غیبت کی جائز صورتیں
● سوال:
محترم مفتی صاحب!
بےشک غیبت حرام ہے، لیکن بعض اوقات ایسا موقعہ پیش آجاتا ہے کہ انسان کو کسی کے بارے میں سچائی ظاہر کرنی پڑتی ہے، ورنہ کسی دوسرے کا شدید نقصان ہوسکتا ہے، تو کیا شریعت میں کچھ ایسی صورتیں موجود ہیں کہ جن میں غیبت (یعنی کسی کے بارے میں کچھ کہنے) کی اجازت ہو؟
(سائل: بھائی سعید انور، سابق ٹیسٹ کرکٹر)
الجواب باسمه تعالی
غیبت ایک بہت عظیم گناہ ہے اور اس کی ممانعت و قباحت قرآن مجید اور أحادیث مطہرہ دونوں میں موجود ہے، البتہ علمائےکرام نے نصوص شرعیہ کی روشنی میں بعض ایسے مواقع کو اس سے مستثنی کیا ہے کہ جن مواقع پر بظاہر غیبت نظر آنے والا عمل شرعا درست قرار دیا جاتا ہے، یا بالفاظ دیگر ان مواقع پر غیبت کو غیبت نہیں کہا جائےگا.
■ وہ صورتیں جن میں غیبت کی گنجائش ہوتی ہے:
١. پہلی صورت:
کسی کے ظلم کو بیان کرنا:
یعنی مظلوم کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ بادشاہ، قاضی یا کسی ایسے شخص سے ظالم کی شکایت کرے جو مظلوم کی مدد کرسکتا ہو.
○ الأولى: التظلم، فيجوز للمظلوم أن يتظلم إلى السلطان أو القاضي، وغيرهما ممن له ولاية أو قدرة على إنصافه من ظالمه.
٢. دوسری صورت:
کسی منکر کو روکنے کیلئے کسی سے مدد لینا، تاکہ وہ شخص گناہگار کو اس گناہ سے روکے.
○ الثانية: الاستعانة على تغيير المنكر، ورد العاصي إلى الصواب، فيقول لمن يرجو قدرته، فلان يعمل كذا فازجره عنه.
٣. تیسری صورت:
مفتی صاحب کے سامنے ساری صورت حال واضح کرنے کیلئے کسی کے عمل کو ظاہر کرنا.
[مفتی رشید أحمد صاحب أحسن الفتاوی (ج:8، صفحہ:193) پر لکھتے ہیں کہ اس صورت میں نام کو مبہم رکھنا بہتر ہے.]
○ الثالثة: الاستفتاء، بأن يقول للمفتي: ظلمني فلان أو أبي أو أخي بكذا فهل له كذا؟ وما طريقي للخلاص، ودفع ظلمه عني؟
٤. چوتھی صورت:
وہ شخص کھلم کھلا گناہ کرنے والا ہو تو اس کے اسی گناہ کو بیان کرنا غیبت کے حکم میں شمار نہیں ہوگا، جیسے: شراب نوشی، سود خوری وغیرہ.
○ الرابعة: أن يكون مجاهراً بفسقه أو بدعته، كشرب الخمر ومصادرة أموال الناس، فيجوز ذكره بما يجاهر به، ولا يجوز بغيره إلا بسبب آخر.
٥. پانچویں صورت:
کوئی شخص کسی ایسے نام سے مشہور ہوچکا ہو جو عموما عیب شمار ہوتا ہے، جیسے: نابینا، گونگا، لنگڑا وغیرہ.
(مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ اس شرط پر جائز ہے کہ اس کے بغیر تعارف ناممکن یا متعذر ہو). (194/8)
○ الخامسة: التعريف، فإذا كان معروفاً بلقب: كالأعشى أو الأعمى أو الأعور أو الأعرج جاز تعريفه به، ويحرم ذكره به على سبيل التنقيص، ولو أمكن التعريف بغيره كان أولى.
٦. چھٹی صورت:
مسلمانوں کو کسی کے شر سے محفوظ کرنے کیلئے اس کی حقیقت واضح کرنا.
○ السادسة: تحذير المسلمين من شره.
● اس صورت کی مزید شقیں:
مندرجہ بالا چھٹی صورت کی علمائےکرام نے پانچ شقیں ذکر فرمائی ہیں:
١. کسی مصنف، راوی یا گواہ کی حقیقت واضح کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ شریعت کی حفاظت کیلئے واجب ہے.
□ جرح المجروحين من الرواة والشهود والمصنفين، وذلك جائز بالإجماع بل واجب صونا للشريعـة.
٢. مشورے کے وقت (نصیحت کے طور پر) حقیقت حال بتانا.
□ الإخبار بغيبة عند المشاورة. [ھذا من باب: “وإذا استنصحك فانصح له”. (مسلم)]
٣. کوئی شخص کوئی غلط چیز خرید رہا ہو تو اس کو صحیح مشورہ دینا کہ یہ چیز درست نہیں.
□ إذا رأيت من يشتري شيئا معيبا أو نحو ذلك، تذكر للمشتري ذلك نصيحةً لا لقصد الإيذاء أو الإفساد.
٤. کوئی شخص کسی علمی یا دینی کام میں کسی فاسق کی طرف متوجہ ہورہا ہو تو اس کو خبردار کرنا.
□ إذا رأيت متفقها يتردد إلى فاسق أو مبتدع يأخذ عنه علما فعليك نصيحته.
٥. جس شخص کو عوام کی ذمہ داری دی گئی ہو اور وہ اس کو پورا نہ کرتا ہو تو اس کے اوپر کے لوگوں کو حقیقت حال بتانا.
□ أن يكون له ولاية ولا يقوم بها على وجهها لعدم أهليته أو لفسقه فيذكره لمن له عليه ولاية ليستدل به أو يعرف حاله.
■ ان صورتوں کے جواز کی مثالیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی ان صورتوں کے جواز کی مثالیں ملتی ہیں:
١. پہلی صورت:
ایک خاتون آپ علیہ السلام کے پاس آئی اور اپنے دیور کی شکایت کی کہ اس نے اسکے مرحوم شوہر کے سارے مال پر قبضہ کرلیا ہے تو اس پر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں.
١. الأولی: التظلم.
جَابِر بْن عَبْدِالله رضي الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُـولِ الله صلى الله عليه وسلم حَتَّى جِئْنَا امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ فِي الأَسْوَاقِ فَجَاءَتِ الْمَرْأَةُ بِابْنَتَيْنِ لَهَا فَقَالَتْ: يَارَسُـولَ الله! هَاتَانِ بِنْتَا ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ وَقَدِ اسْـتَفَاءَ عَمُّهُمَا مَالَهُمَا وَمِيرَاثَهُمَا كُلَّهُ فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالاً إِلاَّ أَخَذَهُ فَمَا تَرَى يَارَسُولَ الله! فَوَالله لاَ تُنْكَحَانِ أَبَدًا إِلاَّ وَلَهُمَا مَالٌ. فَقَالَ رَسُـولُ الله صلى الله عليه وسلم: “يَقْضِى الله فِي ذَلِكَ”. قَالَ وَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ ﴿يُوصِيكُمُ الله فِي أَوْلاَدِكُمْ…﴾ الآيَةَ. فَقَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “ادْعُوا لِيَ الْمَرْأَةَ وَصَاحِبَهَا”. فَقَالَ لِعَمِّهِمَا: “أَعْطِهِمَا الثُّلُثَيْنِ وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِىَ فَلَكَ”.
قَالَ أَبُودَاوُدَ: أَخْطَأَ بِشْرٌ فِيهِ، إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ وَثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قُتِلَ يَوْمَ الْيَمَامَةِ.
٢. دوسری صورت:
ابوسفیان کی بیوی نے خرچے کیلئے شوہر کے مال سے ان کی اجازت کے بغیر مال لینے کی اجازت چاہی تو آپ علیہ السلام نے بقدر ضرورت لینے اجازت عطا فرمائی.
٢. الثانية: الاستِفتَاءُ.
ودل عليه قولُ هِنْد امرأة أَبِي سُفْيَانَ: يَارَسُولَ الله! إِنَّ أَبَاسُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ فَهَلْ عَلَىَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ قَالَ: “خُذِي بِالْمَعْرُوفِ”.
٣. تیسری صورت:
ایک صحابیہ نے رشتے کیلئے آپ علیہ السلام سے مشورہ کیا اور کچھ نام پیش کئے تو آپ علیہ السلام نے ان صحابہ کرام کی مختلف عادتیں بیان فرمائیں جس سے صورتحال واضح ہوگئی اور پھر اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا.
الثالثة: التَحذِيرُ.
ودل عليه قول النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ رضي الله عنها: “أَمَّا أَبُوجَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتَقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ”.
• امام نووی فرماتے ہیں کہ ایسی غیبت جو نصیحت کیلئے ہو وہ حرام نہیں بلکہ واجب ہے.
□ قال النووي: وَفِيهِ دَلِيل عَلَى جَوَاز ذِكْر الْإِنْسَان بِمَا فِيهِ عِنْد الْمُشَاوَرَة وَطَلَب النَّصِيحَة، وَلَا يَكُون هَذَا مِنْ الْغِيبَة الْمُحَرَّمَة بَلْ مِنْ النَّصِيحَة الْوَاجِبَة.
٤. چوتھی صورت:
ایک شخص آپ علیہ السلام کی مجلس میں آیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بدترین آدمی ہے.
الرابعة: المجاهرةُ بالفسقِ.
ودل عليه قول النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لرَجُل اسْتَأْذَنَ عَلَيه: “ائْذَنُوا لَهُ فَبِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ”.
• علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کفر اور اہل فسق کی غیبت جائز ہے، لیکن اس کے باوجود ان سے اچھی طرح پیش آنا بھی درست ہے.
□ قال ابن حجر: وَهَذَا الْحَدِيث أَصْل فِي الْمُدَارَاة، وَفِي جَوَاز غِيبَة أَهْل الْكُفْر وَالْفِسْق وَنَحْوهمْ… وَالله أَعْلَمُ.
• امام أحمد فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے گناہ کو کھلم کھلا کررہا ہو تو اس کی برائی کرنا غیبت نہیں.
□ وَقَالَ الْخَلَّالُ: أَخْبَرَنِي حَرْبٌ سَـمِعْت أَحْمَدَ رضي الله عنه يَقُولُ: إذَا كَانَ الرَّجُلُ مُعْلِنًا بِفِسْقِهِ فَلَيْسَتْ لَهُ غِيبَةٌ.
• حضرت انس اور حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے خود ہی حیا کا پردہ ہٹالیا تو پھر اس کی غیبت کرنا غیبت شمار نہ ہوگا.
□ وَقَالَ أَنَسٌ وَالْحَسَنُ: مَنْ أَلْقَى جِلْبَابَ الْحَيَاءِ فَلَا غِيبَةَ فِيهِ.
• امام أحمد سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص رشتہ لے کر آئے اور وہ شخص برا ہو تو کیا اس کے بارے میں کھل کر بتانا چاہیئے اور کیا یہ غیبت تو نہیں؟ جیسے آپ علیہ السلام نے ایک صحابیہ کو مشورہ دیا تھا.
تو امام أحمد بن حنبل نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جارہا ہے وہ تو امانتدار ہے، اس کو چاہیئے کہ حقیقتِ حال بتادے.
□ سُئِلَ الْإِمَامُ أَحْمَد رحمه الله عَنْ الرَّجُلِ يَسْأَلُ عَنْ الرَّجُلِ يَخْطُبُ إلَيْهِ فَيَسْأَلُ عَنْهُ فَيَكُونُ رَجُلَ سُوءٍ فَيُخْبِرُهُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لِفَاطِمَةَ: “مُعَاوِيَةُ عَائِلٌ، وَأَبُوجَهْمٍ عَصَاهُ عَلَى عَاتِقِهِ”، يَكُونُ غِيبَةٌ إنْ أَخْبَرَهُ؟ قَالَ: الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ؛ يُخْبِرُهُ بِمَا فِيهِ… وَهُوَ أَظْهَرُ.
خلاصہ کلام
اگرچہ غیبت کی کچھ صورتوں کو علمائےکرام نے جائز قرار دیا ہے لیکن پھر بھی اس سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ بسا اوقات شیطان انسان کو حقیقتِ حال بتانے کے عنوان سے حرام والی غیبت میں مبتلا کرکے تمام أعمال باطل کروا دیتا ہے، لہذا کسی مستند شخص سے مشورے کے بعد ہی زبان کھولنی چاہیئے اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٢ اپریل ٢٠١٩ کراچی