کیا یأجوج مأجوج آسمان پر ہیں؟
الجواب باسمه تعالی
٣. تیسرا نکتہ:
سبب کا لفظ ہمیشہ آسمان سے متعلق ہی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے.
جواب نکتہ:
سبب کا معنی کیا ہے؟ لغت اور تفسیر میں اس کو کیسے بیان کیا گیا؟
سبب اور أسباب کا معنی:
لغت عرب میں سبب کا معنی ہے ہر وہ چیز جس سے مقصود تک پہنچا جا سکے ، چاہے راستہ ہو یا رسی ہو یا کوئی بھی ذریعہ.
قرآن مجید میں لفظ سبب ٩ جگہ استعمال ہوا ہے، پانچ جگہ مفرد (سبب) اور چار جگہ جمع (اسباب).
اب قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ سبب استعمال ہوا ہے، اس کے سیاق وسباق سے مفسرین اور اہل لغت نے اس کے معنی کو متعین کیا ہے، جیسے مختلف آیات میں مختلف معنی مراد لئے گئے ہیں.
١. سورہ کہف میں پہلے سبب کا معنی علم سے کیا گیا.
المعنی الأول: العلم، في قوله تعالى: {وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا} [الكهف: 84]، أي: علماً.
٢. دوسری جگہ سبب کا معنی راستے سے کیا گیا.
المعنــى الثاني: الطريــق، في قوله تعالى: {فَأَتْبَعَ سَبَبًا} [الكهف: 85]، أي: طريقاً ما بين المشرق والمغرب.
٣. سورہ حج میں سبب کا معنی رسی کے کیا گیا ہے.
المعنــى الثالث: الحبـــل، في قوله تعالى: {مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ} [الحج: 15]، أي: من يظن أن لن ينصر الله نبيّه ولا دينه ولا كتابه، فليمدد بحبل إلى سماء البيت وهو سقفه، فليختنق به، ثم لينظر هل يذهبن ذلك ما يجد في صدره من الغيظ على دين الله تعالى ونبيه صلى الله عليه وسلم وكتابه العزيز.
٤. سورہ ص میں سبب کا معنی آسمان کے دروازے کیا گیا ہے.
المعنی الرابع: أبواب السماء وطرقها، في قوله تعالى: {أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَلْيَرْتَقُوا فِي الأَسْبَابِ} [ص: 10]، أي: فليصعدوا في أبواب السماء وطرقها.
٥. سورہ بقرہ میں سبب کا معنی تعلق اور دوستی کے رشتے کا کیا گیا ہے.
المعنــى الخامس: انقطاع حبال المودة بين الكافرين يوم القيامة، في قوله تعالى: {إذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ} [البقرة: 166]، أي: لم يعد بينهم مودة يوم القيامة وتقطعت حبالها بينهم، وكانوا يتواصلون بها في الدنيا.
٤. چوتھا نکتہ:
ساحل عدیم کا دعویٰ ہے کہ ذوالقرنین انسان تھا ہی نہیں، اور وہ حضرت عمر کے قول سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے ذوالقرنین فرشتے کا نام قرار دیا تھا.
جواب نکتہ:
تفسیر روح المعانی میں ذوالقرنین کے فرشتے ہونے کے قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وہ فرشتہ نہیں تھا، البتہ ذوالقرنین نام فرشتے کا ہو سکتا ہے، اور ذوالقرنین کا اپنا اصلی نام ذوالقرنین نہیں بلکہ کچھ اور تھا.
واختلف في ذي القرنين فقيل: هو ملك أهبطه الله تعالى إلى الأرض وآتاه من كل شيء سبباً، روي ذلك عن جبير بن نفير، واستدل على ذلك بما أخرجه أبو الشيخ عن عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه أنه سمع رجلاً ينادي بمنى: ياذا القرنين! فقال له عمر: ها أنتم قد سميتم بأسماء الأنبياء فما لكم وأسماء الملائكة، وهذا قول غريب بل لا يكاد يصح، والخبر على فرض صحته ليس نصاً في ذلك إذ يحتمل ولو على بعد أن يكون المراد أن هذا الاسم من أسماء الملائكة عليهم السلام فلا تسموا به أنتم وأن تسمى به بعض من قبلكم من الناس. (روح المعاني)
١. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذوالقرنین کے فرشتے ہونے کو بطور قول ضرور ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے بادشاہ ہونے والے قول کو ترجیح دی ہے.
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي ذِي الْقَرْنَيْنِ فَقِيلَ كَانَ نَبِيًّا، وَقِيلَ: كَانَ مَلَكًا مِنْ الْمَلَائِكَة، وقيل لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا، وَقِيلَ: كَانَ مِنْ الْمُلُوك. وَعَلَيْهِ الْأَكْثَر.
٢. ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وہ حمیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، اور ان کا نام صعب بن مراثد تھا.
ويُروى عن ابن عباس أنه سئل عن ذي القرنين من كان؟ فقال: هو من حمير، وهو الصعب بن مراثد.
٣. کعب أحبار سے منقول ہے کہ ان کا نام صعب تھا، اور ان کا تعلق حمیر قبیلے سے تھا.
وقد سئل كعب الأحبار عن ذي القرنين فقال: «الصحيح عندنا من علوم أحبارنا وأسلافنا أنه من حمير، وأنه الصعب»
٤. شیخ ابن عثیمین نے فرمایا کہ وہ نیک بادشاہ تھا، اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھے.
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله: هو ملك صالح كان على عهد الخليل إبراهيم عليه الصلاة والسلام، ويقال إنه طاف معه بالبيت، فالله أعلم. (فتاوى نور على الدرب، لابن عثيمين 60/4).
٥. پانچواں نکتہ:
ذوالقرنین نے زمین کا سفر کیا ہی نہیں.
جواب نکتہ:
ذوالقرنین نے زمین کا ہی سفر کیا، اس کی دلیل خود قرآن مجید نے ذکر کی ہے کہ وہ مشارق ارض اور مغارب ارض تک پہنچا، پھر وہ زمین کے درمیان میں پہنچا.
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین اس لئے پڑا کہ وہ فارس اور روم دونوں کا بادشاہ بنا، اور اس لئے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں تک پہنچا.
قال ابن كثير: وقيل: سمي بذي القرنين؛ لأنه ملك فارس والروم، فلقب بهذا. وقيل: لأنه بلغ قرني الشمس شرقًا وغربًا، وملك ما بينهما من الأرض.
ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ذوالقرنین حضرت ابراہیم کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا اور اس نے بیت اللہ کا طواف کیا تھا.
ذُكِر ابن كثير أن ذا القرنينِ أسلَم على يدَي إبراهيمَ وطاف معه الکعبة.
خلاصہ کلام
ساحل عدیم نے یاموج ماجوج کے متعلق جو نظریہ قائم کیا ہے، اس نظریے میں ان کا ساتھ نہ تفسیر دے رہی ہے، نہ لغت کی کتب نہ تاریخ.
اسی طرح ذوالقرنین کے متعلق بھی ساری باتیں محض ایک روایت کی بنیاد پر کر رہے ہیں،
جبکہ ساری امت ذوالقرنین کے انسان ہونے پر متفق ہے.
ساحل عدیم سے درخواست ہے کہ وہ ان حساس موضوعات میں بلاوجہ ایسے نظریات کا پرچار نہ کریں جو جمہور امت مسلمہ کے خلاف ہوں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٦ دسمبر ٢٠٢٢ کراچی