تنبیہ نمبر27

حضرت فاطمہ کو بتائی گئی وتر والی تسبیحات

حضور اکرم ﷺنے ایک مرتبہ جہاد کی فضیلت بیان فرمائی، یہ فضیلت سن کر حضرت فاطمہ کو بھی جہاد کا شوق ہوا اور آپ ﷺسے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ فاطمہ میں تم کو اس سے آسان اور اعلی اجر والا عمل نہ بتاؤں؟

اے فاطمہ! جب کوئی مومن مرد یا عورت وتر کے بعد دو سجدے کرتے ہیں اور ہر سجدے میں یہ دعا پڑھتے ہیں

سبوح قدوس رب الملائكة والروح

تو اس کے سر اٹھانے سے پہلے اللہ تعالی اس کے سب گناہ معاف فرمادیتے ہیں اور اس کو سو حج، سو عمرے، اور سو شہیدوں کا اجر عطا فرماتے ہیں اور اللہ تعالی اس کیلئے ایک ہزار فرشتے مقرر کرتے ہیں جو اس کیلئے نیکیاں لکھتے رہتے ہیں اور اس کوایک ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کو مستجاب الدعوات بنادیتے ہیں اور قیامت کے دن ساٹھ جہنمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اور یہ شخص جب مرے گا تو شہادت کی موت نصیب ہو گی.

رغب النبي ﷺ في الجهاد وذكر فضله، فسألته الجهاد، فقال: ألا أدلك على شیئ يسير وأجره كبير، ما من مؤمن ولا مؤمنة يسجد عقيب الوتر سجدتين ويقول في كل سجدة: سبوح قدوس رب الملائكة والروح – خمس مرات – لا يرفع رأسه حتى يغفر الله ذنوبه كلها واستجاب الله دعاءہ وان مات في ليلته مات شهيدا وأعطاه ثواب مائة حجة و مائة عمرة واعطاہ الله ثواب الشهداء وبعث الله إليه الف ملك يكتبون له الحسنات وكأنما أعتق مائة رقبة ويشفع يوم القيامة فى ستين من أهل النار وإذا مات مات شہىدا
     تحقیق روایات
نقل العلامة ابن عابدین الشامی حکمه فی “حاشیته”، باب سجود التلاوة، ج: 2

اس روایت کو علامہ شامی نے جلد ثانی باب  سجود التلاوة  میں نقل کرنے کے بعد فرمایا:

فحديث موضوع لا أصل له(ج: 2، ص: 120)

اسی طرح موضوع روایات کی تحقیق میں لکهى گئی ایک کتاب میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

واما ما ذکرہ التاتارخانیة عن المضمرات، (فنقل النص المذکور بتمامه) فحدیث موضوع باطل لا اصل له ولا یجوز العمل به ولا یجوز نقله الا لبیان بطلانه کما ہو شان الاحادیث الموضوعة، ویدل علی وضعه رکاکته والمبالغة الغير الموافقة للشرع والعقل، فان الاجر علی قدر المشقة شرعا وعقلا، وافضل الاعمال احمزھا، وانما قصد بعض الملحدین بمثل ھذا الحدیث افساد الدین واضلال الخلق واغراءھم بالفسق وتثبیطھم عن الجد فی العبادة، فيغتر به بعض من لیس له خبرة بعلوم الحدیث وطرقه ولا ملکة یمیز بھا بین صحیحه وسقیمه.
قال الربیع بن خثیم: ان للحدیث ضوءا مثل ضوء النھار تعرفه، وظلمة کظلمة اللیل تنکرہ.
قال ابن الجوزی: ان الحدیث المنکر یقشعر منه جلد طالب العلم وینفر منه قلبه فی الغالب…(ان تهى )
{ومن لم یجعل اللہ له نورا فما له من نور}..(سورة النور: ٤٠)
واللہ سبحانه ہو ولی العصمة والتوفیق.
خلاصہ کلام

ہ روایت اور یہ فضیلت کسی بھی حدیث کی  مستند کتاب میں موجود نہیں، فقہ کی بعض کتابوں میں لوگوں نے اس کے مشہورہونے کو بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے من گھڑت ہونے کو بھی بیان کیا ہےلہذا اس روایت کا بیان کرنا اور پھیلانا  جائز نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں