*محبت کی لازوال داستان*
سوال
ایک واقعے کی تحقیق مطلوب ہے جس میں آپ علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب اور ان کے شوہر ابوالعاص کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے…
(سائل: مفتی ارشاد احمد اعجازصاحب)
الجواب باسمه تعالی
آپ علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی زندگی کی داستان واقعی اس قدر غم زدہ ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی بیٹی کی قبر پر بیٹھ کر رو پڑے.
لیکن جس داستان کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے یہ داستان کچھ صحیح اور زیادہ تر من گھڑت باتوں کو جوڑ کر ایک کہانی کی شکل دی گئی ہے، کوشش کرتے ہیں کہ صحیح کو غلط سے الگ کرکے پیش کیا جائے.
□ ذهب أبوالعاص إلى النبي صلى الله عليه وسلم قبل البعثة وقال له: أريد أن أتزوج أبنتك الكبرى زينب. (أدب)
فقال له النبي: لا أفعل حتى أستأذنها. (شرع)
دخل النبي ﷺ على زينب: ابن خالتكِ جاءني، وذكر اسمكِ فهل ترضينه زوجاً لكِ؟ فاحمر وجهها وابتسمت…..الخ
*١. حصہ اول:
بعثت سے پہلے ایک دن ابوالعاص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں اپنے لئے آپکی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: “میں ان کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا”۔
گھر جا کر رسول اللہﷺ نے زینب سے کہا: “تیری خالہ کے بیٹے نے تیرا نام لیا ہے، کیا تم اس پر راضی ہو؟” زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائیں…
رسول اللہﷺ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور ابوالعاص بن الربيع کا رشتہ زینب کیلئے قبول کیا…
*¤ یہ حصہ روایات سے ثابت نہیں.*
*٢. حصہ دوم:
ابوالعاص سے زینب کا بیٹا “علی” اور بیٹی “امامہ” پیدا ہوئے.
*¤ یہ حصہ ثابت ہے.*
*٣. تیسرا حصہ:*
ابوالعاص کہیں سفر میں تھا، جب واپس آیا تو بیوی اسلام قبول کر چکی تھی، جب گھر میں داخل ہوا تو بیوی نے کہا: میرے پاس تمہارے لئے ایک عظیم خبر ہے.
یہ سن کر وہ اٹھ کر باہر نکلا، زینب خوف زدہ ہو کر ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلیں اور کہا: میرے ابو نبی بنائے گئے ہیں اور میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔
ابوالعاص: تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟
اب دونوں کے درمیان ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوا جو کہ عقیدے کا مسئلہ تھا…
زینب: میں اپنے ابو کو جھٹلا نہیں سکتی، نہ ہی میرے ابو کبھی جھوٹے تھے، وہ تو صادق اور امین ہیں، میں اکیلی نہیں، میری ماں اور بہنیں بھی اسلام قبول کر چکی ہیں، میرے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب بھی اسلام قبول کر چکے ہیں، تیرا چچازاد عثمان بن عفان بھی مسلمان ہو چکے ہیں، تیرے دوست ابوبکر بھی اسلام قبول کر چکے ہیں…
ابوالعاص: مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ اپنی قوم کو چھوڑ دیا، اپنے آباؤ اجداد کو جھٹلایا، تیرے ابو کو ملامت نہیں کرتا ہوں.
*¤ یہ حصہ بھی ثابت نہیں.*
*٤. چوتھا حصہ:*
بہرحال ابوالعاص نے اسلام قبول نہیں کیا یہاں تک کہ ہجرت کا زمانہ آگیا اور زینب رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ مجھے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دینگے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے شوہر اور بچوں کے پاس ہی رہو.
یہ حصہ بھی ثابت نہیں
٥. پانچواں حصہ
وقت گذرتا گیا اور دونوں اپنے بچوں کے ساتھ مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا اور ابوالعاص قریش کی فوج کے ساتھ اپنے سسر کے خلاف لڑنے کے لئے روانہ ہوا، زینب خوف زدہ تھیں کہ اسکا شوہر اسکے ابا کے خلاف جنگ لڑےگا، اسلئے روتی ہوئی کہتی تھیں: اے اللہ! میں ایسے دن سے ڈرتی ہوں کہ میرے بچے یتیم ہوں یا اپنے ابو کو کھو دوں.
یہ حصہ ثابت نہیں
٦. چھٹا حصہ
ابوالعاص بن الربيع رسول اللہﷺ کے خلاف بدر میں لڑے، جنگ ختم ہوئی تو داماد سسر کی قید میں تھا، خبر مکہ پہنچ گئی کہ ابوالعاص جنگی قیدی بنائے گئے…
زینب پوچھتی رہیں کہ میرے والد کا کیا بنا؟ لوگوں نے بتایا کہ مسلمان تو جنگ جیت گئے جس پر زینب نے سجدہ شکر ادا کیا۔
پھر پوچھا: میرے شوہر کو کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: اسکو اسکے سسر نے جنگی قیدی بنایا…
زینب نے کہا: میں اپنے شوہر کا فدیہ (دیت) بھیج دونگی…
یہ حصہ ثابت نہیں
٧. ساتواں حصہ
شوہر کا فدیہ دینے کیلئے زینب کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں تھی، اسلئے اپنی والدہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کا دیا ہوا ہار اپنے گلے سے اتار کر ابوالعاص بن الربيع کے بھائی کو دے کر اپنے والدﷺ کی خدمت میں روانہ کیا، رسول اللہﷺ ایک ایک قیدی کا فدیہ وصول کر کے انکو آزاد کر رہے تھے، اچانک اپنی زوجہ خدیجہ کے ہار پر نظر پڑی تو پوچھا: یہ کس کا فدیہ ہے؟
لوگوں نے کہا: یہ ابوالعاص بن الربيع کا فدیہ ہے…
یہ سن کر رسول اللہﷺ رو پڑے اور فرمایا: یہ تو خدیجہ کا ہار ہے، پھر کھڑے ھوگئے اور فرمایا: اے لوگو! یہ شخص برا داماد نہیں، کیا میں اسکو رہا کر دوں؟ اگر تم اجازت دیتے ہو تو میں اس کا ہار بھی اسکو واپس کر دوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ؟
*¤ یہ حصہ کسی قدر روایات سے ثابت ہے.*
٨. آٹھواں حصہ
رسول اللہﷺ نے ہار ابوالعاص کو تھما دیا اور فرمایا: زینب سے کہو کہ خدیجہ کے ہار کا خیال رکھے، پھر فرمایا: اے ابوالعاص! کیا میں تم سے تنہائی میں کوئی بات کر سکتا ہوں؟ ان کو ایک طرف لے جا کر فرمایا: اے ابوالعاص! اللہ نے مجھے کافر شوہر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کرنے کا حکم دیا ہے اسلئے میری بیٹی کو میرے حوالے کروگے؟
ابوالعاص نے کہا: جی ہاں…
*¤ یہ بات چیت تو ثابت نہیں، البتہ آپ علیہ السلام نے ابوالعاص سے فرمایا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو بھیج دیں.*
٩. نواں حصہ
دوسری طرف زینب شوہر کے استقبال کے لئے گھر سے نکل کر مکہ کے داخلی راستے پر انکی راہ دیکھ رہی تھی، جب ابوالعاص کی نظر اپنی بیوی پر پڑی فوراً کہا: میں جارہا ہوں…
زینب نے کہا: کہاں؟
ابوالعاص: میں نہیں تم اپنے باپ کے پاس جانے والی ہو…
زینب: کیوں؟
ابوالعاص: میری اور تمہاری جدائی کیلئے، جاؤ اپنے باپ کے پاس جاؤ…
زینب: کیا تم میرے ساتھ جاؤ گے اور اسلام قبول کروگے؟
ابوالعاص: نہیں.
یہ حصہ ثابت نہیں
١٠. دسواں حصہ
زینب اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینہ منورہ چلی گئیں جہاں چھ سال کے دوران کئی رشتے آئے مگر زینب نے قبول نہ کئے اور اسی امید سے انتظار کرنے لگیں کہ شاید شوہر اسلام قبول کر کے آئےگا.
*¤ یہ حصہ بھی ثابت نہیں اور نہ ہی کسی رشتے کے آنے کی کوئی روایت موجود ہے.*
١١. گیارھواں حصہ
چھ سال بعد ابوالعاص ایک قافلے کے ساتھ مکہ سے شام کے سفر پر روانہ ہوا، سفر کے دوران راستے میں صحابہ کی ایک جماعت نے انکو گرفتار کیا اور ساتھ مدینہ لے گئے، مدینہ جاتے ہوئے زینب اور انکے گھر کے بارے میں پوچھا، فجر کی اذان کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچا، زینب نے ان پر نظر پڑتے ہی پوچھا: کیا اسلام قبول کر چکے ہو؟
ابوالعاص: نہیں…
زینب: ڈرنے کی ضرورت نہیں، خالہ زاد کو خوش آمدید، علی اور امامہ کے باپ کو خوش آمدید…
رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی تو مسجد کے آخری حصے سے آواز آئی کہ میں ابوالعاص بن الربيع کو پناہ دیتی ہوں…
نبیﷺ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے سن لیا جو میں نے سنا ہے؟
سب نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسولﷺ!…
زینب نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ابوالعاص میرا خالہ زاد ہے اور میرے بچوں کا باپ ہے، میں انکو پناہ دیتی ہوں…
رسول اللہﷺ نے قبول فرما لیا.
*¤ اس قدر بات تو درست ہے کہ ابوالعاص کسی طرح حضرت زینب کے گھر میں داخل ہوئے، حضرت زینب نے ان کو پناہ دی اور آپ علیہ السلام نے بھی اس پناہ کو قبول کیا، لیکن گرفتار ہونے کی بات درست نہیں.*
١٢. بارھواں حصہ:
اور فرمایا: اے لوگو! یہ برا داماد نہیں، اس شخص نے مجھ سے جو بات کی سچ بولا اور جو وعدہ کیا وہ نبھایا، اگر تم چاہتے ہو کہ اسکو اس کا مال واپس کر کے اسکو چھوڑ دیا جائے اور یہ اپنے شہر چلا جائے یہ مجھے پسند ہے، اگر نہیں چاہتے ہو تو یہ تمہارا حق ہے اور تمہاری مرضی ہے، میں تمہیں ملامت نہیں کرونگا…
لوگوں نے کہا: ہم اس کا مال واپس کر کے اس کو جانے دینا چاہتے ہیں…
رسولﷺ نے فرمایا: اے زینب! تم نے جس کو پناہ دی ہم بھی اسکو پناہ دیتے ہیں، اس پر ابوالعاص زینب کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے اور رسول اللہﷺ نے زینب سے فرمایا: اے زینب! ان کا اکرام کرو، یہ تیرا خالہ زاد اور تمہارے بچوں کا باپ ہے، مگر یہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال نہیں…
زینب: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!
گھر جا کر ابوالعاص بن الربيع سے کہا: اے ابوالعاص جدائی نے تجھے تھکا دیا ہے، کیا اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ رہو گے؟
ابوالعاص: نہیں.
¤ آپ علیہ السلام کا ابوالعاص کی تعریف کرنا اور زینب کو ان سے دور رہنے کی نصیحت کرنے والی بات درست ہے.
١٣. تیرھواں حصہ:
اپنا مال لے کر مکہ روانہ ہوگیا، جب مکہ پہنچا تو کہا: اے لوگو! یہ لو اپنے اپنے مال، کیا کسی کا کوئی مال میرے ذمے ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ تمہیں بدلہ دے تم نے بہتر وعدہ نبھایا، ابوالعاص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں…
اسکے بعد مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ پہنچے تو پھر فجر کا وقت تھا، سیدھا نبیﷺ کے پاس گئے اور کہا: کل آپﷺ نے مجھے پناہ دی تھی اور آج میں یہ کہنے آیا ہوں کہ “میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ اللہ کے رسول ہیں”.
¤ اولین حصہ جس میں اہلِ مکہ کی امانتیں واپس کی گئیں اور اسلام کا اعلان کیا، یہ حصہ درست ہے، البتہ مدینہ منورہ میں قبول اسلام کا واقعہ ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں.
١٤. چودھواں حصہ:
ابوالعاص نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا پ مجھے زینب کے ساتھ رجوع کی اجازت دیتے ہیں؟ نبیﷺ نے ابوالعاص کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: آؤ میرے ساتھ، زینب کے دروازے پر لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور زینب سے فرمایا: یہ تمہارا خالہ زاد واپس آیا ہے تم سے رجوع کی اجازت مانگ رہا ہے، کیا تمہیں قبول ہے؟ زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائیں…
¤ یہ حصہ بھی درست نہیں۔
البتہ آپ علیہ السلام نے حضرت زینب کو چھ سال بعد ابوالعاص کے نکاح میں دیا. ایک قول کے مطابق نکاح اول کو برقرار رکھتے ہوئے اور ایک قول یہ ہے کہ نیا نکاح اور مہر کے ساتھ.
□ فَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ عَلَى النِّكَاحِ الأَوَّلِ، لَمْ يُحْدِثْ شَيْئاً.
قال الحافظ الذهبي: قَالَ المِسْوَرُ بنُ مَخْرَمَةَ: أَثْنَى النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي العَاصِ فِي مُصَاهَرَتِهِ خَيْراً. وَقَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي. وَكَانَ قَدْ وَعَدَ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى مَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَيَبْعَثَ إِلَيْهِ بِزَيْنَبَ ابْنَتِهِ، فَوَفَى بِوَعْدِهِ، وَفَارَقَهَا مَعَ شِدَّةِ حُبِّهِ لَهَا، وَكَانَ مِنْ تُجَّارِ قُرَيْشٍ وَأُمَنَائِهِم، وَمَا عَلِمْتُ لَهُ رِوَايَةً. وَلَمَّا هَاجَرَ، رَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَوْجَتَهُ زَيْنَبَ بَعْدَ سِتَّةِ أَعْوَامٍ عَلَى النِّكَاحِ الأَوَّلِ.
وَجَاءَ فِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ رَدَّهَا إِلَيْهِ بِعَقْدٍ جَدِيْدٍ.
١٥. پندرھواں حصہ:
عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعے کے صرف ایک سال بعد زینب کا انتقال ہوا جس پر ابوالعاص زاروقطار رونے لگے حتی کہ لوگوں کے سامنے رسول اللہﷺ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دیتے تھے، جواب میں ابوالعاص کہتے: اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ کی قسم میں زینب کے بغیر دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا اور ایک سال کے بعد ہی ابوالعاص بھی انتقال کر گئے…
¤ حضرت زینب کا انتقال آپ علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ہوا، لیکن ابوالعاص کی یہ گفتگو ثابت نہیں.
خلاصہ کلام
یہ واقعہ صحیح روایات کے ساتھ بہت ساری من گھڑت باتیں جوڑ کر بنایا گیا ہے، اس کی سرسری تحقیق پیش کردی گئی ہے، اس واقعے کو بیان کرنا یا آپ علیہ السلام کی طرف اسکو منسوب کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٦ جنوری ٢٠٢٠ کراچی