اسلام نے غلام کو امام بنا دیا
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
*آئیے ایک کہانی سنیئے
*مدینہ میں ایک یہودی تھا جسکا نام سلام تھا. وہ ملکِ شام گیا تاکہ تجارت کے لئے کچھ سامان خریدے. سامان خرید کر جب وہ واپس آرہا تھا تو اس کی نظر ایک غلام پر پڑی جس کا رنگ بہت کالا تھا، نہ شکل سے اچھا تھا نہ عقل سے. سلام نے سوچا کہ اگر وہ اسے خرید لے تو وہ اسے اپنے شہر مدینہ میں جا کر مہنگے داموں بیچ سکتا ہے اور نفع کما سکتا ہے. چنانچہ اس نے وہ غلام خرید لیا. غلام کا نام سالم تھا. مدینہ میں پہنچا اور سارا سامان تین دن میں بیچ دیا لیکن سالم کو خریدنے والا کوئی نہیں تھا. ہر کوئی اس کی شکل و صورت دیکھ کر نظر انداز کردیتا تھا.ایک دن سلام نے غلام سالم سے کہا کہ وہ سامان پکڑ کے دھوپ میں کھڑا ہوجائے تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ غلام بہت محنتی ہے اور دھوپ میں بھی کام کرتا ہے تو وہ خرید لیں گے.سالم نے ایسا ہی کیا لیکن لوگ ہوشیار تھے. انہیں پتا چل گیا کہ یہ غلام محض مالک کے حکم پہ کھڑا ہے، کام والا نہیں.مدینہ میں ایک خاتون تھیں جنکا نام فاطمہ تھا، وہ اپنی خدا ترسی کی وجہ سے مشہور تھیں، انہوں نے جب غلام کو دیکھا تو اسے خرید لیا.اس کے بعد مکہ سے ایک صاحب مدینہ آئے جن کا نام حذیفہ تھا. لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ فاطمہ بہت پاکباز اور خدا ترس خاتون ہیں، آپ ان سے شادی کرلیں. حذیفہ نے تسلیم کرلیا اور فاطمہ سے شادی کر کے واپس مکہ روانہ ہوگئے. سالم غلام بھی ساتھ چلا گیا. مکہ پہنچ کر حذیفہ نے اپنے دوست عثمان بن عفان سے ملاقات کی اور اسے خوشخبری دی کہ میں نے مدینہ میں ایک خاتون سے شادی کرلی ہے جو بہت اچھی خاتون ہیں اور اپنی پاکبازی کی وجہ سے مشہور بھی ہیں. لیکن عثمان نے اپنے دوست حذیفہ کی بات پر خاص توجہ نہ دی. اس بےرخی کی وجہ سے حذیفہ کو رنج ہوا اور انہوں نے اپنے دوست سے اس کی وجہ پوچھی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں اور تم مسلمان نہیں ہو، لہذا ہماری دوستی نہیں رہ سکتی. حذیفہ جانتے تھے کہ عثمان بہت سمجھدار انسان ہیں، وہ کوئی بےفائدہ کام نہیں کرسکتے، لہذا اپنے دوست کو کہا کہ میں بھی اسلام قبول کروں گا، اپنی زوجہ فاطمہ اور غلام سالم کے ساتھ اسلام قبول کرلیا. پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین میں بیان فرمایا جس میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کی. فاطمہ نے گھر آکر سالم کو آزاد کردیا. لیکن سالم نے کہا کہ میرا ملک شام بہت دور ہے اور آپ لوگ بہت اچھے ہیں، میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ حذیفہ نے سالم کو اپنے پاس رکھ لیا اور سالم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھیجنے لگے. سالم قرآن کی تعلیم حاصل کرنے لگے، وقت گذرتا گیا….ایک بار یوں ہوا کہ وہ مسجد میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کا قرآن سن کر فرمایا: “تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں سالم جیسے لوگ پیدا کئے”.یہ اتنی بڑی تعریف تھی کہ اس سے پہلے کسی کے لئے نہیں کی گئی تھی.پجر جب ہجرت کا حکم آیا تو سالم نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی. اور مدینہ جاکر وہاں کی سب سے پہلی مسجد، “مسجد قبا” کے امام مقرر ہوگئے.لوگ رشک کرنے لگے کہ ایسا غلام جسے کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا، آج مسجد قبا کا امام بن گیا ہے.پھر وقت گذرا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی. خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی گذرا. امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت بھی قریب ہوا. سالم دنیا سے رخصت ہوچکے تھے. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر سالم زندہ ہوتے تو مجھے امیر بنانے میں کوئی مشقت نہ ہوتی (یعنی میں انہیں امیر المؤمنین بنا دیتا) کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ “سالم کا دل اللہ کی محبت سے بھرا ہوا ہے”. *کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کسی انتہائی لاعلم شخص نے یہ واقعہ اپنی طرف سے بنایا ہے تو غلط نہ ہوگا.
*○ اس واقعے میں تاریخی غلطیاں:*
*١. پہلی غلطی:* سلام نامی یہودی کا شام جانا اور سالم نامی کالے غلام کو خریدنا.
*٢. دوسری غلطی:* مدینہ میں فاطمہ نامی خاتون کا سالم کو خریدنا.
*٣..تیسری غلطی:* حذیفہ کی فاطمہ سے شادی. بلکہ فاطمہ سے سالم کی شادی ابوحذیفہ نے کرائی تھی
*٤. چوتھی غلطی:* ہجرت سے قبل کسی مسجد میں سالم کی تلاوت.
*● سالم مولی ابی حذیفہ کا مستند واقعہ:*
حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے بارے میں تاریخ کی کتاب نقل کرتی ہیں کہ یہ اصطخر(ایران ) کے تھے اور یہ مدینہ کی ایک خاتون ثبیتہ بنت یعار کے غلام تھے جو ابوحذیفہ کی بیوی تھیں، انہوں نے ان کو آزاد کیا اور ابوحذیفہ نے ان کو متبنی (یعنی لے پالک) بنالیا.
□ سالم مولى أبي حُذيفة ابن عُتبة بن ربيعة، في رواية موسى بن عُقبة سالم بن مَعْقِل، من أهل إصطخر، وهو مولى ثُبَيْتَةَ بنت يعار الأنصارية.
*ان کا نام سالم بن معقل تھا، ابوعبداللہ ان کی کنیت تھی، یہ مہاجرین میں سے بھی شمار کئے جاتے تھے کیونکہ ان کے مولی ابوحذیفہ مہاجر تھے، اور ان کو انصار میں بھی شمار کیا جاتا تھا کیونکہ ان کی مالکن انصاری خاتون ثبیتہ بنت یعار تھی، اور یہ عجمی بھی شمار ہوتے تھے کیونکہ اصلا یہ فارس ایران کے تھے.*
□ سَالِم مَوْلى أبي حُذَيْفَة. وهو سالم بن عبيد بن ربيعة، قاله ابن منده، وقيل: سالم بن مَعْقِل، يكنى أبا عبدالله. وهو مولى أبي حذيفة بن عُتْبَة بن ربيعة بن عبدشَمْس بن عبدمناف القرشي العَبْشَمِي، كان من أهل فارس من إصْطَخْر، وكان من فضلاء الصحابة والموالي وكبارهم، وهو معدود في المهاجرين، لأنه لما أعتقته مولاته ثُبَيْتة الأنصارية، زوج أبي حذيفة، تَوَلَّى أباحذيفة، وتبناه أبوحذيفة، فلذلك عُدّ من المهاجرين، وهو معدود في بني عبيد من الأنصار، لعتق مولاته زوج أبي حذيفة له، وهو معدود في قريش لما ذكرناه، وفي العجم أيضًا لأنه منهم.
□ فعن محمد بن أبي بكر قال: كانت عائشة رضي الله عنها، إذا غضبت عرَّك النبي صلى الله عليه وسلم بأنفها ثم يقول: “يا عويش! قولي: اللَّهم ربَّ محمد اغفر لي ذنبي، وأذهب غيظ قلبي، وأجرني من مضلات الفتن”.
*سالم رضی اللہ عنہ کا شمار قراء صحابہ کرام میں ہوتا تھا.*
□ ويعد في القُرَّاء لقول رسول الله صَلَّى الله عليه وسلم: “خُذُوا القُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ”، فذكره منهم. وكان قد هاجر إلى المدينة قبل النبي صَلَّى الله عليه وسلم، فكان يؤم المهاجرين بالمدينة، فيهم: عمر بن الخطاب، وغيره، لأنه كان أكثرهم أخذًا للقرآن.
*حضرت عمر ان کو بہت پسند کرتے تھے اور انتقال کے وقت فرمایا کہ اگر سالم زندہ ہوتا تو مجھے شوری بنانے کی ضرورت نہ ہوتی.*
□ وكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه يكثر الثناء عليه، حتى قال لما أوصى عند موته: لو كان سالم حيًا ما جعلتها شورى.
خلاصہ کلام
یہ بات سمجھ سے بلکل بالاتر ہے کہ لوگ کس طرح ان مقدس زمانے کے لوگوں کے بارے میں جھوٹ گھڑ لیتے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بلا سوچے سمجھے اس کو آگے پھیلانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، نہ اللہ کا ڈر نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وعید کا خطرہ (العیاذ باللہ).سب مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس طرح کی باتوں کو پھیلانے سے گریز کریں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٨ اکتوبر ٢٠١٩ مکہ مکرمہ