چیل آگ لگانے والا جانور
سوال
آج کل آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگی ہے جس کی وجہ چیل کو قرار دیا جارہا ہے کہ وہ آگ کی چنگاری لے جاتی ہے جس کی وجہ سے جنگلوں میں آگ لگتی ہے اور اسی وجہ سے آپ علیہ السلام نے چیل کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے…
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ پانچ جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت والی روایت بلکل درست ہے اور تقریبا تمام صحیح کتب میں منقول ہے.
□ خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِى الْحَرَمِ: الْفَأْرَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْحُدَيَّا، وَالْغُرَابُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ..
پانچ (جانور) فاسق ہیں، انہیں حرم میں بھی قتل کیا جانا درست ہے، چوہا، بچھو، چیل، کوا، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا. (صحیح البخاری، حدیث:3314، کتاب بدء الخلق، باب:16)
■ ان پانچ جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت کا سبب:
١. امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ جانور ایذا پہنچانے والے ہیں اور ہر ایذا پہنچانے والے جانور کا قتل محرم کیلئے جائز ہے ورنہ نہیں، اور کوے اور چیل کا قتل اسلئے جائز ہے کہ ان سے تکلیف ہوتی ہے، اگر تکلیف نہ ہو تو قتل جائز نہیں.
□ وقال مالك: المعنى فيهن كونهن مؤذيات، فكل مؤذ يجوز للمحرم قتله، وما لا فلا.
فلو لم يقع أذى من الغراب أو الحدأة على المحرم فله ألا يقتلهما إنما أبيح قتلهما لما يتسببا فيه من الأذى.
٢. حنابلہ کہتے ہیں کہ ہر وہ جانور جس کی فطرت میں ان پانچ جانوروں کی طرح ایذا رسانی ہو ان کا قتل جائز ہے اور جن جانوروں کی فطرت میں ایذا رسانی نہیں ان کا قتل جائز نہیں.
□ وذهب الحنابلة إلى استحباب قتل كل ما كان طبعه الأذى من الحشرات، وإن لم يوجد منه أذى قياسا على الفواسق الخمس، فيستحب عندهم قتل الحشرات المؤذية كالحية، والعقرب، والزنبور، والبق، والبعوض، والبراغيث، وأما ما لا يؤذي بطبعه كالديدان، فقيل: يجوز قتله، وقيل: يكره، وقيل: يحرم.
٣. شوافع کہتے ہیں کہ جو جانور ان پانچ جانوروں کی طرح ایذا رسانی کی فطرت والا ہو اس کا قتل مستحب ہے.
□ وقسم الشافعية الحشرات إلى ثلاثة أقسام:
الأول: ما هو مؤذ منها طبعا، فيندب قتله كالفواسق الخمس، لحديث عائشة.
٤. احناف اور مالکیہ کے نزدیک بھی حشرات کا قتل جائز ہے، چاہے قتل کسی وجہ سے بھی ہو، لیکن کھیل کود کیلئے نہ ہو.
□ وذهب الحنفية والمالكية إلى جواز قتل الحشرات، لكن المالكية شرطوا لجواز قتل الحشرات المؤذية أن يقصد القاتل بالقتل دفع الإيذاء لا العبث.
● کتے کے قتل کی اجازت کا سبب:
درندگی، حملہ آور ہونا:
کتے سے مراد کونسا کتا ہے؟
١. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیر مراد ہے.
□ فروى سعيد بن منصور عن أبي هريرة بإسناد حسن، أنه الأسد. قاله ابن حجر.
٢. زید بن اسلم کہتے ہیں کہ سانپ مراد ہے.
□ وعن زيد بن أسلم أنه قال: وأي كلب أعقر من الحية.
٣. امام زفر کہتے ہیں کہ بھیڑیا مراد ہے.
□ وقال زفر: المراد به هنا الذئب خاصة.
٤. امام مالک کہتے ہیں کہ جو کتا بھی لوگوں پر حملہ کرے.
□ وقال مالك في الموطأ: كل ما عقر الناس، وعدا عليهم، وأخافهم، مثل الأسد، والنمر، والفهد، والذئب فهو عقور، وكذا نقل أبوعبيد عن سفيان، وهو قول الجمهور.
٥. امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کا قول ہے کہ عام کتا ہی مراد ہے.
□ وقال أبوحنيفة: المراد بالكلب هنا هو الكلب المتعارف خاصة، ولا يلحق به في هذا الحكم سوى الذئب.
● کوے کو قتل کرنے کی اجازت کا سبب:
ایذا رسانی میں پہل کرنا:
١. قاضی عیاض کہتے ہیں کہ کالا سفید رنگ والا کوا مراد ہے.
□ قال القاضي عياض: وقوله: “الغراب الأبقع”: كل ما فيه بياض وسواد فهو أبقع، وأصله لون يخالف بعضه بعضا.
٢. علامہ عینی لکھتے ہیں کہ کوے کا قتل اس لئے جائز ہے کہ یہ ایذا رسانی میں پہل کرتا ہے.
□ قال العيني: الروايات الْمُطْلَقة محمولة على هذه الرواية الْمُقَيَّدة التي رواها مسلم، وذلك لأن الغراب إنما أُبيح قتله لكونه يبتدئ بالأذى، ولا يبتدئ بالأذى إلا الغراب الأبقع، وأما الغراب غير الأبقع فلا يبتدئ بالأذى فلا يباح قتله، كالعقعقق وغراب الزرع، ويقال له الزاغ، وأفتوا بجواز أكله، فَبَقِي ما عداه من الغربان مُلْتَحِقًا بالأبقع.
فالحكمة من إباحة قتل الغراب الأبقع أنه يبدأ بالأذى.
٣ مناوی کہتے ہیں کہ کوا مسافروں کے سامان اور بوریوں کو نقصان پہنچاتا ہے.
□ قال المناوي: ويزيد الغراب: بحل سفرة المسافر، ونقب جربه.
● چیل کو قتل کرنے کی اجازت کا سبب:
اچانک جھپٹ کر چیزیں اڑا کر لے جانا:
١. چیل ایک اڑنے والا پرندہ جو چوہوں کا شکار کرتا ہے.
□ وفي (لسان العرب): الحِدأة: طائر يطير يصيد الجرذان.
٢. نسائی کے حاشیہ میں ہے کہ پرندوں کی ایک بیکار قسم جو لوگوں کے ہاتھوں سے کھانے اچکتی ہے.
□ وفي حاشية السندي على النسائي: أخس الطيور تخطف أطعمة الناس من أيديهم.
٣. چیل آسمان سے اچانک کسی چیز پر گوشت سمجھ کر جھپٹا مارتی ہے.
فالحدأة قد تنقض من السماء لتخطف أشياء وھى تحسبها لحما.
جیسا کہ حدیث میں واقعہ آیا ہے: مجھ سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک کالی عورت جو کسی عرب کی باندی تھی اسلام لائی اور مسجد میں اس کے رہنے کے لئے ایک کوٹھری تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا وہ ہمارے یہاں آیا کرتی اور باتیں کیا کرتی تھی، لیکن جب باتوں سے فارغ ہو جاتی تو وہ یہ شعر پڑھتی ”اور ہار والا دن بھی ہمارے رب کے عجائب قدرت میں سے ہے، کہ اسی نے (بفضله) کفر کے شہر سے مجھے چھڑایا۔“ اس نے جب کئی مرتبہ یہ شعر پڑھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے دریافت کیا کہ ہار والے دن کا قصہ کیا ہے؟ اس نے بیان کیا کہ میرے مالکوں کے گھرانے کی ایک لڑکی (جو نئی دلہن تھی) لال چمڑے کا ایک ہار باندھے ہوئے تھی۔ وہ باہر نکلی تو اتفاق سے وہ گر گیا۔ ایک چیل کی اس پر نظر پڑی اور وہ اسے گوشت سمجھ کر اٹھا لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر اس کی چوری کی تہمت لگائی اور مجھے سزائیں دینی شروع کیں۔ یہاں تک کہ میری شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ خیر وہ ابھی میرے چاروں طرف جمع ہی تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی کہ چیل آئی اور ہمارے سروں کے بالکل اوپر اڑنے لگی۔ پھر اس نے وہی ہار نیچے گرا دیا۔ لوگوں نے اسے اٹھا لیا تو میں نے ان سے کہا: اسی کے لئے تم لوگ مجھے اتہام لگا رہے تھے حالانکہ میں بےگناہ تھی.
□ حدثني فروة بن ابي المغراء، أخبرنا علي بن مسهر، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: اسلمت امراة سوداء لبعض العرب وكان لها حفش في المسجد، قالت: فكانت تأتينا فتحدث عندنا فإذا فرغت من حديثها، قالت: ويوم الوشاح من تعاجيب ربنا الا إنه من بلدة الكفر انجاني فلما اكثرت، قالت لها عائشة: وما يوم الوشاح، قالت: خرجت جويرية لبعض اهلي وعليها وشاح من ادم فسقط منها، فانحطت عليه الحديا وهي تحسبه لحما، فاخذت فاتهموني به فعذبوني، حتى بلغ من امري انهم طلبوا في قبلي، فبيناهم حولي وانا في كربي إذ اقبلت الحديا حتى وازت برءوسنا ثم القته فاخذوه، فقلت: لهم هذا الذي اتهمتموني به وانا منه بريئة”.
● چوہے کو قتل کرنے کی اجازت کا سبب:
شرارتی فطرت ہونا:
‘فویسقۃ’ السنن الکبریٰ، (رقم: ۳۸۱۷) چھوٹی چوہیا، اصل میں اس چوہیا کو کہتے ہیں کہ جو وقت سے پہلے بل سے نکل آئے۔ یہ اس کے شریر اور ہوشیار ہونے سے کنایہ ہے۔ بعض روایتوں میں اس کا یہ نام آنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دیکھا کہ ایک چوہیا دیئے کی بتی لے بھاگی تھی جس سے گھر میں آگ لگ سکتی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۴۸۳۳ وغیرہ)۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۱۴۸۳۳ میں اس کے لئے ‘الفارۃ الفویسقۃ’ (شریر چوہیا) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
☆ یہ جانور نہیں بلکہ فطرت کو مارنے کا حکم ہے.
١. امام نووی فرماتے ہیں کہ ان پانچ جانوروں کو فواسق اس لئے کہا گیا کہ عموما دیگر جانوروں کی بنسبت ان میں ایذا رسانی زیادہ ہوتی ہے.
□ قال النووي في شرح مسلم: سميت هذه فواسق لخروجها بالإيذاء والإفساد عن طريق معظم الدواب.
٢. مبارکپوری کہتے ہیں کہ ان جانوروں کا فسق ان کی خباثت اور کثرتِ ضرر ہے.
□ وقال المباركفوري في تحفة الأحوذي: وفسقهن خبثهن وكثرة الضرر منهن.
٣. ابن عربی کہتے ہیں کہ ان جانوروں کے قتل (کے حکم) کی علت فسق ہے، پس جس جانور میں بھی یہ علت پائی جائےگی اس کو قتل کرنے کی اجازت ہوگی.
□ قال ابن العربي: أمر بالقتل وعلل بالفسق، فيتعدى الحكم إلى كل ما وجدت فيه العلة.
آگے لکھتے ہیں کہ یہ پانچ جانور دراصل پانچ فطرتوں کا نام ہے:
١، ٢. کوا اور چیل حملہ آور پرندوں کی جنس ہے (گویا ہر حملہ آور پرندے کا قتل جائز ہے).
ونبه بالخمسة على خمسة أنواع من الفسق: فنبه بالغراب على ما يجانسه من سباع الطير، وكذا بالحدأة، ويزيد الغراب بحل سفرة المسافر ونقب جرابه.
٣. سانپ اور بچھو ڈسنے اور ڈنک مارنے والے جانوروں کی جنس ہے.
وبالحية على كل ما يلسع والعقرب كذلك، والحية تلسع وتفترس، والعقرب يلدغ ولا تفترس.
٤. چوہا ہر گھریلوں موذی جانور کی جنس.
وبالفأرة على ما يجانسها من هوام المنزل المؤذية.
٥. کتے سے ہر حملہ آور درندے کی جنس مراد ہے.
وبالكلب العقور على كل مفترس. قال: ومعنى فسقهن: أى خروجهن عن حد الكف إلى الأذية.
ایذا رسانی کی علت ان پانچ جانوروں کے ساتھ خاص نہیں.
جیسا کہ پہلے میں معلوم ہوچکا کہ دراصل مقصود ہر اس جانور کے شر کو دفع کرنا ہے جو انسان کو ایذا پہنچا سکتا ہو، اسی لئے مختلف روایات میں مختلف جانوروں کے نام بھی آئے ہیں:
الاسد’، ‘الذئب’، ‘الزنبور’: شیر، بھیڑیا اور بھڑ کا نام، مثلاً مسند ابن یعلیٰ، (رقم:۵۵۴۴) میں آیا ہے.
مصنف ابن ابی شیبہ، (رقم: ۱۴۸۳۳) میں اس کے لئے ‘الفارۃ الفُوَیسِقَة’ (شریر چوہیا) کے الفاظ بھی آئے ہیں.
‘السبع العادی’: خونی درندہ، یہ الفاظ مثلاً مسند احمد، (رقم:۱۱۰۰۳) میں آئے ہیں.
‘النمر’: چیتا، یہ نام صحیح ابن خزیمہ، رقم:۲۶۶۶ میں آیا ہے.
مسند أحمد، (رقم:۱۱۷۷۲) میں ‘الحیة’ کے بجائے ‘الأفعی’ (بدطینت زہریلے سانپ) کا لفظ آیا ہے.
خلاصہ کلام
ان جانوروں کی فطرت میں چونکہ ایذا رسانی ہوتی ہے لہذا ان کو قتل کرنے کی حل و حرم دونوں جگہ اجازت دی گئی اور یہ ایذا کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے.
لیکن چیل آگ پھیلاتی ہے اسلئے اس کو قتل کیا جائے ایسی کوئی روایت نہیں، البتہ چوہیا کے آگ پھیلانے کا سبب بننا روایات میں موجود ہے.
آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ کا سبب اگر کوئی چیل بنی ہو تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس واقعے کو احادیث سے جوڑنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٠ جنوری ٢٠٢٠ کراچی