صحابہ کا گستاخِ رسول کو سزا دینا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز سے بڑھ کر تھی، جیسے حضرت علی نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہمارے مالوں سے، اولادوں سے اور ماں باپ سے بھی زیادہ محبوب تھے.
وسُئل علي بن أبي طالب رضي الله عنه: [كيف كان حبُّكم لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: كان والله أحبّ إلينا من أموالنا وأولادنا وآبائنا وأمهاتنا, ومن الماء البارد على الظمأ] (الشفا للقاضي عياض ج2/567)
اسی لئے اپنی گستاخی اور بےادبی برداشت تھی لیکن اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں تھی۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے گستاخ کے ساتھ عمل:
ایک شخص نے ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہا تو ایک صحابی نے عرض کیا كہ مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیجئے تو ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ یہ حکم صرف اللہ کے نبی علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے کہ ان کے گستاخ کو قتل کیا جائےگا.
حديث مرفوع: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَوَّارٍ الْقَاضِيَ ، يَقُولُ : عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، قَالَ : أَغْلَظَ رَجُلٌ لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: ” أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ ؟ قَالَ: فَانْتَهَرَهُ، وَقَالَ: مَا هِيَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (جمع الجوامع 15/1مسند أحمد حديث 51)
ابوبکر صدیق کا گستاخِ رسول کے ساتھ عمل:
ابوبکر صدیق کے والد ابوقحافہ (جو بعد میں مسلمان ہوئے انہوں) نے ایک بار آپ علیہ السلام کو برا بھلا کہا تو حضرت ابوبکر نے ان كو زور سے تھپڑ مارا کہ وہ زمین پر گر گئے اور پھر آپ علیہ السلام کو سارا ماجرا سنایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ آئندہ ایسا مت کرنا تو ابوبکر صدیق نے عرض کہ خدا کی قسم اگر اس وقت تلوار ہوتی تو میں ان کو قتل کر دیتا.
من طريق ابن جريج: إن أباقحافة سب النبي صلى الله عليه وسلم فصكه أبوبكر ابنه صكة فسقط منها على وجهه، ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: أو فعلته؟ لا تعد إليه؛ فقال: والذي بعثك بالحق نبيا لو كان السيف مني قريبا لقتلته، فنزلت قوله: {لا تجد قوما….} الآية. ( تفسير قرطبي سورة مجادلة ايت 22)
حضرت عمر کا گستاخِ رسول کے ساتھ عمل:
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے اللہ کے نبی کو گالی دی تھی تو حضرت عمر نے اس کو قتل کروادیا اور فرمایا کہ جو اللہ تعالی کو یا کسی بھی نبی کو گالی دےگا وہ واجب القتل ہے.
وروى حرب في مسائله عن ليث بن أبي سليم عن مجاهد قال: أتي عمر برجل سبّ النبي صلى الله عليه وسلم فقتله، ثم قال عمر: “من سب الله أو سب أحدا من الأنبياء فاقتلوه”. (اعلاء السنن ج 12 حدیث 4327)
ابن عباس کا گستاخِ رسول کے بارے میں فتوی:
جو مسلمان اللہ كو یا کسی بھی نبی کو گالی دےگا وہ مرتد ہے اس سے توبہ لی جائےگی، اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کو قتل کیا جائےگا، اور جو معاہدے والا کافر اگر اللہ کو یا اس کے کسی رسول کو گالی دیتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے تو اس نے معاہدے کو توڑ دیا ہے لہذا اس کو قتل کردو.
قال ليث: وحدثنى مجاهد عن ابن عباس قال: “أيما مسلم سبّ الله أو سبّ أحدا من الأنبياء فقد كذب برسول الله صلى الله عليه وسلم وهي ردة يستتاب؛ فإن رجع وإلا قتل. وأيما معاهد عاند فسبّ الله أو سبّ أحدا من الأنبياء أو جهر به فقد نقض العهد فاقتلوه”. (اعلاء السنن ج 12 حدیث 4328)
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا گستاخِ رسول کے بارے میں فتوی:
جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ فلاں عیسائی راہب اللہ کے نبی کو گالی دیتا ہے تو فرمایا کہ اگر میں سن لیتا تو اس کو قتل کردیتا، ہم نے ان کو امان اس لئے نہیں دیا کہ یہ ہمارے نبی کو گالی دیتے پھریں.
قيل لابن عمر ان راهبا يسبّ النبي عليه الصلاة والسلام، قال: لو سمعته لقتلته؛ إنّا لم نعطيهم الذمة أن يسبوا نبينا. (السیف المسلول)
☆ صحابہ کرام کا یہ عمل ان کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں انہوں نے یہ فتوے صادر کئے تھے.
حضرت زبیر کا گستاخِ رسول کو قتل کرنا:
جنگ خیبر کے موقعے پر ایک مشرک نے حضور کو گالی دی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: کون اسکا کام تمام کرےگا؟ تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اس كو قتل کردیا.
قال الأموي سعيد بن يحيى بن سعيد في مغازية: حدثنا أبي قال: أخبرني عبدالملك بن جريج عن عكرمة عن عبدالله بن عباس أن رجلاً من المشركين شتم رسول الله، فقال رسول الله: من يكفيني عدوي؟ فقام الزبير بن العوام فقال: أنا، فبارزه، فأعطاه رسول الله سلبه، ولا أحسبه إلا في خيبر حين قتل ياسر. (ورواه عبدالرزاق أيضاً).
قبیلہ خزرج کے صحابہ کا گستاخِ رسول کو قتل کرنا:
جب أوس والوں نے گستاخ کعب اشرف کو قتل کیا تو خزرج والوں نے ابی الحقیق گستاخ کے قتل کی اجازت چاہی اور اس کو قتل کردیا.
فلما قتل الأوس كعب بن الأشرف تذكرت الخزرج رجلاً هو في العداوة لرسول الله مثله فتذاكروا ابن أبي الحقيق بخيبر فاستأذنوا رسول الله في قتله، فأذن لهم، وذكر الحديث إلى أن قال: ثم صعدوا إليه في علية له، فقرعوا عليه الباب، فخرجت إليهم امرأته، فقالت: من أنتم؟ فقالوا: حي من العرب نريد الميرة، ففتحت لهم، فألقت: ذاكم الرجل عندكم في البيت، وذكر تمام الحديث في قتله… (رواہ البخاری 4039)
ایک صحابی کا گستاخِ رسول کو پتھر مار کر شدید زخمی کرنا:
قال الواقدي: حدثني عبدالله بن عمرو بن زهير عن محجن بن وهب قال: كان آخر ما كان بين خزاعة وبين كنانة أن أنس بن زنيم الديلي هجا رسول الله، فسمعه غلام من خزاعة، فوقع به، فشجه، فخرج إلى قومه فأراهم شجته، فثار الشر مع ما كان بينهم وما تطلب بنو بكر من خزاعة من دمائها. سیرہ ابن ہشام 410/2 مغازی للواقدی 825/2
حضرت علی کا گستاخِ رسول حویرث بن نقیذ کو فتح مکہ کے دن قتل کرنا:
قال: وأما الحويرث بن نقيذ فإنه كان يؤذي النبي، فأهدر دمه، فبينا هو في منزله يوم الفتح قد أغلق عليه، وأقبل علي يسأل عنه، فقيل هو في البادية، فأخبر الحويرث أنه يطلب، وتنحى علي عن بابه، فخرج الحويرث يريد أن يهرب من بيت إلى بيت آخر، فتلقاه علي فضرب عنقه. (سیرہ ابن ہشام)
گستاخِ رسول بوڑھے کا قتل:
ابوعفک یہودی جس کی عمر ایک سو بیس(١٢٠) سال تھی اور وہ اللہ کے نبی کی شان میں گستاخی کرتا تھا تو آپ علیہ السلام نے سالم بن عمیر کو بھیجا تاکہ وہ ابوعفک کو قتل کردے تو سالم نے سوتے وقت اس کو تلوار سے قتل کردیا.
قتله للمسن الأعزل:
كان ابوعفك رجلا يهوديا مسنّا يبلغ من العمر مائة وعشرين عاما وكان يهجوه النبي، فأرسل نبي الإسلام سالما بن عمير لقتل أبی عفك، وبينما هو نائم بفناء منزله وعلم سالم به فاقبل إليه ونفذ سيفه في كبده فقتله. (الصارم والمسلول في شاتم الرسول، ص:105)
جنات صحابہ کا گستاخِ رسول کو قتل كرنا:
مسلمان جنات نے آپ علیہ السلام کو خبر دی کہ کچھ جن آپ کو برا بھلا کہتے ہیں اسلئے ہم نے انکو قتل کردیا تو آپ علیہ السلام نے ان کے عمل کو درست قرار دیا.
وقد ذكروا أنَّ الجنَّ الذين آمنوا بالنبي صلى الله عليه وسلم كانت تقصد من يسبُّه من الجن الكفار فتقتله فيقرُّها صلى الله عليه وسلم. (السیف المسلول علی من سب الرسول 149)
گستاخی کرنے والی باندی کو قتل کروانا:
سارہ جو بنی عبدالمطلب کی باندی تھی اور حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتی تھی اور ابن خطل اس کو حضور کی گستاخی والے اشعار دیتا تھا اور یہ گا کر لوگوں کو سناتی تھی فتح مکہ کے دن اس کے خون کو بھی آپ علیہ السلام نے معاف فرمایا لیکن یہ چھپ گئ اور بعد میں مسلمان ہوگئى.
وأما سارة مولاة بني المطلب فقد أهدر رسول الله دمها لأنها كانت مغنية بمكة تغني بهجاء النبي ﷺ
وكان ابن خطل يلقي إليها هجاء رسول الله فتغنّي به فاختفت عند فتح مكة ثم استؤمن لها رسول الله فجاءته وأسلمت وحسن إسلامها، وعاشت إلى خلافة أبي بكر.11268 الاصابہ فی تمییز الصحابہ
خلاصہ کلام
گستاخ رسول کی سزا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی چلتی آرہی ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا الا یہ کہ وہ توبہ کرلے اور اس بات پر صحابہ کرام بھی متفق تھے اور کسی کا اس میں اختلاف نہیں رہا ہے لہذا اس حکم کو کسی مخصوص طبقے کا ذاتی نظریہ قرار دینا ہرگز درست نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
15نومبر ٢٠١٨کراچی