دقیانوس کون تھا
سوال
عام فہم زبان میں دقیانوس پرانی اور قدیم سوچ کے انسان کو کہا جاتا ہے۔ دقیانوس دراصل ایک رومن شہنشاہ تھا جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقریبا دو سو برس بعد حکمران ہوا۔ اس وقت اکثریت عیسائی مذہب اختیار کر چکی تھی اور لوگ رومن دیوی دیوتاؤں اور بت پرستی سے بیزار ہو چکے تھے۔ دقیانوس نے بزور طاقت زبردستی رومن مذہب اور بت پرستی کو رائج کرنا چاہا… اسی کے زمانے میں اصحابِ کہف کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اصحاب کہف دقیانوس کے خوف سے ہی غار میں چھپ گئے تھے۔ دقیانوس نے کیونکہ ایک متروک اور جہالت بھرے مذہب کو دوبارہ لاگو کرنا چاہا تھا، اس لئے اس کا نام ایک محاورہ یا پہچان بن گیا ایسے لوگوں کے لئے کہ جو پرانی اور جہالت کی رسموں اور سوچ کے حامی ہوتے ہیں…
دقیانوس اور أصحابِ کہف:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بےحد خراب اور نہایت ابتر ہوگیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ دقیانوس تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا یہ اُس کو قتل کرڈالتا تھا…
اصحابِ کہف کون تھے:
اصحابِ کہف شہر اُفسوس کے شرفاء تھے، جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحبِ ایمان تھے، اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ دقیانوس کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اُس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے… دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اُس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بےحد ناراض ہوا اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اُٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اُسی میں رہ کر مر جائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔ مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا وہ بہت ہی نیک دل اور صاحبِ ایمان آدمی تھا۔ اُس نے اصحابِ کہف کے نام، اُن کی تعداد اور اُن کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا۔ اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام بیدروس تھا، تخت نشین ہوا جس نے اڑسٹھ(٦٨) سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اُس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہوگئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اُٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے… قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بےقراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ: “یااللہ عزوجل! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہوجائے…”
بادشاہ کی یہ دعا مقبول ہو گئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا. دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہو گئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی… اب جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخا سے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ دقیانوس ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ یملیخا غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ یملیخا یہ منظر دیکھ کر محوِحیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کہ اس شہر میں تو ایمان و اسلام کا نام لینا بھی جرم تھا، آج یہ انقلاب کہاں سے اور کیونکر آگیا؟
بہرحال! پھر وہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا جس کا چلن بند ہو چکا تھا بلکہ کوئی اس سکہ کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے، چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کر دیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟ یملیخا نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے، یہ ہمارا ہی روپیہ ہے. حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گذر گئے کہ اس سکہ کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہو جائے. یہ سن کر یملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گذرے کہ اس نام کا ایک بےایمان بادشاہ گذرا ہے جو بت پرست تھا… یملیخا نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں، تم لوگ میرے ساتھ چلو، میں تم لوگوں کو اُن سے ملادوں. چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اُس غار کے پاس پہنچے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو اُن لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گرفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکرِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے… حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی کو نکال کر پڑھا تو اُس تختی پر اصحابِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ:
“یہ مؤمنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کردیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو لوگ اصحابِ کہف کے حال پر مطلع ہو جائیں…”
حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اپنے بادشاہ بیدروس کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بیدروس بادشاہ اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحابِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ بیدروس بادشاہ سجدہ میں گر کر خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے لگا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانی ظاہر کردی جس سے موت کے بعد زندہ ہو کر اُٹھنے کا ہر شخص کو یقین ہوگیا…
دوسری جانب اصحابِ کہف بادشاہ کو دعائیں دینے لگے کہ اللہ تعالیٰ تیری بادشاہی کی حفاظت فرمائے۔ اب ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں…
پھر اصحابِ کہف نے السلام علیکم کہا اور غار کے اندر چلے گئے اور سو گئے اور اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وفات دے دی۔ بادشاہ بیدروس نے لکڑی کا صندوق بنوا کر اصحابِ کہف کی مقدس لاشوں کو اس میں رکھوا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کا ایسا رعب لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا کہ کسی کی یہ مجال نہیں کہ غار کے منہ تک جا سکے۔ اس طرح اصحابِ کہف کی لاشوں کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے سامان کردیا۔ پھر بیدروس بادشاہ نے غار کے منہ پر ایک مسجد بنوا دی اور سالانہ ایک دن مقرر کردیا کہ تمام شہر والے اس دن عید کی طرح زیارت کے لئے آیا کریں۔ (خازن، ج:۳، ص: ۱۹٨/۲۰۰)
مندرجہ بالا واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ اصحابِ کہف کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے اور ایک پوری سورت اس نام سے موسوم ہے.
لیکن اس واقعے کی تفصیلات کسی بھی مستند روایات سے ثابت نہیں بلکہ یہ تمام تفاصیل اسرائیلی روایات سے ثابت ہیں جن کی نہ تصدیق کی جاسکتی ہے اور نہ تکذیب.
● سوال میں مذکور واقعہ:
یہ واقعہ تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر بغوی، تفسیر خازن اور امام غزالی کی کتاب “سراج الطالبین علی منهاج العابدین الی جنة رب العالمین” میں کچھ کمی اور کچھ اضافے کے ساتھ منقول ہے.
○ ظالم بادشاہ کا نام:
جس ظالم مشرک بادشاہ کا یہ قصہ ہے اس کا نام مختلف کتابوں میں مختلف لکھا ہے:
١. دقیانوس.
٢. دقینوس.
٣. دکیوس.
٤. دقیوس.
○ مسلمان بادشاہ کا نام:
مسلمان بادشاہ کے نام میں بھی مختلف روایات ہیں:
١. بیدروس
٢. برباریوس
خلاصہ کلام
قرآن مجید میں اللہ جل شانہ نے اصحابِ کہف کے قصے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
: {فَلَا تُمَارِ فِيهِمۡ إِلَّا مِرَآءً ظَٰهِرًا وَّلَا تَسۡتَفۡتِ فِيهِم مِّنۡهُمۡ أَحَدًا}. (الكهف: ٢٢)
کہ اس قصے میں زیادہ کرید کرنے اور پوچھ گچھ سے اجتناب کرو.
لہذا ان واقعات کو دلیل تو نہیں بناسکتے، البتہ یہ واقعہ تفاسیر اور تاریخ کی کتب میں مختلف الفاظ اور پیرائوں سے منقول ضرور ہے لیکن اسرائیلی روایات ہونے کی وجہ سے ان واقعات کو سو فیصد درست بھی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی ان کا انکار کیا جاسکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٩ جنوری ٢٠٢٠ کراچی