تنبیہ نمبر 300

  صحابہ کو گالی دینا

سوال
آج کل مندرجہ ذیل دو روایات کا بہت چرچا ہے:
 ١.  جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت تمہارے شر پر
 ٢.  میرے صحابہ کو گالی مت دو، کیونکہ آخری زمانے میں ایک قوم آئےگی، جو میرے صحابہ کو گالیاں دےگی، تم ان کی عیادت مت کرنا، ان کی نماز جنازہ میں شرکت مت کرنا، ان سے نکاح مت کرنا، ان کو وراثت میں حصہ مت دینا، انہیں سلام مت کرنا اور نہ ہی ان کیلئے رحمت کی دعا کرنا
 آپ سے ان دونوں روایات کی تحقیق مطلوب ہے…

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور روایات مختلف کتب میں مختلف سندوں سے منقول ہیں.

 ١. پہلی روایت:

امام ترمذی نے اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے

وروى الترمذي في سننه (3866) من طريق النضر بن حماد، سيف بن عمر، عن عبيدالله بن عمر عن نافع عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إذا رأيتم الذين يَسُبُّون أصحابي فقولوا: لعنة الله على شَرِّكُم
 ■ اس روایت کی اسنادی حیثیت

 امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے

¤ هذا حديث منكر، لا نعرفه من حديث عبيدالله بن عمر إلا من هذا الوجه

 اس روایت کی سند میں دو راوی ہیں: النضر بن حماد اور سیف بن عمر

 ○ النضر بن حماد

 ١. أبوحاتم کہتے ہیں کہ یہ منکر حدیث ہے

الإمام أبوحاتم الرازي، وقال: منكر الحديث. (تهذیب الکمال للمزی)
       ○ سيف بن عمر

 ١. یحیى بن معین کہتے ہیں کہ ایک پیسہ بھی اس سے بہتر ہے

◇ ضعّفه الإمام ابن معين، وقال: فليس خير منه.

 ٢. ابوحاتم الرازی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے واقدی کی طرح

وقال الإمام أبوحاتم الرازي: متروك الحديث يشبه حديث الواقدي.

 ٣. ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ راوی کچھ بھی نہیں

◇ وقال الإمام أبوداود: ليس بشيء

 ٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا تھا

◇ وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات، وقالوا: إنه كان يضع الحديث. (تهذيب الكمال: ٢٦٧٦).

 ٥. ابونعیم اصبہانی کہتے ہیں کہ اس پر زندیق ہونے کی تہمت تھی، اس کی روایات کسی قابل نہیں

◇ قال أبو نعيم الأصبهاني فی “الضعفاء”: سيف بن عمر الضَّبِّيّ الْكُوفِي مُتَّهم فِي دينه، مرمي بالزندقة، سَاقِط الحَدِيث لَا شَيء.
 ٢. دوسری روایت

 تاریخ بغداد للخطیب میں یہ روایت بشر الحنفی کی سند سے منقول ہے

عن بِشْرٍ الْحَنَفِيِّ، عن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: قال رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: “لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَإِنَّهُ يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي، فَإِنْ مَرِضُوا لا تَعُودُوهُمْ، وإِنْ مَاتُوا فَلا تَشْهَدُوهُمْ، ولا تُنَاكِحُوهُمْ، ولا تُوَارثُوهُمْ، ولا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ، ولا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

 اس سند میں بشر الحنفی راوی ہے.

 ١. ابن حبان المجروحین (187/1) میں لکھتے ہیں کہ یہ انس بن مالک سے روایت نقل کرتے ہیں لیکن یہ راوی منکر الحدیث ہے اور یہ روایت باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں

◇ بشر بن عبداللہ أو عبیداللہ القصیر البصری يروي عن أنس بن مالك منكر الحديث، هذا خبر باطل لا أصل له.

 ٢. امام ذہبی نے “میزان” (319/1) میں اس روایت کو منکر جدا قرار دیا ہے. (حاشیہ تاریخ بغداد)

 ٣. امام عقیلی نے “الضعفاء” (136/1) میں یہ روایت ابی جعفر عن انس کی سند سے نقل کی ہے، اس کی سند میں أحمد بن عمران الاخنسی ہے.

 ٤. ابن جوزی “الضعفاء والمتروکین” میں لکھتے ہیں کہ عقیلی نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا ہے.


◇ قال ابن الجوزي فى الضعفاء والمتروكون: أَحْمد بن عمرَان الأخنسي.. قَالَ الْعقيلِي: مُنكر الحَدِيث يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ.

 ٥. امام بخاری نے بھی اسکو منکر الحدیث قرار دیا ہے.

 
◇ أَحْمد بن عمرَان الأخنسي: قَالَ البُخَارِي: مُنكر الحَدِيث يَتَكَلَّمُونَ فِيهِ.


 ٦. امام ابوزرعہ اور ابوحاتم نے بھی متروک قرار دیا ہے.


◇ وقال أبوزرعة: كوفي تركوه وتركه أبوحاتم.

 ٧. ازدی نے بھی منکر الحدیث قرار دیا ہے.


◇ وقال الأزدي: منكر الحديث غير مرضي.
 

 ٨. البتہ ابن حبان نے ابویعلی کی نسبت سے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے.


 ¤ اس روایت کو ابن عراق نے تنزیه الشریعة (24/2) میں نقل کرکے ابن حبان کا قول نقل کیا ہے کہ: ھذا خبر باطل لا اصل له.

خلاصہ کلام

آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ کو گالی دینا، برا بھلا کہنا حرام اور ناجائز ہے، اور صحیح احادیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے، لیکن برا بھلا کہنے والوں پر لعنت کی روایات صحیح سند سے ثابت نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٤ ستمبر ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں