سعودی عرب میں باہر سے درآمدشدہ گوشت کا حکم
سوال :مشرق وسطی سے درآمد شدہ مرغی کا گوشت ہاتھ سے ذبح کیا ہوا نہیں ہوتا لیکن ہر کوئی کھاتا ہےکیونکہ عمومی فتوی اسکے حلال ہونے کا ہے اور ہر طرح کی پیکنگ پر لکھا ہوتا ہےکہ یہ گوشت حلال ہے. کیا اس طرح کا گوشت کھانا جائز ہے؟
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہے کہ کسی بهى گوشت کے حلال ہونے کیلئے فقهاء نے کچھ شرائط ذکر کی ہیں:
١ . یہ کہ اس جانور کو اسلامی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو یعنی کہ جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑہى گئی ہو اور جانور کو باقاعدہ حلق کے مقام پر سے ذبح کیا گیا ہو تو یہ گوشت بلاشبہ حلال ہے.
الأولى: أن نعلم أن ذبحه كان على الطريقة الإسلامية بأن يكون ذبحه في محل الذبح؛ وهو الحلق، وأن ينهر الدم بمحدد غير العظم والظفر، وأن يذكر اسم الله عليه، فيقول الذابح عند الذبح: بسم الله.
ففي هذا الحال المذبوح حلال بلا شك.
٢. یہ بات معلوم ہوجائے کہ جانور کو غیر اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے مثلا: گلہ گہونٹا گیا ہو یا بجلی کے جھٹکے سے مارا گیا ہو وغیرہ تو اس صورت میں یہ گوشت حرام کہلائےگا.
الثانية: أن نعلم أن ذبحه على غير الطريقة الإسلامية مثل أن يقتل بالخنق أو بالصعق أو بالصدم أو بضرب الرأس ونحوه، أو يذبح من غير أن يذكر اسم الله عليه.
ففي هذا الحال المذبوح حرام بلا شک.
٣. تیسری صورت یہ ہے کہ جانور ہے تو ذبح شدہ لیکن اسکو کس طرح ذبح کیا گیا ہے اور کیا اس کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں ،یہ ایک شک اور تردد کی شکل ہے.
الثالثة: أن نعلم أن الذبح وقع ولكن نجهل كيف وقع بأن يأتينا ممن تحل ذبيحتهم لحم أو ذبيحة مقطوعة الرأس ولا نعلم على أي صفة ذبحوها ولا هل سموا الله عليها أم لا.
ففي هذا الحال المذبوح محل شك وتردد.
یہی تیسری صورت ہمارے سوال کا مقصود ہے کہ کیا یہ گوشت حلال کہلائےگا یا حرام
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر یہ گوشت کسی اسلامی ملک سے درآمد کیا جارہا ہے تو یہ گوشت بلاشبہ حلال ہے جب تک حرمت کی کوئی واضح دلیل نہ ہو.
أولاً: أن يكون مورده مسلماً ظاهره العدالة ويقول: إنه مذبوح على الطريقة الإسلامية، فيحكم بالحل هنا لأن حال المسلم الظاهر العدالة تمنع أن يورد إلى المسلمين ما يحرم عليهم ثم يدعي أنه مذبوح على الطريقة الإسلامية.ثانياً: أن يرد من بلاد اكثر أهلها ممن تحل ذبيحتهم ، فيحكم ظاهراً بحل الذبيحة تبعاً للأكثر إلا أن يعلم أن المتولي للذبح ممن لا تحل ذبيحته فلا يحكم حينئذ بالحل لوجود معارض يمنع الحكم بالظاهر .
دوسری صورت یہ ہے کہ درآمد تو کسی غیر مسلم ملک سے کیا گیا ہو لیکن درآمد کرنے والا کوئی مسلمان شخص یا ادارہ ہو اور وہ اس بات کی گواہی دے کہ یہ گوشت حلال طریقہ سے ذبح کردہ ہے تو اس گوشت کو حلال ہی کہا جائیگا.
■ دارالعلوم کراچی کا ایک فتوی
آجکل مختلف ملکوں میں مشینی ذبیحے کے جو فارم ہیں ان سے نکلے ہوئے مرغیوں کے گوشت کو نہ مطلقا حلال کہا جاسکتاہے نہ مطلقا حرام، جن فارموں میں شرعی شرائط کا لحاظ رکھا جاتا ہو ان کی مرغیوں کا گوشت حلال ہے اور جہاں یہ شرائط نہ پائی جائیں وہاں کے گوشت کو حلال نہیں کہا جاسکتا.ان شرائط کی تفصیل “حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی” کی کتاب “احکام الذبائح” میں مذکور ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
جانور ذبح ہونے سے پہلے بےہوش کرنے کے دوران مر نہ جاتا ہو بلکہ وہ ذبح ہونے تک زندہ ہو.
ذبح کی نسبت معقول طریقے سے کسی انسان کی طرف کی جاسکتی ہو چاہے مسلمان ہو یا کوئی اہل کتاب یہودی یا نصرانی ہو، اور عیسائیت یا یہودیت پر قائم ہو، دہریہ اور لامذہب نہ ہو.
ذبح کرنے والے نے ہر جانور کے ذبح کرتے وقت خالص اللہ کا نام لیا ہو.
جانور کے گلے کی چار رگوں میں سے کم سے کم تین کٹی ہوں.
بسم اللہ اور ذبح کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو.
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو “احکام الذبائح” مصنفہ “حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی”
لہذا جن مرغیوں کے بارے میں صراحت کے ساتھ معلوم ہو کہ یہ ان شرائط کے مطابق ذبح کی گئی ہیں توان کا کھانا جائز ہے ، اور جن کے بارے میں صراحت سے معلوم ہو کہ مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو ان کا کھانا جائز نہیں.
البتہ اگر کوئی گوشت مسلمانوں کی طرف سے حلال سرٹیفکیٹ کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہو اور یہ تفصیل معلوم نہ ہو کہ جس فارم میں وہ ذبح کیا گیا ہے اس میں شرعی شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں، تو چونکہ بکثرت غیرمسلم ممالک سے ایسا گوشت درآمد ہوتا ہے اور بہت سی مثالیں ایسی سامنے آئی ہیں جن میں غیر ذمہ دارانہ طور پر حلال کے سرٹیفکیٹ جاری کر دیئے گئے ہیں، اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ ایسی مرغی کے گوشت سے پرہیز کیا جائے، لیکن ایسی صورت میں حاجت کے وقت خریدار کو اسکے کھانے میں معذور قرار دینے کی گنجائش ہے .
جسکی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
مسلمان ملک میں حلال کہہ کر گوشت بیچا یا کھلایا جارہا ہو تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہو، اور عام حالات میں یہ تحقیق ضروری نہیں ہے کہ وہ کہاں ذبح ہوا؟ اور کس نے کس طرح ذبح کیا؟ جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے :
عن أبى هريرة قال قال رسول الله ﷺ إذا دخل أحدكم على أخيه المسلم فلياكل من طعامه ولا يسأل
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی مسلمان کے پاس جاؤ تو اس کے پاس جو کھانا ہو اس کو کھالو اور اس سے سوال نہ کرو کہ یہ کہاں سے آیا یا کیسے آیا
ملاعلی قاری صاحب مرقاة شرح مشکوة (10/167) میں لکھتے ہیں:
ولایسال فانه قد یتاذی بالسؤال و ذلک إذا لم یعلم فسقه.
مسلمان کی خبر دیانات میں معتبر ہوتی ہے.
(فتاوی هندیة: 5/308)
خبرالواحد يعتبر فى الديانات كالحل و الحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما
مذکورہ بالا اصولوں کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلم ممالک میں حلال کہہ کر فروخت کیا جانے والا گوشت حلال ہے.
البتہ چونکہ مشرقی وسطی کے ممالک میں یہ شبہ رہتا ہے کہ شائد شرعی شرائط پورے نہ کئے گئے ہوں لہٰذا گوشت حلال نہیں ہونا چاہیے لیکن درحقیقت یہ شبه الشبه ہے اور اس کی بنیاد پر اصل قاعدے کو ترک نہیں کیا جاسکتا.
لہٰذا مسلمان ممالک میں مسلمان کے فروخت کردہ گوشت کو حلال سمجھا جائیگا تاہم پوری صورتحال واضح ہونے تک کوئی اپنے طور پر اجتناب کرنا چاہے تو بہتر ہے.
ملخص فتوے دارالعلوم کراچی. کتبه: محمد سالم 2 مئی 2015
اس فتوے پر دارالعلوم کے تمام اکابر کے دستخط بهى موجود ہیں.
▪ مفتی محمود اشرف صاحب نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے:
● اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اس اسلامی ملک کی حکومت نے اپنے ملک میں حرام چیز لانے پر پابندی لگائی ہے اور اس کیلئے ایک ادارہ بهى قائم کر رکھا ہے اور اس ملک کے اکثر علماء اس کو حلال سمجھ کر استعمال کرتے ہیں تو یہ شبہ اور بهى کمزور ہوجائیگا.
برازیل اور دیگر غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ گوشت کے متعلق عرب علماء کی تحقیق:
● برازیل میں موجود ایک عرب عالم کی تحقیق
{الإخوة الكرام تحية طيبة}
أنا أعيش في البرازيل ولهذا من عنده إستفسار عن شئ ما بخصوص اللحوم فأنا موجود إن شاء الله..
انہوں نے تفصیل بتائی کہ برازیل میں دو طرح کے سلاٹر ہاؤس (مذبح خانے) ہیں:
غیر مسلموں کے.
مسلمانوں کے.
● عاطف جميل الفلسطيني حفظه الله من الفتن
الدولة: البرازيل.
المشاركات: 1,076
رد: مهم (للإخوة من البرازيل ومن لديه علم بالأمر) سؤال عن اللحوم المستوردة…
بارك الله فيكم في الأمر تفصيل بين لحوم الأنعام ولحوم الدواجن وكذلك من جهة الذابح:
١. بالنسبة للمذابح البرازيلية هنا -مذابح النصارى- أغلب الظن أنهم يقومون بقتل الأبقار بالطرق التي یعرفھا اھل الاختصاص وهذا لا شک فی حرمته وهو باعتراف القوم أنفسهم بھذہ الطرق وھدفھم ہو تسريع الإنتاج و زیادہ الربح.
٢. وبالنسبة للحوم الدواجن هنا في مذابح النصارى فيها تفصيل:
فهناك من يصعقها الصعق الكهربائي المميت وهذا لا شك في حرمته.
■ مسلمانوں کے مذبح خانے
مسلمانوں کے ایسے مذبح خانے موجود ہیں کہ جن پر باقاعدہ اعتماد بهى کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی جماعتوں نے ان سے اس معاملے میں باقاعدہ چھان بین بهى کی ہے.
مسلمانوں کے ایسے مذبح خانے موجود ہیں کہ جن پر باقاعدہ اعتماد بهى کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی جماعتوں نے ان سے اس معاملے میں باقاعدہ چھان بین بهى کی ہے.
البتہ مسلمانوں کے ہاں ذبح کا طریقہ مختلف ہوتا ہے بعض لوگ پہلے ہلکا کرنٹ دے کر بیہوشی کی کیفیت تک پہنچادیتے ہیں اور بعض لوگ بغیر بےہوشی کے براہ راست ذبح کرتے ہیں.
اور ذبح میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ ضرور پڑہى جائے.
أما بالنسبة لمذابح المسلمين فهو نفس طريقة الذبح عند النصارى يعني يقومون بصعقها صعقا خفيفا ثم يذكونها الذكاة الشرعية ويسمون قبل ذلك وهناك من المذابح من لا يستعمل الصعق مطلقا ويكتفي بمطلق القطع.
وحدثني من أثق به وهو باكستاني يعمل في مذابح الدجاج قال: ان المسؤوليين يراقبون شفاه الذباحين عند الذبح لكي يتأكدوا من تسميتهم على الذبيحة.
▪ سعودی مجلس کبار العلماء کا فتوی
شیخ ابن العثيمین سے جب اس گوشت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ مسئلہ جب ہمارے سامنے آیا تو وزیر تجارت اور وزارت مالیات کے افراد کو مجلس کبار عا:لماء کے سامنے بلایا گیا اور ان سے اس معاملے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دی
● کل ما یرد الی المملكة فانه مذبوح علی الطريقة الاسلامیة
کہ جتنا بهى گوشت سعودی مملکت میں لایا جاتا ہے وہ سب کا سب اسلامی طریقے سے ذبح شدہ ہوتا ہے، اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ ان اداروں کی تصدیق کے بعد اب یہ ساری ذمہ داری ان لوگوں کی بنتی ہے اور یہاں مملکت میں موجود ہر قسم کا گوشت حلال ہے.
فنقول: الحمد لله أنا أخبركم هذه القضية عرضت على مجلس كبار العلماء، ودعي إلى المجلس المسئولون في الدولة من وزير التجارة وعضو وزير المالية وسئلوا سؤالات من أكابر العلماء في المملكة، وقالوا: كل ما يرد إلى المملكة فإنه مذبوح على الطريقة الإسلامية؛ والحمد لله نحن على ذمة هؤلاء.
إذاً.. عليه أن يأكل حتى لو قال: برازيلي أو إنجليزي أو أمريكي…
المهم ما دام هؤلاء المسئولون عندنا فهم مسئولون عن الأمة كلها.
السائل: هناك من يقول: إنه لا يجوز أكل اللحوم المستوردة.
الشيخ: على كل حال إذا قالوا: لا يجوز، قل له: ائت به وأنا آكله، وانتهى الموضوع.
وبعد البحث عن كلام الشيخ ابن العثيمين أضعه أمامك…..
■ ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا
وقد جرى البحث في مجلس هيئة كبار العلماء، ودعوا وكلاء وزارة التجارة، وقالوا: إننا لا يمكن أن نأذن لشيء يرد إلا ونحن مطمئنون إلى أنه مذبوح ذبحاً شرعياً، ولنا وكلاء هناك، لكننا لا نقول: إن جميع المصانع أو مذابح أولئك القوم كلها على الطريقة الإسلامية، لكن ما يرد إلى المملكة فإنه محتاط له، هكذا قالوا لنا، وبناء على ذلك يكون حلالاً
وكذلك الدجاج الوطني الذي يذبح هنا أيضاً لا شك في حلته.
ان کی اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مجلس کبار علماء نے وزارت تجارت کے لوگوں کو بلا کر ان سے اس گوشت کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم مطمئن نہیں ہوتے اس وقت تک ہم کسی کو اپنے ملک میں گوشت لانے کی اجازت نہیں دیتے، اور وہاں پر باقاعدہ ہمارے لوگ موجود ہوتے ہیں جو اس گوشت کے حلال ہونے کا اطمینان کرتے ہیں کہ سعودیہ میں کوئی حرام گوشت نہ آئے.
■ کیا ہمیں ہوٹلوں میں جا کر حلال حرام کے بارے میں پوچھنا چاہیئے؟
شیخ ابن العثیمین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ بعض احباب اس طرح کے سوالات کرتے ہیں تو انہوں نے شدت سے اس بات کو منع فرمایا اور اس کو خلاف سنت قرار دیا.
●السؤال: ما حكم فعل بعض الإخوان عندما يذهبون إلى المطاعم ويسألون عن الدجاج الموجودة عندهم ويلحون عليهم ويقولون: هذا من باب الورع كي لا يقعون في الشبهة؟
الجواب: أقول: إن هذا ليس من الورع، الورع اتباع السنة، ليس الورع أن الإنسان يتعنت ويتعمق ويتنطع بل هذا من الهلاك، كما قال النبي صلى الله عليه وعلی آله وسلم: (هلك المتنطعون) ثلاث مرات…..
)تمام تفاصیل اس لنک میں موجود ہیں(
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/archive/index.php/t-128765.html
ذاتی تحقیق:
2015 میں حج کے موقعہ پر حرم مکی اور حرم مدنی کے مفتیان کرام سے اس سلسلے میں تفصیلی مکالمہ ہوا اور ان حضرات نے اس گوشت کے بارے میں اپنے اطمینان کا اظہار کیا. اسی طرح مکہ میں مقیم پاکستانی انجینئر عبدالمنان صاحب نے بهى اس سلسلے میں اپنی تگ ودو کو ذکر کرکے وہاں کی مقرر کردہ اتھارٹی پر اعتماد کااظہار کرتے ہوئے گوشت کو حلال ہی قرار دینے کی تائید کی.
جدہ ایئرپورٹ پرحضرت مفتی تقی عثمانی صاحب سے ملاقات:
حضرت سے ملاقات میں یہ عرض کیا کہ حضرت اس گوشت کی حرمت کا قول آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.
تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ میں نے کبهى بهى اسکو حرام نہیں کہا، البتہ احتیاط کا قول کہتا ہوں.
خلاصہ کلام
سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے اور وہاں کے ادارے اور علماء اس گوشت کے بارے میں مطمئن ہیں، لہذا وہاں پر موجود گوشت جو کہ حلال کہہ کر فروخت ہوتا ہو اس کا کھانا حلال اور جائز ہے، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس گوشت سے اجتناب کرنا چاہے تو بہتر ہے، لیکن عمومی طور پر اسکو حرام یا مشتبہ گوشت نہ کہا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ