خوش دلی سے قربانی کرنا
سوال
محترم مفتی صاحب!
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ “جس نے خوش دِلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی، تو وہ قربانی اس کے لئے جہنّم کی آگ سے حِجاب (یعنی روک) ہو جائےگی”۔ (معجمِ کبیر، 3/84، حدیث: 2736)
کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت بہت ساری کتابوں میں موجود ہے، مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی نے طبرانی کے واسطے سے اس روایت کو نقل کیا ہے.
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَحَّى طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، مُحْتَسِبًا لِأُضْحِيَّتِهِ؛ كَانَتْ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ». (17/4)
– أخرجه الطبراني في معجمه الكبير (4/9) حيث قال حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّخَعِيُّ الْقَاضِي الْكُوفِيُّ، ثنا عَمَّارُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ الْجَنْبِيُّ، ثنا أَبُودَاوُدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ به.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند انتہائی کمزور درجے کی ہے، جس کی بنیاد پر بعض محدثین نے اس کو روایت کو من گھڑت اور بعض نے ضعیف جدا قرار دیا ہے، اس روایت کی کمزوری کی بنیاد اس کی سند میں موجود ایک راوی أبوداود سليمان بن عمرو النخعي ہے.
اس راوی کے متعلق محدثین کے اقوال:
١. امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کا جھوٹا ہونا معروف ہے.
قال البخاري في كتاب الضعفاء الصغير (1/53): سليمان بن عمرو الكوفي أبوداود النخعي العامري معروف بالكذب.
٢. امام احمد بن حنبل نے بھی اس کو جھوٹا قرار دیا ہے.
عن أحمد بن حنبل يقول: أبوداود سليمان بن عمرو النخعي كذاب.
٣. یحیي بن معین کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا راوی ہے، اور روایات گھڑتا تھا.
وعن يحيى بن معين انه قال: أبوداود النخعي ليس بشيء، يكذب يضع الحديث. (كتاب الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (4/132)
٤. امام نسائی نے اس کو متروک الحدیث قرار دیا ہے.
وقال النسائي في الضعفاء والمتروكين (1/48): أبوداود متروك الحديث.
٥. ابن حبان کہتے ہیں کہ بظاہر نیک آدمی تھا، لیکن روایت گھڑتا تھا.
وقال ابن حبان في المجروحين (1/333): وكان رجلا صالحا في الظاهر إلا أنه كان يضع الحديث وضعا.
٦. امام ہیثمی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس میں نخعی ہے جو جھوٹا راوی ہے.
قال الهيثمي في “المجمع” (4/17) وقد ذكره من حديث حسن بن علي: رواه الطبراني في “الكبير” وفيه سليمان بن عمرو النخعي وهو كذاب.
اس مضمون کی درست روایت:
اس مضمون کی درست روایت جو کہ امام ترمذی نے نقل کی ہے:
“مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَى اللہ مِنْ اِهْرَاقِ الدَّمِ، اِنَّها لَتَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَاَشْعَارِهَا وَاَظْلَافِهَا، وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللہ بِمَكَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا”.
ترجمہ: یعنی دس ذوالحجہ میں ابنِ آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور قربانی کا جانور بروزِ قیامت اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئےگا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالٰی کے ہاں قبول ہو جاتا ہے، لہٰذا اسے خوش دلی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ج:3، ص:162،حدیث:1498)
خلاصہ کلام
دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کرنا بہت اعلی عمل ہے، اور دل کی رضامندی ہی اللہ رب العزت کو مطلوب اور محبوب ہے، لیکن پوسٹ میں جس روایت کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کی گئی ہے یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا جائز نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٧ جولائی ٢٠٢٢ کراچی