اکابرین امت کے اس رات کے متعلق اعمال و اقوال(قسط نمبر3)
الجواب باسمه تعالی
عبدالرحمن بن زید بن اسلم جو کہ تبع تابعین اور اہل مدینہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ ہمارے فقہاء اور بزرگان دین اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو کوئی خاص فضیلت نہیں دیتے تهے.
قال عبد الرحمن بن زيد بن أسلم (وهو من أتباع التابعين من أهل المدينة): “لم أدرك أحداً من مشيختنا ولا فقهائنا يلتفتون إلى ليلة النصف من شعبان، ولم ندرك أحداً منهم يذكر حديث مكحول ولا يرى لها فضلاً على سواها من الليالي”، أخرجه ابن وضاح بإسناد صحيح في ما جاء في البدع ( رقم 119(
ابن ابی ملیکہ جو کہ اکابر تابعین میں سے ہیں اور فقہائے مدینہ میں ان کا شمار ہوتا ہے؛ کسی نے ان سے عرض کیا کہ زیاد النمیری اس رات کو شب قدر کے برابر رات کہتے ہیں تو فرمایا کہ اگر وہ میرے سامنے ایسی بات کہہ دے تو میں اسکو لاٹہى سے مارونگا.
وقال ابن أبي مُليكة (وهو من جِلّة التابعين وفقهائهم بالمدينة)، وقيل له: إن زياداً النميري يقول: إن ليلة النصف من شعبان أجْرُها كأجر ليلة القدر، فقال: لو سمعته يقول ذلك وفي يدي عصاً لضربته بها.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف (رقم 7928)، وابن وضاح في ما جاء في البدع (رقم 120) بإسناد صحيح.
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اس رات اللہ رب العزت آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں تو جواب دیا کہ آسمان دنیا پر تو اللہ تعالی ہر رات تشریف لاتے ہیں تو اس رات کی کیا تخصیص ہے.
ولما سئل عبد الله بن المبارك عن النـزول الإلهي ليلة النصف من شعبان قال للسائل: “يا ضعيف! ليلة النصف؟! ينـزل في كل ليلة” أخرجه أبو عثمان الصابوني في اعتقاد أهل السنة (رقم 92(
قاضی ابوبکر ابن العربی فرماتے تهے کہ نصف شعبان کے متعلق کوئی ایسی مضبوط روایت نہیں جس سے عبادت کیلئے اس رات کی تخصیص ثابت ہوتی ہو یا یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ اس رات میں زندگی موت کے فیصلے ہوتے ہیں.
قال القاضي أبو بكر ابن العربي رحمه الله:
“وليس في ليلة النصف من شعبان حديث يُعوَّلُ عليه، لا في فضلها، ولا في نسخ الآجال فيها، فلا تلتفتوا إليها” انتهى.
“أحكام القرآن” (4/117(
علامہ ابن رجب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شامی تابعین جیسے خالد بن معدان مکحول لقمان بن عامر جیسے بزرگان دین اس رات کی تعظیم کرتے تهے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے تهے.
وقال ابن رجب في لطائف المعارف (263) : “وليلةُ النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام، كخالد بن معدان، ومكحول، ولقمان بن عامر وغيرهم يُعظّمونها ويجتهدون فيها في العبادة، وعنهم يأخذ الناس فضلها وتعظيمها.
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ان فضائل کی بنیاد زیادہ تر اسرائیلی روایات ہیں کیونکہ مکحول شامی جو شب برات کی اکثر روایات کے راوی ہیں وہ کعب أحبار سے روایات لیا کرتے تهے، لہذا اسرائیلیات ہونے کی وجہ سے کچھ حضرات نے ان باتوں کو تسلیم کیا اور بعض نے اس کا انکار کیا.
وقد قيل: إنه بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية، فلما اشتهر ذلك عنهم في البلدان اختلف الناس في ذلك، فمنهم من قبله منهم ووافقهم على تعظيمها منهم طائفة من عُبّاد أهل البصرة وغيرهم، وأنكر ذلك أكثر العلماء من أهل الحجاز منهم عطاء وابن أبي مُليكة، ونقله عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن فقهاء أهل المدينة.
■ امام مالک کا قول:
قال مالك وغيرهم: ذلك كلّه بدعة”.
وأما قول ابن رجب من أن مرجع تعظيم هذه الليلة إلى الإسرائليات فقد وجدُت ما يشهد له، من أن مكحولاً الشامي ( وهو مرجع أكثر طرق الحديث كما سبق ) قد رُوي هذا الحديث عنه في بعض الوجوه عن كعب الأحبار؛ كما تراه في كتاب النـزول للدارقطني ( 162-164، 168 رقم 88)، وانظر لطائف المعارف أيضاً ( 264(
■ أمام احمد بن حنبل
امام احمد بن حنبل سے کوئی واضح بات اس رات کے متعلق ثابت نہیں.
ونقله ابن رجب في لطائف المعارف (264): “ولا يُعرف للإمام أحمد كلام في ليلة النصف من شعبان”.
اس رات کی فضیلت میں چونکہ زیادہ تر شامی اکابرین کی رائے اور عمل ہے لیکن شامی فقیه امام اوزاعی اس رات کی فضیلت کا انکار کرتے تهے.
وأما تعظيم أهل الشام لهذه الليلة، فقد خالفهم في ذلك فقيه الشام الإمام الأوزاعي، فيما ذكره السبكي، ونقله عنه الزبيدي في تخريج إحياء علوم الدين ( 1/5211)، وفيما ذكره ابن رجب أيضاً في لطائف المعارف (263(
■ امام شافعی کا قول
امام شافعی رحمہ اللہ بهى اس رات کو بہتر سمجھتے تهے لیکن انفرادی عبادت کے طور پر نہ کہ اجتماعی عبادت کو اور نہ ہی امام شافعی نے مستحب ہونے کی دلیل ذکر فرمائی.
أما الشافعي فاستحب إحياءَها، كما في الأم (1/231)، لكن لم يذكر أن ذلك يكون بالاجتماع لها، ولم يذكر الشافعي دليل ذلك الاستحباب.
■ احناف کا قول
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی واضح قول نظر سے نہیں گذرا لیکن علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں
کہ اس رات کو عبادت کرنا مستحب ہے لیکن اجتماعی طور پر مساجد میں اس رات کی ترتیب بنانے کا عمل درست نہیں.
قال ابن نجيم الحنفي: ومن المندوبات إحياء ليالي العشر من رمضان وليلتي العيدين وليالي عشر ذي الحجة وليلة النصف من شعبان كما وردت به الأحاديث وذكرها في الترغيب والترهيب مفصلة والمراد بإحياء الليل قيامه وظاهره الاستيعاب ويجوز أن يراد غالبه، ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد.
● اسی طرح فقہ حنفی کی ایک اور مشہور کتاب “حاوی القدسی” میں لکھا ہے کہ “اجتماعی نوافل کی جماعت درست نہیں، البتہ صرف رمضان میں تراویح کی جماعت کرائی جاسکتی ہے اور جتنی بهى نمازوں کی فضیلت کسی بهى رات میں ثابت ہے اس سے مراد انفرادی عبادت ہے، اجتماعی عبادت نہیں.
قال في الحاوي القدسي: ولا يصلي تطوع بجماعة غير التراويح وما روي من الصلوات في الأوقات الشريفة كليلة القدر وليلة النصف من شعبان وليلتي العيد وعرفة والجمعة وغيرها تصلى فرادى، ومن هنا يعلم كراهة الاجتماع على صلاة الرغائب التي تفعل في رجب .
• علامہ شامی فرماتے ہیں کہ اس رات میں نفلی عبادت کرنی چاہیئے.
قال ابن عابدين: وإحياء ليلة العيدين الأولى ليلتي بالتثنية أي ليلة عيدالفطر وليلة عيدالأضحى، والنصف أي وإحياء ليلة النصف من شعبان.
● علامہ شرنبلالی فرماتے ہیں کہ چند راتیں ایسی ہیں کہ جن میں عبادت کرنی چاہیئے لیکن اس کیلئے مسجدوں میں اجتماعات کرنا درست نہیں.
قال الشرنبلالي: وندب إحياء ليالي العشر الأخير من رمضان وإحياء ليلتي العيدين وليالي عشر ذي الحجة وليلة النصف من شعبان ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد.
▪ اکابرین دیوبند کے اقوال
حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدہىانوی شہید رحمة اللہ علیه نے شب برأت کے متعلق اپنے ایک بیان میں فرمایا:
اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاهو تو یہ بهى جائز ہے۔ غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بهى گذار سکتے ہو گذارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاؤ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں ممکن ہو سکے عبادت میں وقت گذارا جائے، اور دوسرے یہ کہ یہ مانگنے کی رات ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، کیا مانگا جائے؟ اس کی طرف رسول اللہ ﷺنے اشارہ فرمایا ہے: ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کہولو اور لو۔ (اصلاحی مواعظ ۵۶۸۲(
▪ شب برات کی حقیقت اور فضیلت
مفتی تقی عثمانی صاحب
ماخوذ از: ماہنامہ البلاغ اگست 2010ء
■ شب برات کی فضیلت کی حقیقت:
شب برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بےاصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بےبنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
■ شب برات میں عبادت:
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بهى اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بےبنیاد اور بےاصل کہنا درست نہیں.صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔
■ عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں:
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑہى جاتی ہے، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑہى جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑہى جائے وغیرہ وغیرہ.اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بےبنیاد بات ہےبلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑہىں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکرکریں، تسبیح پڑہىں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
■ شبِ برات میں قبرستان جانا:
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے.اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تهے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے.فرماتے تهے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے ایک مرتبہ جانا ثابت ہےکہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے.چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بهى اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹہىک ہے، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
15 ■ شعبان کا روزہ:
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے . اسکو بهى سمجھ لینا چاہیئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکہو لیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں، البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے، لیکن 28 اور 29 شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہےکہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکہو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیار رہے۔
خلاصہ کلام
پندرہویں شعبان کے متعلق شدہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس رات کی فضیلت ثابت ہے.اب اس رات میں کیا خصوصیات ہیں اس کے بارے میں صراحتا کوئی بات صحیح ثابت نہیں لہذا اس کے متعلق علماء کی رائے ہر زمانے میں مختلف رہی ہے کچھ نے روایات کو دیکھتے ہوئے اسکو تقدیر کی تحریر کی رات قرار دیا جبکہ دوسرے طبقے نے ان روایات کے ضعف کو دیکھتے ہوئے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رات کی کوئی اتنی اہمیت نہیں ہے.اس میں فقط یہ رائے دی جاسکتی ہے کہ کونسا موقف زیادہ درست ہے .ہماری رائے میں شب برات کو تقدیر کی تحریر یا رزق کی تقسیم کی رات قرار دینا زیادہ درست نہیں بلکہ شب قدر کو قرار دینا زیادہ صحیح ہے.لیکن جن حضرات نے شب برات کو تقدیر کے لکھنے کی رات قرار دیا ہے چونکہ ان کے سامنے بهى روایات ہیں جو اگرچہ ضعیف ہیں لیکن اس قول کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ قوی قول نہیں.اس رات انفرادی عبادت بغیر کسی تداعی اور اجتماع کے کی جائے ،روزے کی توفیق ہو تو نفلی روزہ سنت سمجهے بغیر رکھا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ