صحابہ کا جنگ میں مسواک کرنا
سوال: ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایک جنگ کے موقعہ پر فتح نہیں ہورہی تھی، جب انہوں نے فتح نہ ملنے کی وجہ کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ مشغولیت کی وجہ سے مسواک کرنا بھول گئے تو سب ساتھیوں نے مسواک نکال کر اس سے اپنے دانتوں کا خلال کرنا شروع کردیا، جب دشمنوں نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ لوگ تو دانت تیز کررہے ہیں، لگتا ہے کہ ہمیں کچا ہی چبا جائیں گے، تو دشمن بھاگ گئے… اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ مختلف کتب تاریخ میں مختلف صحابہ کرام کے لشکروں میں پیش آنے والے واقعے کے طور پر ملتا ہے لیکن مسواک سے متعلق واقعہ سب سے پہلے ہمیں تاریخ طبری میں ملتا ہے اور بظاہر وہی ان تمام واقعات کا مأخذ معلوم ہوتا ہے۔
امام طبری کہتے ہیں کہ 14 ہجری میں جب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا تو رستم جو نجف میں تھا اس نے اپنا جاسوس مسلمانوں کے لشکر میں بھیجا، اس جاسوس نے دیکھا کہ ہر نماز کیلئے مسلمان مسواک کرتے ہیں اور پھر نماز پڑھتے ہیں، پھر وہ جاسوس واپس رستم کے پاس آیا اور ساری خبر سنائی تو اس نے پوچھا کہ ان کا کھانا کیا تھا؟ تو اس نے کہا کہ میں نے ان میں ایک دن گذارا ہے، میں نے کسی کو کچھ کھاتے نہیں دیکھا البتہ ان کے پاس کچھ لکڑیاں تھیں جن کو وہ لوگ صبح شام اور رات کے وقت چوستے تھے۔
اس کے بعد رستم چلا اور مسلمانوں کے لشکر کے سامنے اترا اور دیکھا کہ مؤذن نے ظہر کی نماز کیلئے اذان دی اور مسلمان نماز کی تیاری میں لگ گئے تو رستم نے اپنے لشکر والوں سے کہا کہ فورا سوار ہوجاؤ تو پوچھا گیا کہ کیوں؟ تو رستم نے کہا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ تمہارا دشمن حملے کی تیاری کررہا ہے تو اس کو بتایا گیا کہ وہ نماز کی تیاری کررہے ہیں۔
كَتَبَ إِلَيَّ السَّرِيُّ: عَنْ شُعَيْبٍ، قال: حَدَّثَنَا سيف عن النضر عن ابن الرفيل، قال: لما نزل رستم النجف بعث منها عينا إلى عسكر المسلمين، فانغمس فيهم بالقادسية كبعض من ند منهم، فرآهم يستاكون عند كل صلاة، ثم يصلون فيفترقون إلى مواقفهم، فرجع إليه فأخبره بخبرهم وسيرتهم حتى سأله: ما طعامهم؟ فقال، مكثت فيهم ليلة، لا والله ما رأيت أحدا منهم يأكل شيئا، إلا أن يمصوا عيدانا لهم حين يمسون، وحين ينامون، وقبيل أن يصبحوا، فلما سار فنزل بين الحصن والعتيق وافقهم، وقد أذن مؤذن سعد الغداة، فرآهم يتحشحشون، فنادى في أهل فارس أن يركبوا، فقيل له: ولم؟ قال: أما ترون إلى عدوكم قد نودي فيهم فتحشحشوا لكم. قال عينه: ذلك إنما تحشحشهم هذا للصلاة.
١. مشارع الاشواق میں اس واقعے کا رخ:
اس کتاب میں بلاسند اس واقعے کو مجہول صیغے سے ایسا نقل کیا گیا کہ مسلمانوں نے کفار کے قلعے کا محاصرہ کیا تو کافی وقت تک فتح نہ ہوئی تو امیر نے کہا کہ غور کرو کہیں کوئی بدعت تو نہیں ہوگئی یا کوئی سنت تو نہیں چھوٹ گئی، لہذا جب لشکر والوں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ مسواک کے کرنے میں سستی ہوئی تھی تو انہوں نے مسواک کرنا شروع کردی تو اللہ تعالی نے فتح دے دی.
قال ابن النحاس (814ھ) صاحب “مشارع الاشواق الی مصارع العشاق”: ويحكى أن بعض عَساكر المسلمين حاصروا حصناً من حصون الكفار، فتوقف عليهم فتحه، فقال أميرهم: انظروا ما ذا ارتكبتموه من البدع أو تركتموه من السنن حتى عَسُر علينا فتح الحصن؟ فنظروا فإذا هم قد أهملوا السواك، فاستعملوا السواك ففتح الله عليهم الحصن. [مشارع الأشواق: 1/577].
٢. اس واقعے کا ایک دوسرا رُخ:
مصنف لکھتے ہیں کہ ترکوں سے لڑائی کے دوران محاصرہ طویل ہوا اور فتح نہیں ہورہی تھی تو امیر نے کوتاہی کا سبب تلاش کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ پورے لشکر میں کسی کے پاس بھی مسواک نہیں ہے، چنانچہ مسلمانوں نے مختلف درختوں کی شاخیں اور جڑیں مسواک کے طور پر استعمال کرنی شروع کیں، وہاں دشمنوں کا ایک جاسوس موجود تھا، جب اس نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنی قوم سے کہا کہ مسلمان تمہیں کھانے کیلئے دانت تیز کررہے ہیں، لہذا دشمن ڈر گیا اور فتح ہوئی۔
في إحدى مَعارك المسلمين في بلاد التُّرك، طال الحصارُ حول حصن من حصون الترك، كما أحسَّ المسلمون بالمَلل، فبحث قائدُ الجيش عن سِرّ تأخر هذا النصر، وكانوا أولَ ما يفَتِّشون في أوراقهم عن إخلاصهم لله تعالى؛ ثم الفرائض؛ ثم عن السنن.
فوجدوا أنهم لا يَملِكون سِوَاكا (ولو واحدا) للتسوُّك به قبل الصلاة، فاضطر المسلمون إلى استخدام لِحَاء الأشجار وفُروعها بدلا عن السواك، ولم يكن أحد يدري أن جاسوسا للأعداء وسط الجيش، فرأى المسلمين للمرة الأولى يَستاكُون، فخَاف واضطربَ، وسريعا مَّا اتجه إلى قومه يُخبرهم مَذعورا أن المسلمين يَشحَذُون أسنانهم ليأكلونا. فخاف قومُه، وألقى الله الرُّعب في قلوبهم، وفُتح الحصن، وارتفعت رايةُ لا إله إلا الله. [الفتوحات الاسلامية (1/425) لدحلان]
٣. اس واقعے کا تیسرا رُخ:
اس بار یہ واقعہ مصر کی فتح کے موقعے پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پیش آیا جب حضرت زبیر کو لشکر میں مسواک کی کمی محسوس ہوئی، پس مسواک کرنے سے جاسوس ڈر گئے اور فتح ہوئی۔
في قصة فتح مصر أيام عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقولون: إن عمرو بن العاص أرسل في طلب المَدد من عمر عندما وصل قُرب الفَرمة (بُورسَعيد حاليا) فبعث إليه المدد ومعهم الزبير رضي الله عنه. ولما استبطأ الزبير الفتحَ جمعهم وقال: إنهم ولا بُدَّ نسوا شيئا من سنة رسول الله، فتذكروا السواك، ولما لم يجدوا شجرتَه بأرض مصرٍ استعملوا خَشَب الأشجار، ولما رأتهم عيونُ الروم رجعوا لقادتهم وقالوا: إن جيش المسلمين يُسِن أسنانه لتقطيع الروم؛ فدبَّ فيه الذُّعر وجاء النصر.
٤. اس واقعے کا چوتھا رُخ:
اس بار یہ واقعہ خراسان میں پیش آیا اور لشکر کے امیر قُتَیبہ بن مسلم تھے اور وہی مسواک کی سنت چھوٹ گئی اور مسواک کرنے سے دشمن ڈر گئے.
فهذا قُتيبة بن مُسلم الباهلي، وكان شاباً من شباب المسلمين خرج بالجيوش إلى خُراسان، فافتتح في غزوة واحدة اثنتين وسبعين مدينة، وكان من أشهر المسلمين في الفتوحات، حتى إنه لم تهزَم له رايةٌ قط في معاركه كلها، وكان شاباً حديث السِّن، لكنه كان ذكياً مؤمناً محباً للجهاد في سبيل الله، حاصر حصناً من الحصون فترة فلم يفتح عليه، فقال للمسلمين: لعلكم قصَّرتم في سُنة من سنن الدين؛ حَبَس الله عنكم الفتح لأجلها، فنظروا فإذا هُم قد تأخروا عن السواك، فقد كانوا في أرض ليس بها من الشجر ما يَستاكون به، فأمر بعضَ القوم فأتاهم بالمساويك، فلما صَفُّوا في أوجه العدو جعلوا يستاكون، فظن العدو أنهم يَشحَذون أسنانَهم ليأكلوهم، ففتحوا لهم الحصن.
٥. اس واقعے کا پانچواں رخ:
اس بار یہ واقعہ عبداللہ بن مبارک کے ساتھ پیش آیا جب وہ جہاد میں گئے اور فتح نہیں ہورہی تھی ملاحظہ فرمائیں:
بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مبارک مروزی ؒ نے اپنی زندگی کے تین حصے کئے ہوئے تھے۔ ایک سال حج کو جاتے اور ایک سال غزوہ میں تشریف لے جاتے اور ایک سال علم کا درس دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، وہاں کفار کا قلعہ فتح نہیں ہوا تو آپ رات کو اسی فکر میں سوگئے، خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس ﷺ فرما رہے ہیں: اے عبداللہ! کس فکر میں ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ! کفار کے اس قلعہ پر قادر نہیں ہو پارہا اس فکر میں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسواک کے ساتھ وضو کیا کر۔
(مأخوذ از فضائل مسواک، افادات: حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب سہارنپوری)۔
ان تمام واقعات کی اسنادی حیثیت:
ان میں سے فقط تاریخ طبری کے واقعے کی سند موجود ہے باقی تمام واقعات بغیر سند کے کتب میں موجود ہیں۔
تاریخ طبری کی سند:
١. پہلا نکتہ:
اگرچہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے لیکن امام طبری نے اس کو 14 ہجری کے واقعات میں نقل کیا ہے گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور ہے اور ایران پر حملے کے واقعات میں سے ہے لیکن اس واقعے کو 250 سال تک امام طبری سے پہلے کسی نے نقل نہیں کیا۔
٢. دوسرا نکتہ:
امام طبری نے اپنی تاریخ میں تاریخی واقعات کو نقل کرنے کا اہتمام تو کیا ہے لیکن وہ واقعات درست اور مستند ہوں اس بات کا اہتمام نہیں کیا۔
جیسے تاریخ طبری پر تحقیق کا کام کرنے والے حضرات نے لکھا ہے کہ امام طبری نے جس سے روایت لی اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا، اس بات کی کوئی تحقیق نہیں کی کہ یہ بات درست ہے بھی یا نہیں۔
بدأ الطبري من أخبار آدم إلى أن انتهى بأخبار زمانه. والكتاب على طريق الأخبار وبالتسلسل، وغالبه بالأسانيد، ولم يشترط الطبري ثبوت جميع ما فيه بل أخذ بمبدأ «من أسند فقد أحال
امام طبری نے خود اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اگر اس کتاب میں کوئی ایسی بات ملے جو پڑھنے والے کو عجیب محسوس ہو تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے یہ بات ہم تک پہنچائی ہے، ہم نے تو صرف اسکو آگے بیان کردیا ہے۔
حيث يقول الطبري في مقدمة الكتاب: «فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه، أو يستشنعه سامعه، من أجل أنه لم يعرف له وجهًا في الصحة، ولا معنى في الحقيقة، فليعلم أنه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتى من قبل بعض ناقليه إلينا، وانا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدى إلينا. (تاريخ الطبري المقدمة:1/8)
بعض محققین کہتے ہیں کہ طبری کی کتاب میں بعض راوی جھوٹے اور بعض رافضی بھی ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طبری نے قاعدہ بنایا ہے کہ: “ذمہ داری بولنے والے کی ہے، میری نہیں”۔
والطبري ينقل روايات في التاريخ فيها أحياناً كذابون أو متهمون بالرفض على مذهب: (من أسند فقد أحال).
٣. تیسرا نکتہ:
مسواک والے واقعے کی سند:
اس واقعے کی سند کچھ یوں ہے:
كتب الي السري (ثقه) عن شعيب(مجهول) قال حدثنا سيف (متهم بالزندقة والكذب) عن ابن الرفيل(رجل فارسي مجهول
لہذا اس قدر کمزور سند کے ساتھ (اور محض طبری کی کتاب میں نقل ہونے کی وجہ سے) یہ روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
٤. چوتھا نکتہ:
اگر بالفرض طبری کی روایت کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی اس واقعے میں اتنا ہے کہ مسلمان ہر نماز کیلئے اور صبح شام مسواک کرتے ہیں، لیکن اس میں فتح میں تاخیر اور مسواک کے بھول جانے جیسی کوئی بات موجود نہیں.
خلاصہ کلام
یہ واقعہ ان الفاظ کے ساتھ کسی بھی مستند کتاب میں منقول نہیں، البتہ غالبا طبری کی روایت کو بنیاد بنا کر (بعد کے قصہ گو) لوگوں نے اس واقعے کی یہ شکل بنادی اور پھر متأخرین کی کتابوں میں یہ واقعہ بلاسند نقل ہوتا چلا گیا، لہذا اس بےسند واقعے کو اس مضمون کے ساتھ نقل کرنا درست نہیں.
نوٹ: پہلے اس واقعے کی تحقیق مختصر انداز میں کی گئی تھی، لیکن کچھ محترم احباب خصوصا شیخ طلحہ منیار صاحب نے اپنے بلاگ پر اس واقعے کو مختلف کتابوں کے حوالے سے لکھ کر فرمایا تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کی اصل معلوم ہوتی ہے تو بندہ نے دوبارہ مراجعت کی اور شیخ کے ذکر کردہ واقعات کو بھی دیکھا لیکن اس واقعے میں صحت کے کوئی اسباب نظر نہ آئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ