Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر 344

Posted on 25/10/2021 by Sikander Parvez

درودِ خِضری کی حقیقت

سوال
محترم مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب! یہ درود خضری کی فضیلت اور اس کی اسنادی حیثیت واضح فرمادیں.
درود خضری حضرت خضر علیہ السلام کی طرف سے امت محمدیہ کو ایک تحفہ ملا ہے اور اولیائے کرام کا ورد ہے۔ جو شخص اس درود پر کثرت سے عمل کرےگا اسے کعبة اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔
سمرقند بخارہ کے ایک صاحب جن کی کنیت ابوالمظفر ہے کہیں سفر میں جارہے تھے کہ راستہ بھٹک گئے۔ بڑے شش و پنج میں پڑ گئے۔ اتنے میں سامنے سے ایک صاحب نے آواز دے کر بلوایا۔ یہ صاحب جانے والے دل میں سوچ رہے تھے کہ یہ غالباً حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے، جب قریب پہنچے تو سلام کیا اور نام پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے؟ بلانے والے صاحب نے اپنا نام حضرت خضر علیہ السلام بتایا اور ان کے ساتھ میں ایک ساتھی بھی تھے جن کا نام الیاس علیہ السلام بتایا اور تینوں ایک سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔ اس مسافر شخص نے حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ نے حضور انور ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ فرمایا  ہاں۔ پھر دوسری بات پوچھی کہ حضور انور ﷺ کے ارشادات یاد ہیں؟ فرمایا  ہاں۔ پھر کہا کہ آپ علیہ السلام کے پاس کوئی خاص بات حضور اقدس ﷺ کی یاد ہو تو بتلائیں کہ میں صحیح روایت بیان کر سکوں کہ میں نے حضرت خضر علیہ السلام سے سنا اور حضرت خضر علیہ السلام نے حضور ﷺ سے سنا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو انسان یہ چاہے کہ اسکے دل کا کھوٹ، دل کا کینہ، دل کا میل، غصہ، حسد، بغض اور اخلاق رذیلہ دور ہوجائیں تو وہ اس درود شریف کو پڑھے۔ اللہ تعالیٰ اس درود کی برکت سے سارے اخلاق رذیلہ دور فرمادیں گے۔ وہ درود پاک یہ ہے جس کو درود خضری بھی کہا جاتا ہے
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ۔
درود خضری حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمودہ درود شریف ہے اور جو منبع فیوض و برکات ہے اور یہ تمام درودوں میں اسم اعظم کا درجہ رکھتا ہے۔ بارگاہ رسالت ﷺ کا منتخب شدہ اور پسندیدہ ہے۔ قرب مصطفویﷺ اس درود شریف کے قاری کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اولیائے نقشبند کا مجاہدہ اور وظیفہ یہی درود شریف ہے جس سے پہلے ہی روز قرب محمدی ﷺ سے نواز دیا جاتا ہے۔ یہ درود شریف پڑھنے والے کی تربیت روح اقدس ﷺ سے ہوتی ہے یا وہ زیرِ تربیت حضرت خضر علیہ السلام دے دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ درود خضری کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ 
حضرت میاں شیر محمد نقشبندی مجددی شرقپوری کا اس درود شریف سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ روزانہ پانچ ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ درودشریف پڑھنے والوں کو محبت اور خوشی سے فرشتہ کہتے۔ فرشتے بھی درودشریف کے جھڑے ہوئے نوری پھول ہیں۔ درود خضری یہ ہے
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِه وَصَحْبِهِ وَسَلَّمْ۔
حضرت خضر علیہ السلام نے صاحب درود وسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے درود خضری کی اجازت چاہی اور پائی۔
  درود خضری کو اگر روزانہ بعد نماز فجر ایک بار پڑھ کر پانی پر دم کر کے تمام بچوں کو نہار منہ پلا دیا جائے تو بچے فرمانبردار اور نیک ہوجائیں گے اور والدین کا حکم مانیں گے۔ (ان شاء اللہ)
  حضرت شیخ احمد عبدالجواد رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’صلوٰۃ المحبین علیٰ حبیب رب العالمین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے درود شریف خضری سنا ہے۔
      امراض سے شفاء کیلئے
حضرت حافظ محمد صدیق قادری بانی خانقاہ بھرچونڈی شریف جسمانی تکلیف، مرض کا علاج، مکروہات دنیوی اور ترقی درجات کیلئے درودشریف قدسی (درود خضری) کا کثرت سے ورد فرماتے تھے۔ دس ہزار سنگریزوں کی دو بالٹیاں مسجد کے گوشے میں موجود رہتیں۔ مصیبت زدہ لوگ آتے اور خانقاہ کے فقراء سے درود قدسی (درود خضری) پڑھوا کر دم کراتے، تاہنوز یہی طریقہ جاری ہے اور لوگ شفاء پارہے ہیں۔
    تہجد کے بعد پڑھنے والا درود شریف
حضرت اسماعیل شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تہجد کی بارہ رکعت پڑھنی چاہیئے۔ پہلی رکعت میں پانچ بار اور دوسری رکعت میں تین بار سورۂ اخلاص پڑھے اور نماز تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ درود خضری پڑھے یہ درود شریف دو زانو ہو کر پڑھنا رب کریم کو بہت پسند ہے اور تہجد ہی دعائے سحر گاہی ہے۔
    رحمت کے ستر دروازے
حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی کریم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدْ کہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنی رحمت کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔
    دیدار سے مشرف ہونے کیلئے
حضرت علامہ امام یوسف بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مرد ملک شام سے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا باپ بوڑھا ہے اور آپ ﷺ کے پیارے دیدار کا پیاسا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے والد سے کہنا کہ سات ہفتے تک یہ درودشریف پڑھے تو وہ مجھے نیند میں دیکھےگا۔ اس کے والد نے ایسا ہی کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا۔
 کیا یہ درودشریف اور اسکے تمام مذکورہ فضائل درست ہیں؟
(سائل  مولانا عمر جعفر، ڈیرہ اسماعیل خان)

الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ درودشریف کے الفاظ جب درست ہونگے، تو اس کا پڑھنا، پڑھانا اور لوگوں کو بتانا درست بھی اور اس پر ان شاءاللہ اجر بھی ملےگا، لیکن جب کسی درود کے صیغے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی جائےگی، تو پھر اس کی سند کا ثابت ہونا اور درست ہونا ضروری ہوگا.

سوال میں مذکور درود خضری میں دو روایات نقل کی گئی ہیں، اور یہ دونوں روایات سند کے لحاظ سے درست نہیں. 

پہلی روایت حضرت خضر علیہ السلام سے نقل کی گئی کہ انہوں نے باقاعدہ آپ علیہ السلام کی مجلس میں یہ بات سنی ہے، جبکہ ایسی کوئی روایت کسی بھی مستند کتاب میں منقول نہیں.

دوسری روایت کہ ایک شخص شام سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، یہ روایت بھی سند کے لحاظ سے درست نہیں.

   كيا حضرت خضر اور حضرت الیاس زندہ ہیں؟

اس متعلق مختلف آراء ہیں، لیکن ہماری نظر میں راجح رائے یہی ہے کہ ان حضرات کا انتقال ہوچکا ہے.

   بنوری ٹاؤن کے فتوے میں مفتی ولی حسن ٹونکوی رحمہ اللہ کا جواب منقول ہے  

محدثین و مفسرین کی ایک بڑی جماعت کی تحقیق یہی ہے کہ وہ وفات پاگئے ہیں، ان میں سے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک بھی صحیح حدیث ایسی منقول نہیں ہے جس سے حضرت خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتا ہو، بلکہ اس کے برعکس آیاتِ قرآنیہ اور صحیح روایات ان کی موت کی تائید کرتی ہیں۔

جبکہ دوسری طرف حضرات صوفیاءِ کرام اور دوسرے حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں، حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ  اور اب تک زندہ ہونے پر تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق ہے، اور ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے رہے اور کرتے ہیں۔۔۔ اور اکثر بزرگوں سے حکایات بمنزلہ خبرِ متواتر ان کی زندگی کے منقول و مشہور ہیں۔

تفسیرِ مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ  تمام اشکالات کا حل اسی میں ہے جو حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمه اللہ نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا کہ  میں نے خود خضر علیہ السلام سے اس معاملہ کو عالمِ کشف میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایا کہ  میں اور الیاس علیہ السلام ہم دونوں زندہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت دی ہے کہ ہم زندہ لوگوں کی شکل میں متشکل ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے تحت لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں۔۔۔ الخ واللہ اعلم.

 علامہ ابن کثیر نے بھی موت کو ترجیح دی ہے.

  البداية والنهاية لابن كثير میں ہے  وقد قدمنا قول من ذكر أن إلياس والخضر يجتمعان في كل عام من شهر رمضان ببيت المقدس وأنهما يحجان كل سنة ويشربان من زمزم شربة تكفيهما إلى مثلها من العام المقبل، وأوردنا الحديث الذي فيه أنهما يجتمعان بعرفات كل سنة، وبينا أنه لم يصح شيء من ذلك، وأن الذي يقوم عليه الدليل أن الخضر مات، وكذلك إلياس عليهما السلام.

 شیخ شنقیطی بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ انتقال ہوچکا ہے.

  أضواء البيان للشنقيطي میں ہے  فصل أطال فيه النفس وأثبت بالمنقول والمعقول موت الخضر عليه السلام وهو مبحث نفيس نوصي السائل الكريم بمراجعته. وأما إلياس عليه السلام فالقول فيه كالقول في الخضر عليه السلام أنه قد مات لعموم الأدلة المتقدمة.
خلاصہ کلام

سوال میں مذکور درود کے الفاظ درست ہیں، لہذا بغیر فضائل کے ذکر کے اس کو پڑھا جاسکتا ہے، لیکن پوسٹ میں موجود روایات اور فضائل مستند نہیں، لہذا ان کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢٤ اکتوبر ٢٠٢١ کراچی


Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
جلد7

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 390
  • تنبیہ نمبر 389
  • تنبیہ نمبر 388

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes