طاعون اور وبا کا فرق اور حکم
سوال
محترم مفتی صاحب!!
موجودہ صورت حال طاعون کی ہے یا وبا کی؟ اور طاعون والی روایات میں جن احتیاطی تدابیر کا کہا گیا ہے کیا وہ تمام تدابیر اس وقت اختیار کرنا لازمی ہیں؟ برائے مہربانی مُفَصَّل وضاحت فرما دیجئے…
(سائل: جان محمد، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
آپ علیہ السلام نے طاعون کے متعلق کچھ ایسی عجیب باتیں فرمائی ہیں جو تعجب خیز اور اہل ایمان کیلئے بہت زیادہ تسلی بخش ہیں:
١. پہلی بات:
طاعون اس امت مسلمہ کیلئے رحمت اور باعث شہادت ہے.
□ “الطاعونُ شهادةٌ لكل مُسلمٍ”. (متفق عليه).
ترجمہ: طاعون ہر مسلمان کی شہادت ہے.
٢. دوسری بات:
آپ علیہ السلام نے اپنی امت کیلئے اللہ تعالی سے طاعون کی موت مانگی.
آپ علیہ السلام نے فرمایا: یااللہ! میری امت کی فنا طاعون میں فرما، اور ایک روایت میں ہے کہ اے اللہ! میری امت کی فنا (کا سبب) تیرے راستے کے جہاد کے زخم اور طاعون کو بنا.
□ «اللهم اجعل فناء أمتي بالطاعون»، وفي رواية: «اللهم اجعل فناء أمتي قتلاً في سبيلك بالطعن والطاعون».
بعض علماء لکھتے ہیں کہ یہ دعا نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ میری امت کی اکثریت فتنوں میں قتل اور وباؤں میں ہلاک ہوگی.
□ وقيل: إنه على الخبر لا الدعاء، أي الغالب على فناء الأمة الفتن التي تسفك فيها الدماء والوباء، ومن زعم أن أكثر الأمة يموتون بغير هذين فقد أخطأ بل أكثرهم يموتون بهما. (كما صرح به ابن الأثير).
بعض علماء لکھتے ہیں کہ یہ بددعا نہیں بلکہ آپ علیہ السلام نے امت کیلئے شہادت مانگی ہے.
□ ليس القصد به الدعاء على الأمة بالهلاك، بل المراد الدعاء لهم يلازم ذلك، وهو حصول الشهادة لهم بكل من ذينك، فالقصد الدعاء بجعلهما سبباً للموت الذي لابد منه، لا الدعاء بمطلق الهلاك، ومن لازم حصول الشهادة أن ذلك يكون كفارة لما يقع من الأمة لما ورد أن القتل لا يمر بذنب إلا محاه.
بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ دعا آپ علیہ السلام کے صحابہ کیلئے تھی کہ ان میں اکثر جہاد میں شہید ہوئے اور بقیہ طاعون میں شہید ہوئے
يقتضي أن يفنوا كلهم بالقتل والموت عام فتعين صرفه إلى أصحابه لأن الله اختار لمعظمهم الشهادة بالقتل في سبيل الله بالطاعون الواقع في زمنهم فهلك به بقيتهم ، فقد جمع لهم الله الأمرين ، فالواو على أصلها من الجمع أو تحمل على التقسيمية ، قال الراغب : نبه بالطعن على الشهادة الكبرى وهي القتل في سبيل الله
وبالطاعون على الشهادة الصغرى.
٣. تیسری بات:
طاعون کی حالت میں صبر کرنے والا اور گھر میں رہنے والا بھی شہادت جیسا اجر پائےگا.
□ عَنْ عائشة رضي الله عنها قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ، فَأَخْبَرَنِي رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ الله عَلَى مَنْ يَشَاءُ، فَجَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ الله لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ”. (رواه أحمد وإسناده صحيح على شرط البخاري)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ طاعون (کوئی عام پھیلی ہوئی وبا) کی بیماری پھیلی ہو اور وہ اپنے گھر میں صبر (تحمل) و احتساب (اپنا محاسبہ کرتے ہوئے) ٹھہرا رہے اس حال میں کہ اسے علم و یقین ہو کہ اسے وہی ہوگا جو اللہ نے اس کے لئے فیصلہ فرما دیا ہے تو اس کے لئے شہید کے برابر اجر ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث شریف کو اپنی صحیح بخاری میں روایت کیا ہے.
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالیٰ نے بخاری شریف کی اپنی شرح فتح الباری (جلد:10، صفحہ:194) میں اس پر یہ وضاحت فرمائی ہے:
یہ حدیث مبارکہ ہر اس شخص کے لئے شہادت کا اجر وثواب بیان کر رہی ہے جو صبر و استقامت، محاسبہ اور اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کے ساتھ گھر بیٹھا ہو، چاہے وبائی مرض سے اس کی وفات ہو یا نہ ہو.
□ هذا يشمل كل من صبر واحتسب وتوكل، مات بالوباء أم لم يمت. قال ابن حجر: اقتضى منطوقه أن من اتصف بالصفات المذكورة يحصل له أجر الشهيد وإن لم يمت. (فتح الباري:194/10)
○ طاعون اور وبا میں فرق:
طاعون کیا ہے؟ اس بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک مخصوص بیماری ہے جو کہ علمائےکرام اور اطباء کے ہاں معروف ہے.
● طاعون( Plague) کیا ہے؟
١. علامہ اَبُوزَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
طاعون: یہ جسم میں نکلنے والی گلٹیاں ہیں، جو بغلوں، کہنیوں، ہاتھوں، انگلیوں اور سارے بدن میں سخت درد اور سوجن اور جلن کے ساتھ نکلتی ہیں اور مُتَأَثِّرَہ حصہ سیاہ، سرخ یا سبز ہو جاتا ہے، ان کی وجہ سے طبیعت میں گھبراہٹ ہوتی ہے۔ (شرح مسلم للنووی، کتاب السلام، باب الطاعون والطیرہ والکهانة، ۷/۲۰۴، الجزء الرابع عشر)
٢. قاضی عیاض کہتے ہیں کہ طاعون ان پھوڑوں کو کہتے ہیں جو جسم پر نکلتے ہیں جبکہ وبا عمومی امراض کے پھیلنے کو کہتے ہیں اور وبا کو بھی طاعون کہا گیا کیونکہ اس سے بھی طاعون کی طرح کثرت سے ہلاکتیں ہوتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ طاعون ایک وبا ہے لیکن ہر وبا طاعون نہیں.
□ قال عياض: أصل الطاعون القروح الخارجة في الجسد والوباء عموم الأمراض فسميت طاعونا لشبهها به في الهلاك وإلا فكل طاعون وباء وليس كل وباء طاعونا، ويدل على ذلك أن وباء الشام الذي وقع في عمواس إنما كان طاعونا، وما ورد في الحديث أن الطاعون وخزُ الجنّ. (فتح الباري: 222/10).
٣. کتاب “عَجائِبُ الْقُرْآن مَعْ غَرَائِب الْقُرْآن” میں ہے:
طاعون ایک مُہْلِک(جان لیوا) وبائی بیماری ہے جس کو ڈاکٹر (پلیگ) (Plague) کہتے ہیں۔ اس بیماری میں گردن اور بغلوں اور کُنجِ ران (ران کے کنارے) میں آم کی گٹھلی کے برابر گلٹیاں نکل آتی ہیں، جن میں بےپناہ درد اور ناقابلِ برداشت سوزش ہوتی ہے۔ شدید بخار چڑھ جاتا ہے، آنکھیں سرخ ہو کر دردناک جلن سے شعلہ کی طرح جلنے لگتی ہیں، مریض شدتِ درد اور شدید بےچینی و بےقراری میں تڑپ تڑپ کر بہت جلد مرجاتا ہے۔ (عجائب القرآن، ص:۲۵۷)
٤. جبکہ ایک موقف کے مطابق اس سے کوئی بھی وبائی مرض مراد ہے، جس کی وجہ سے اموات واقع ہوتی ہیں.
طاعون کی بیماری میں جسم پر پھوڑے نکلتے ہیں۔۔۔
جبکہ وبا کے بارے میں خلیل وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ بھی طاعون ہی ہے، جبکہ کچھ نے کوئی بھی وبائی مرض اس میں شامل قرار دیا ہے۔
تاہم صحیح بات وہی ہے جو محقق علمائےکرام نے کی ہے کہ وبا سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی خطے کے لوگ غیر معتاد صورت میں ایک ہی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو اسے وبا کہتے ہیں، لیکن اگر معتاد انداز میں یا مختلف بیماریوں میں ایک ہی خطے کے لوگ بیمار ہوں تو یہ وبا نہیں کہلائےگی.
٥. شیخ ابن عثیمین رحمه اللہ “شرح ریاض الصالحین” (6/569) میں کہتے ہیں:
طاعون جان لیوا بیماری ہے (اللہ تعالی محفوظ فرمائے) اس کے بارے میں کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ وبائی امراض میں سے کوئی خاص بیماری ہے جس میں انسانی جسم پر پھوڑے اور پھنسیاں نکلتی ہیں۔۔۔ جب کہ کچھ اہل علم کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاعون کسی بھی وبائی مرض کو کہتے ہیں جو کہ بہت جلدی پھیل جائے جیسے کہ ہیضہ کی بیماری ہے، طاعون کا یہ دوسرا مفہوم زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر لفظی اعتبار سے طاعون میں شامل نہ ہو لیکن معنوی اعتبار سے طاعون میں شامل ہوگا۔
□ وبا کی صورت میں کسی شہر جانے یا وہاں سے نکلنے کا حکم:
جن احادیث میں طاعون زدہ یا وبائی خطے سے باہر نکلنے کی صرف اسی شخص کو ممانعت کی گئی ہے جو اس بیماری سے ڈر کر بھاگے، لیکن تعلیم، تجارت، یا ملازمت وغیرہ پر مشتمل کسی اور مقصد سے متأثرہ علاقہ چھوڑ کر باہر نکلنا اس ممانعت میں شامل نہیں ہے۔
بیماری سے ڈر کر باہر جانے اور کسی دوسرے مقصد سے باہر نکلنے کے درمیان فرق بہت سے علمائےکرام نے بیان کیا ہے، بلکہ کچھ علمائےکرام نے اس فرق پر علمائےکرام کو متفق بھی قرار دیا ہے۔
البتہ طاعون زدہ علاقے سے کسی اور سبب کی بنا پر نکلنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ علمائےکرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر طاعون زدہ علاقے سے نکلنے کا سبب طاعون کا خوف نہ ہو بلکہ کوئی اور ضرورت ہو تو پھر وہاں سے باہر نکلنا درست ہے، اور اس کی دلیل صریح احادیث میں موجود ہے۔
اسی طرح ابن عبد البر رحمه اللہ “التمهيد” (21/183) میں کہتے ہیں:
اس حدیث میں طاعون کی جگہ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس علاقے سے باہر جانے کا سبب طاعون کا خوف نہ ہو بلکہ کوئی ضرورت یا معمول کا سفر ہو.
اسی طرح ابن مفلح رحمه اللہ “الآداب الشرعية” (3/367) میں کہتے ہیں:
اور اگر کسی علاقے میں طاعون کی بیماری پھوٹ پڑے اور تم اس علاقے سے باہر ہو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر اسی علاقے میں ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو؛ کیونکہ اس بارے میں مشہور صحیح حدیث یہی تعلیمات دیتی ہے، چنانچہ اہل علم کے ہاں اگر اس علاقے میں جانے یا وہاں سے باہر نکلنے کا سبب طاعون کا ڈر اور خوف ہو تو حرام ہے، لیکن اگر وہاں سے باہر نکلنے یا وہاں جانے کا سبب کوئی اور ہو تو حرام نہیں ہے.
حافظ ابن حجر رحمه اللہ نے اس مسئلہ کو فتح الباری (10/1990) میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے باہر آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
١. ایک شخص کا وہاں سے باہر جانے کا مقصد ہی طاعون سے بھاگنا ہے تو یہ شخص یقینی طور پر اس ممانعت میں شامل ہے.
٢. ایک شخص کا باہر جانے کا مقصد طاعون سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ تجارت وغیرہ ہے تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ہے، اسی قسم کے بارے میں نووی رحمه اللہ نے اتفاق نقل کیا ہے کہ سب کے ہاں ایسا شخص باہر جا سکتا ہے.
٣. انسان کسی کام کی غرض سے باہر نکلے اور ساتھ میں طاعون سے بچاؤ بھی شامل کر لے تو اس شخص کے بارے میں علمائےکرام کی مختلف آراء ہیں، حافظ ابن حجر رحمه اللہ نے اس صورت کے بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی طاعون زدہ علاقے سے باہر جانا جائز ہے.
حافظ ابن حجر رحمه اللہ نے امام بخاری کے اس عنوان (عرنیین) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: امام بخاری نے کہا: “باب ہے اس شخص کے بارے میں جو ایسے خطے سے باہر نکلے جس کی فضا اس کے لئے موافق نہ ہو” یہ کہہ کر امام بخاری نے اشارہ کیا ہے کہ جس حدیث میں طاعون زدہ علاقے سے باہر نکلنے کی ممانعت کا ذکر ہے، اس کا حکم ہر حالت کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ ممانعت اس شخص کے ساتھ ہے جو طاعون زدہ علاقے سے خوف زدہ ہو کر باہر جاتا ہے.
خلاصہ کلام
موجودہ صورتحال وبائی مرض والی ہے، اس میں طاعون شدید والے احکامات تو بہرحال لاگو نہیں ہونگے لیکن احتیاط یقینا لازم ہے اور ہر شخص کو دعاؤں اور استغفار کا معمول بنانا چاہیئے.
اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے کہ طاعون اور وباؤں کا علاج خالق کائنات کے سوا کسی کے پاس نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٣ مارچ ٢٠٢٠ کراچی