Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر189

Posted on 07/03/201924/03/2020 by hassaan

بوسہ لینے کا عجیب حیلہ

سوال:مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
جب نبى کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات کا وقت آیا اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کو شدید بخار تھا۔ آپ نے حضرت بلال رضی الله تعالى عنہ کو حکم دیا کہ مدینہ میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے۔  مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے، صحابہ کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسو تھے،  دل بےچین اور بےقرار تھا۔  پھر نبى کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے، آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا۔ نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:  اے میرے ساتھیو! اگر تمہارا کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو،  میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو،  یہ سن کر صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین کا دل تڑپ اُٹھا، مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابہ رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں۔  اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ  “اے لوگوں! ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے”۔ میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا،  ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔ ایک صحابی کھڑے ہوئے (روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے) اور عرض کیا: یارسول الله!  میرا حق آپ پر باقی ہے،  آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا، میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں،  یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا:  کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟  کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں،  اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليہ وسلم سے بدلہ نہ لو۔  یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:  اے عمر!  اسے بدلہ لینے دو اسکا حق ہے،  اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤنگا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو۔ آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدلہ لے لو۔  حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بےتحاشہ رو رہے تھے،  حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول!  میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا،  یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور فرمایا:  لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو،  حضرت عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یارسول الله!  “فَداكَ أبِی واُمی” میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں، میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں،  یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی.  (الرحیق المختوم، صفحہ: 628) کیا یہ واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے،  جیسے:

 مجمع الزوائد ج: 8 اور حلیة الاولیاء لابی نعیم.
قال الإمام أبونعيم رحمه الله في الحلية: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: ثنا عَبْدُالْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَا: لَمَّا نَزَلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ (إِلَى آخِرِ السُّورَةِ) فَقَالَ لَهُمْ: «مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ! أَنَا أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ وَبِحَقِّي عَلَيْكُمْ، مَنْ كَانَتْ لَهُ قِبَلِي مَظْلَمَةٌ فَلْيَقُمْ فَلْيَقْتَصَّ مِنِّي قَبْلَ الْقِصَاصِ فِي الْقِيَامَةِ»، فَلَمْ يَقُمْ إِلَيْهِ أَحَدٌ، فَنَاشَدَهُمُ الثَّانِيَةَ، فَلَمْ يَقُمْ إِلَيْهِ أَحَدٌ، فَنَاشَدَهُمُ الثَّالِثَةَ: «مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ! مَنْ كَانَتْ لَهُ قِبَلِي مَظْلَمَةٌ فَلْيَقُمْ فَلْيَقْتَصَّ مِنِّي قَبْلَ الْقِصَاصِ فِي يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، فَقَامَ مِنْ بَيْنِ الْمُسْلِمِينَ شَيْخٌ كَبِيرٌ يُقَالُ لَهُ عُكَّاشَةُ، فَتَخَطَّى الْمُسْلِمِينَ حَتَّى وَقَفَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، لَوْلَا أَنَّكَ نَاشَدْتَنَا مَرَّةً بَعْدَ أُخْرَى مَا كُنْتُ بِالَّذِي أَتَقَدَّمُ عَلَى شَيْءٍ مِنْكَ، كُنْتُ مَعَكَ فِي غَزَاةٍ فَلَمَّا فَتَحَ اللهُ عَلَيْنَا وَنَصَرَ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنَّا فِي الِانْصِرَافِ حَاذَتْ نَاقَتِي نَاقَتَكَ فَنَزَلْتُ عَنِ النَّاقَةِ وَدَنَوْتُ مِنْكَ لِأُقَبِّلَ فَخِذَكَ، فَرَفَعْتَ الْقَضِيبَ فَضَرَبْتَ خَاصِرَتِي، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ عَمْدًا مِنْكَ أَمْ أَرَدْتَ ضَرْبَ النَّاقَةِ؟
فَلَمَّا نَظَرَ عُكَّاشَةُ إِلَى بَيَاضِ بَطْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّهُ الْقَبَاطِيُّ لَمْ يَمْلِكْ أَنْ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَ بَطْنَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، وَمَنْ تُطِيقُ نَفْسُهُ أَنْ يَقْتَصَّ مِنْكَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِمَّا أَنْ تَضْرِبَ وَإِمَّا أَنْ تَعْفُوَ». فَقَالَ: قَدْ عَفَوْتُ عَنْكَ رَجَاءَ أَنْ يَعْفُوَ اللهُ عَنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا الشَّيْخِ». فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَجَعَلُوا يُقَبِّلُونَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَيَقُولُونَ: طُوبَاكَ طُوبَاكَ، نِلْتَ دَرَجَاتِ الْعُلَى وَمُرَافَقَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے اسلئے کہ اس کی سند میں عبدالمنعم بن ادریس ہے جو کہ انتہائی جھوٹا راوی ہے،  اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے.

هذا الحديث الطويل يرويه الإمام الطبراني في “المعجم الكبير” (3/58) وعنه أبونعيم في “حلية الأولياء” (4/74) ومن طريقه ابن الجوزي في “الموضوعات” (1/295) قال: حدثنا محمد بن أحمد بن البراء ثنا عبدالمنعم بن إدريس بن سنان عن أبيه عن وهب بن منبه: عن جابر بن عبدالله وعبدالله بن عباس رضي الله عنهما به.
قال الهيثمي بعد إيراده هذا الحديث (8/605): رواه الطبراني، وفيه عبدالمنعم بن إدريس: وهو كذاب وضاع.
وقال ابن الجوزي في “الموضوعات” (1/301): هذا حديث موضوع محال، كافأ الله من وضعه، وقبَّح من يشين الشريعة بمثل هذا التخليط البارد،  والكلام الذى لا يليق بالرسول صلى الله عليه وسلم ولا بالصحابة.
والمتهم به
عبدالمنعم بن إدريس:
قال أحمد بن حنبل: كان يكذب على وهب.
وقال يحيى: كذاب خبيث.
وقال ابن المدينى وأبوداود: ليس بثقة.
وقال ابن حبان: لا يحل الاحتجاج به.
وقال الدارقطني: هو وأبوه متروكان.
وكذا ذكره في الموضوعات السيوطي في “اللآلئ المصنوعة” (1/257) وابن عراق في “تنزيه الشريعة” (1/330) والشوكاني في “الفوائد المجموعة” (324).
اس مضمون کی کچھ صحیح روایات:
١.  پہلا  واقعہ:

ابن ہشام اور ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ غزوہ بدر کے دن آپ علیہ السلام صحابہ کی صفوف کو سیدھا کررہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس سے آپ جنگ کیلئے صفیں درست کررہے تھے، اس دوران آپ کا گذر سواد بن غزیہ پر ہوا جو صف سے آگے نکلے ہوئے تھے تو آپ علیہ السلام نے ان کے پیٹ میں تیر سے مارا اور فرمایا کہ سواد سیدھے ہوجاؤ، سواد نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے لہذا مجھے قصاص(بدلہ) دیجئے، تو آپ علیہ السلام نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا کہ سواد بدلہ لے لو،  تو سواد آپ علیہ السلام کے پیٹ سے لپٹ گئے اور چومنے لگے.

روى ابن هشام وابن كثير وغيرهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عدَّل صفوف أصحابه يوم بدر، وفي يده قدح (سهم) يعدل به القوم، فمر بسواد بن غزية حليف بني عدي بن النجار وهو مُستَنْتِلٌ (متقدم) من الصف، فطعن في بطنه بالقدح، وقال: استوِ يا سواد، فقال: يارسول الله! أوجعتني، وقد بعثك الله بالحق والعدل فأقدني (أی: مكِّنِّي من القصاص لنفسي)، فكشف رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بطنه فقال: استقد (أي: اقتص)، قال: فاعتنقه، فقبَّل بطنه، فقال: ما حملك على هذا يا سواد؟ قال: يارسول الله! حضر ما ترى، فأردتُ أن يكون آخر العهد بك أن يمس جلدي جلدك.
٢.  دوسرا  واقعہ:

آپ علیہ السلام نے کسی صحابی کے پیٹ میں کسی لکڑی سے یا مسواک سے مارا تو ان صحابی نے عرض کیا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بدلہ لو، تو انہوں نے آپ علیہ السلام کے پیٹ کو چوما اور عرض کیا کہ میں آپ کو معاف کرتا ہوں کہ آپ قیامت کے دن میری شفاعت کرینگے.

 وعن عبدالله بن جبير الخزاعي رضي الله عنه قال: طعن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلاً في بطنه إما بقضيب وإما بسواك، فقال: أوجعتني فأقدني، فأعطاه العود الذي كان معه، فقال: استقد (أي: اقتص مني)، فقبَّل بطنه، ثم قال: بل أعفو، لعلك أن تشفع لي بها يوم القيامة. (رواه الطبراني، مجمع الزوائد، ج:6)
٣.  تیسرا  واقعہ:

آپ علیہ السلام اُسَید بن حُضَیر رضی اللہ عنہ سے مذاق کررہے تھے کہ ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے مارا تو أُسَید نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے بدلہ چاہیئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بدلہ لے لو، تو اسید نے عرض کیا کہ جب آپ نے مجھے مارا تھا اُس وقت میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا، تو آپ علیہ السلام نے اپنے جسم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو أُسَید بن حضیر آپ علیہ السلام کے جسم سے چمٹ گئے کہ یارسول اللہ! میرا یہی مقصود تھا.

بينما النبي صلى الله عليه وسلم يمازح أُسَيْدَ بن حضير، طعنه في خاصرته بعود، فقال أُسَيْد: أصبِرني (أى: أقدني من نفسك)، فقال: اصطبرْ (أى: استقد)، قال: إنَّ عليك قميصاً وليس عليَّ قميص، فرفع النبي صلى الله علیه وسلم الضلع، قال: إنما أردتُ هذا يارسول الله. (رواه أبوداود) 
خلاصہ کلام


صحابہ کرام کی آپ علیہ السلام سے محبت اور عقیدت یقینا اس قدر زیادہ تھی کہ آپ علیہ السلام کے جسم اطہر سے ٹپکتے پانی کے قطرے اور پسینے کے قطروں کو تبرک کیلئے اپنے جسموں پر ملتے تھے، لیکن وفات کے وقت حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کے حیلے سے جسم أطہر کو چومنے والا واقعہ درست نہیں،  لہذا اس واقعے کو بیان کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ


Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
جلد4

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 387
  • تنبیہ نمبر 386
  • تنبیہ نمبر 385

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes