اللہ کا قیدی
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اسکے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور اگر وہ کوئی برا عمل کرے تو نہ وہ اسکے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو حساب اسکے لئے جاری ہوجاتا ہے اور دو فرشتے جو اسکے ساتھ رہنے والے ہیں انکو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اسکی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں، جب حالتِ اسلام میں چالیس(٤٠) سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی اسکو (تین قسم کی بیماریوں سے) محفوظ کردیتے ہیں: جنون، جذام اور برص سے۔ جب پچاس(٥٠) سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالی اسکا حساب ہلکا کردیتے ہیں، جب ساٹھ(٦٠) سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالی اسکو اپنی طرف رجوع کی توفیق دیتے ہیں، جب ستّر(٧٠) سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسّی(٨٠) سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالی اسکی نیکیوں کو لکھتے ہیں اور گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔
پھر جب نوّے(٩٠) سال کی عمر ہوجاتی ہے تو اللہ تعالی اسکے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادیتے ہیں اور اسکو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اسکی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اسکا لقب “أمِينُ اللہ” (یعنی اللہ کا معتمد) اور “أسیرُ اللہِ فی الأرض” (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہوجاتا ہے، کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عمومًا انسان کی قوت ختم ہوجاتی ہے، کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گذارتا ہے اور جب انتہائی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اسکے تمام وہ نیک عمل اسکے نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو وہ اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔ (حوالہ: تفسیر ابن کثیر، ج:٣)
کیا یہ پوری روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف کتب میں مختلف الفاظ سے منقول ہے:
□ قالَ الله تعالى: إذا بلغَ عَبدي أربعينَ سنةً عافَيتُهُ منَ البَلايا الثَّلاثِ: منَ الجنونِ والبرَصِ والجُذامِ، وإذا بلغَ خمسينَ سنةً حاسبتُهُ حِسابًا يسيرًا، وإذا بلغَ ستِّينَ سنةً حبَّبتُ إليهِ الإنابةَ، وإذا بلغَ سبعينَ سنةً أحبَّتهُ الملائِكَةُ، وإذا بلغَ ثمانينِ سنةً كتَبتُ حسَناتِهِ وأَلقَيتُ سيِّئاتِهِ، وإذا بلغَ تِسعينَ سنةً، قالتِ الملائكةُ: أسيرُ الله في أرضِهِ فغُفِرَ لهُ ما تقدَّمَ مِن ذنبِهِ وما تأخَّرَ، ويُشفَّعُ في أهلِهِ.
□ وعن أنس بن مالك رضي الله عنه (رفع الحديث) قال: المولود حتى يبلغ الحنث ما عمل من حسنة كتبت لوالده (أو لوالديه)، وما عمل من سيئة لم تكتب عليه ولا على والديه، فإذا بلغ الحنث جرى عليه القلم، أمر الملكان اللذان معه أن يحفظا وأن يشددا، فإذا بلغ أربعين سنة في الإسلام أمَّنه الله من البلايا الثلاثة: الجنون والجذام والبرص، فإذا بلغ الخمسين خفف الله حسابه، فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة بما يحب؟ فإذا بلغ السبعين أحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين كتب الله حسناته وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وشفَّعه في أهل بيته، وكان أسير الله في أرضه، فإذا بلغ أرذل العمر لكيلا يعلم بعد علم شيئاً كتب الله له مثل ما كان يعمل في صحته من الخير، فإذا عمل سيئة لم تكتب.
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت سات صحابہ کرام سے مختلف اسناد کے ساتھ منقول ہے، البتہ سب سے مشہور روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ والی ہے.
□ الحديث الوارد بهذا المعنى جاء عن سبعة من الصحابة رضوان الله عليهم، وهم: أنس بن مالك، وعثمان بن عفان، وأبوهريرة، وعبدالله بن عمر، وعبدالله بن عباس، وشداد بن أوس، وعبدالله بن أبي بكر الصديق رضی اللہ عنهم.
○ اس روایت پر علماء کا کلام:
١. ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ یہ روایت میں نے اپنے والد کو سنائی تو انہوں نے اس کو منکر قرار دیا.
¤ قال ابن أبي حاتم في العلل (1981): وَسَأَلتُ أَبِي عَن حَدِيثِ خالِدٍ الزَّيّاتِ، عَن داوُدَ، عَن أَبِي طُوالَةَ، عَن أَنَسٍ، قالَ: قالَ النبي صَلَّى الله عَلَيهِ وَسَلَّمَ: المَولُودُ حَتَّى يَبلُغَ الحِنثَ ما عَمِلَ مِن حَسَنَةٍ فَلِوالِدَيهِ، وَما عَمِلَ مِن سَيِّئَةٍ لَم يُكتَب عَلَيهِ وَلا عَلَى والِدَيهِ، فَإِذا بَلَغَ الحِنثَ أُوحِيَ إِلَى المَلَكَينِ….. فَذَكَرتُ لَهُ الحَدِيثَ.
قالَ أَبِي: هَذا حَدِيث مُنكَر بهذا الإسناد، وأتوهم أَنَّهُ من سُلَيمان بن عَمرو النخعي أَبِي داوُد.
قُلتُ: فيحدث سُلَيمان بن عَمرو هَذا عَن أَبِي طوالة؟ قالَ: يحدث عَن من دب ودرج.
قُلتُ: ما حال سُلَيمان؟ قالَ: متروك الحَدِيث.
٢. امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں.
¤ قال الإمام البيهقي رحمه الله: روي هذا من أوجه أخر عن أنس رضي الله عنه، وروي عن عثمان وكل ذلك ضعيف. (الزهد:646).
٣. علامہ ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایت آپ علیہ السلام سے صحیح سند سے ثابت نہیں.
¤ وقال ابن الجوزي رحمه الله: هذا الحديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. (الموضوعات: 1/180).
٤. امام عراقی کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے.
¤ وقال الحافظ العراقي رحمه الله: موضوع قطعا. (القول المسدد للحافظ ابن حجر).
٥. امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ بڑی عجیب اور منکر روایت ہے.
¤ وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله: هذا حديث غريب جدا، وفيه نكارة شديدة. (تفسير القرآن العظيم: 5/397).
٦. شعیب أرناؤوط لکھتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف جدا ہے اور اس کے شواہد اس کو تقویت نہیں دیتے.
¤ وقال شعيب الأرناؤوط: إسناده ضعيف جداً، وله شواهد لا يفرح بها.
٧. علامہ سیوطی نے اللآلی المصنوعہ میں اس روایت کے تمام اسناد کو ذکر کرکے فرمایا کہ ابن حجر اس متن کو موضوع قرار دینے کے خلاف تھے.
¤ وقد تعقب السيوطي في “اللآلئ” (1/139-146) ابن الجوزي في حكمه على الحديث بالوضع، واستوعب الكلام على طرقه وشواهده الكثيرة، ونقل عن الحافظ ابن حجر أنه يتعذر الحكم من مجموعها على المتن بأنه موضوع، وتبعه في ذلك الشوكاني في “الفوائد المجموعة” (ص:481-483)
٨. اللآلی المصنوعہ کے محقق عبدالرحمن الیمانی نے علامہ سیوطی کے قول کو رد کرکے لکھا ہے کہ یہ متن چونکہ چاہت کے قریب ہے اس لئے اس کیلئے من گھڑت اسناد گھڑے گئے ہیں.
¤ وأبى ذلك محققه العلامة عبدالرحمن اليماني، فقال: واعلم أن هذا الخبر يتضمن معذرة وفضيلة للمسنين، وإن كانوا مفرطين أو مسرفين على أنفسهم، فمن ثم أولع به الناس، يحتاج إليه الرجل ليعتذر عن نفسه، أو عمن يتقرب إليه، فإما أن يقويه، وإما أن يركب له إِسْنَادًا جَدِيدًا، أو يلقنه من يقبل التلقين، أو يدخله على غير ضابط من الصادقين، أو يدلسه عن الكذابين، أو على الأقل يرويه عنهم، سَاكِتًا عن بيان حاله.
● اس مضمون کی صحیح روایات:
آپ علیہ السلام نے سفید بالوں کو اکھاڑنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ مسلمان کا نور ہے. ایک روایت میں ہے کہ سفید بال مسلمان کا نور ہے اور ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے.
□ عند الترمذي وابن ماجه عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ، وَقَالَ: إِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ.
وقال الترمذي: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وقال الشيخ الألباني: حسن صحيح.
ورواه أحمد بلفظ: “لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ، فَإِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةٌ، وَرُفِعَ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ حُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ”.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت کو اگرچہ بعض محدثین نے من گھڑت قرار دیا ہے لیکن زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے سے احتراز کیا جائے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ نومبر ٢٠١٩ کراچی