زمانے میں یہ فرماتے تھے کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ ان کو جنت میں ان کا ٹھکانہ نہ دکھا دیا جائے اور پھر ان کو اختیار بھی دیا جاتا ہے، پھر جب آپ علیہ السلام مرض الوفات میں تھے تو آپ نے چھت کی طرف دیکھ کر فرمایا:
“اللهم الرفیق الأعلی”
پس میں سمجھ گئی کہ آپ علیہ السلام کو اختیار دیا گیا. (ملخصا)
كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم وَهْوَ صَحِيحٌ يَقُولُ: إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُحَيَّا أَوْ يُخَيَّرَ. فَلَمَّا اشْتَكَى وَحَضَرَهُ الْقَبْضُ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِ عَائِشَةَ غُشِي عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرُهُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى. فَقُلْتُ: إِذًا لاَ يُجَاوِرُنَا. فَعَرَفْتُ أَنَّهُ حَدِيثُهُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهْوَ صَحِيحٌ. [رواه البخاري (4437) ومسلم (2444)]
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر نبی کو مرض الموت میں دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے.
وعنها رضى الله عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: “مَا مِنْ نَبيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ”.
حضرت آدم علیہ السلام کے انتقال کا واقعہ:
حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے ان کی تمام ذریت کو لایا گیا جن میں سے ایک شخص کے نور نے آدم علیہ السلام کو کافی متأثر کیا تو انہوں نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس کی عمر کتنی ہے؟ تو فرمایا گیا کہ یہ داود ہیں اور ان کی عمر ساٹھ سال ہے، تو آدم علیہ السلام نے اپنی عمر سے چالیس سال داود علیہ السلام کو دیئے، جب آدم علیہ السلام کے انتقال کا وقت آیا تو ملک الموت سے انہوں نے کہا کہ ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں تو عزرائیل نے عرض کیا کہ وہ تو آپ داود کو دے چکے ہیں لیکن آدم علیہ السلام نے انکار کیا. (ملخصا)
قال عليه الصلاة والسلام: لَمَّا خَلَقَ الله آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلاءِ؟ قَالَ: هَؤُلاءِ ذُرِّيَّتُكَ. فَرَأَى رَجُلا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ، يُقَالُ لَهُ: دَاوُدُ. فَقَالَ: رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهُ؟ قَالَ: سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ: أَيْ رَبِّ زِدْهُ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَلَمَّا قُضِيَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَوَلَمْ تُعْطِهَا ابْنَكَ دَاوُدَ؟ قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنُسِّيَ آدَمُ فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّيَّتُهُ. (رواه الترمذي، وقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ).
موسی علیہ السلام کو اختیار دینا:
اللہ تبارک و تعالی نے ملک الموت کو موسی علیہ السلام کے پاس انکی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا لیکن موسی علیہ السلام نے ان کو تھپڑ مارا جس سے عزرائیل علیہ السلام کی آنکھ پھوٹ گئی تو عزرائیل اللہ تعالی کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہتا تو اللہ تعالی نے ان کی آنکھ ٹھیک کردی اور فرمایا کہ جاؤ اور موسی سے کہہ دو کہ ایک بیل کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے، جتنے بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئینگے اتنے سال کی زندگی انکو ملےگی تو موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ فرمایا: موت ہوگی، تو عرض کیا کہ پھر تو ابھی موت مسلّط فرمادیں. (ملخصا)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: “أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَفَقَأَ عَيْنَهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ، فَرَدَّ الله إِلَيْهِ عَيْنَهُ، وَقَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ: يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، فَسَأَلَ الله أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ، لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ، تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ”.
آپ علیہ السلام کو اختیار دینا:
١. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایک بندے کو دنیا میں رہنے اور اپنے پاس جانے کے درمیان اختیار دیا تو اس بندے نے اللہ کے پاس جانے کو اختیار کیا، یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابوبکر کے رونے پر تعجب ہوا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے پتہ چلا کہ یہ اختیار آپ علیہ السلام کو دیا گیا تھا اور ابوبکر صدیق اس کو سمجھ گئے تھے.
روى الشيخان عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس فقال: إن الله خيَّر عبدًا بين الدنيا وبين ما عنده، فاختار ذلك العبد ما عند الله، قال: فبكى أبوبكر، فعَجِبنا لبكائه، أن يُخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبدٍ خُيِّر، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المُخَيَّر، وكان أبوبكر أعلمنا.
٢. مسند أحمد کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں دنیا کے خزانوں اور دنیا میں ہمیشہ کی زندگی کو پسند کروں یا اللہ تعالی سے ملاقات اور جنت کو پسند کروں تو میں نے اپنے رب کی ملاقات اور جنت کو ترجیح دی.
ولأحمد أيضا من حديث أبي مويهبة قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أوتيت مفاتيح خزائن الأرض والخلد ثم الجنة، فخيرت بين ذلك وبين لقاء ربي والجنة فاخترت لقاء ربي والجنة.
٣. ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا کہ میں دنیا میں رہ کر اپنی امت کی فتوحات کو دیکھ لوں یا اپنے رب کے پاس جانے میں جلدی کروں، تو میں نے اپنے رب کے پاس جانے کی جلدی کو پسند کیا.
وعند عبدالرزاق من مرسل طاوس رفعه: خيرت بين أن أبقى حتى أرى ما يفتح على أمتي وبين التعجيل فاخترت التعجيل. [فتح الباري (8/137)]
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اختیار دینا:
بعض روایات میں ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کے انتقال کا وقت ہوا تو اللہ تعالی نے ملک الموت کو بھیجا کہ جاؤ ابراہیم کی روح قبض کرلو، جب ملک الموت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: کیا کوئی خلیل بھی کبھی اپنے خلیل کی روح قبض کرتا ہے؟ جب عزرائیل نے اللہ تعالی سے یہی بات عرض کی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ ابراہیم سے کہو کہ کیا کوئی خلیل بھی کبھی اپنے خلیل سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ فورا میری روح قبض کرلو.
أخرجه الخلدي في كتابه “الفوائد والزهد والرقائق والمراثي” قال: حدثنا أحمد، ثنا الحسن بن علي، ثنا إسماعيل بن عيسى، ثنا إسحاق، ثنا جوبير، عن الضحاك، عن ابن عباس، قال: لما أراد الله عزوجل أن يقبض روح خليله إبراهيم عليه السلام، هبط إليه ملك الموت، فقال له إبراهيم: رأيت خليلًا يقبض روح خليله؟ قال: فعرج ملك الموت إلى ربه عزوجل، ثم عاد إليه، فقال له: ياإبراهيم! ورأيت خليلًا يكره لقاء خليله؟ قال: فاقبض روحي الساعة.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس کتاب کی تحقیق کرنے والے مجدی فتحی السید نے اس واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے.
وقد حكم على إسناد ھذا الخبر محقق الكتاب: مجدي فتحي السيد بأنه مكذوب، فقال: إسناده موضوع، فيه أكثر من علة.
یہی روایت احیاء علوم الدین میں بھی منقول ہے.
في الخبر المشهور أن إبراهيم عليه السلام قال لملك الموت (إذ جاءه لقبض روحه): هل رأيت خليلاً يميت خليله؟ فأوحى الله إليه: هل رأيت محباً يكره لقاء حبيبه؟ فقال: يا ملك الموت! الآن فاقبض. (هكذا هو في القوت).
علامہ عراقی کہتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔
قال العراقي: لم أجد له أصلاً.
ابن السبکی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند ہمیں نہیں ملی.
قال ابن السبكي: (6/375) لم أجد له إسناداً.
یہی روایت المبتدأ نامی کتاب میں منقول ہے، اس کتاب کے مصنف أبوحذیفہ اسحاق بن بشر البخاری ہیں.
وفي “المبتدأ” لأبي حذيفة إسحاق بن بشر البخاري أحد الضعفاء بسند له عن ابن عمر قال: قال ملك الموت: يا رب! إن عبدك إبراهيم جزع من الموت، فقال: قل له: الخليل إذا طال به العهد من خليله اشتاق إليه فبلغه فقال: نعم، يا رب! قد اشتقت إلى لقائك فأعطاه ريحانة فشمها فقبض فيها.
اسحاق بن بشر البخاری:
إسحاق بن بشر صاحب المبتدأ.
انکے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. ابن المدینی کہتے ہیں كہ یہ جھوٹا آدمی ہے، یہ ابن طاووس سے روایات نقل کرتا ہے جبکہ ابن طاووس اس کی پیدائش سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔
وَقَالَ ابْنُ المَدِيْنِيِّ: كَذَّابٌ، كَانَ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ طَاوُوْسٍ، وَابْنُ طَاوُوْسٍ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يُولَدَ.
٢. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: مَتْرُوْكُ الحَدِيْثِ.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا تھا
.وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يَضَعُ الحَدِيْثَ عَلَى الثِّقَات.
خلاصہ کلام
صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو اختیار دیا جاتا تھا، البتہ انفرادی طور پر مختلف انبیائےکرام علیہم السلام کے جو واقعات بیان کئے جاتے ہیں ان کے متعلق یہ اصول ہے کہ اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہیں تو انکو صحیح کہا جائےگا جیسے حضرت موسی علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کو اختیار دیا جانے والا واقعہ، لیکن جن واقعات کی سند درست نہیں ان کا بیان کرنا بھی درست نہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام والا واقعہ یا آپ علیہ السلام سے عزرائیل کا مکالمہ وغیرہ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٩ اکتوبر ٢٠١٨