والدین پر ہر ہفتے اعمال پیش ہونا
سوال
ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے کہ ہر ہفتے والدین پر اولاد کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، جس سے والدین خوش ہوتے ہیں…
کیا یہ روایت درست ہے؟
(سائل: باور خان، سوات)

الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب میں منقول ہے.
حکیم ترمذی نے نوادر الأصول میں اس روایت کو نقل کیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن اعمال اللہ تعالیٰ پر پیش کئے جاتے ہیں، اور انبیاء کرام اور ماں باپ پر جمعے کو پیش کئے جاتے ہیں، وہ ان کے اچھے اعمال سے خوش ہوتے ہیں، اور ان کے چہروں کی چمک بڑھ جاتی ہے، پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے اموات کو تکلیف مت دو.
أخرجه الحكيم الترمذي في “نوادر الأصول، النسخة المسندة” (925) من طريق عبدالعزيز بن عبدالله البصري عن كثير بن هشام، قال حدثني عبدالغفور بن عبدالعزيز عن أبيه عن جده قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: “تُعرَض الْأَعْمَال يَوْم الْإِثْنَيْنِ وَالْخَمِيس على الله، وَتعرض على الْأَنْبِيَاء، وعَلى الْآبَاء والأمهات يَوْم الْجُمُعَة، فيفرحون بحسناتهم، وتزداد وُجُوههم بَيَاضًا وإشراقا، فَاتَّقُوا الله وَلَا تُؤْذُوا أمواتكم”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت انتہائی کمزور ہے، کیونکہ اس کی سند میں کچھ راویوں پر محدثین کا شدید کلام موجود ہے.
عبدالغفور بن عبدالعزيز:
١. ابن عدی نے الکامل میں ان کی کئی روایات نقل کیں، اور کہتے ہیں کہ اس کی روایات کمزور ہیں اور یہ منکر الحدیث ہے.
قال أبو أحمد بن عدي الجرجاني: الضعف على حديثه ورواياته بيّن، وهو منكر الحديث.
٢. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقات کے نام پر من گھڑت روایات بناتا تھا.
قال أبو حاتم بن حبان البستي: يضع الحديث على الثقات، لا يحل كتب حديثه إلا على التعجب.
٣. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
قال أحمد بن شعيب النسائي: متروك الحديث.
٤. امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بےکار راوی ہے.
قال الذهبي: واه.
٥. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے، اس کو لوگوں نے چھوڑ دیا.
محمد بن إسماعيل البخاري: تركوه، منكر الحديث.
٦. شیخ البانی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے.
والحديث قال فيه الشيخ الألباني في “السلسلة الضعيفة” (1480): موضوع.
شیخ طلحہ منیار صاحب نے بھی اس روایت کی تحقیق میں اس کو غیر معتبر روایت قرار دیا ہے.
ایک اور مقید روایت:
اس باب میں ایک دوسری روایت حضرت سعید شامی رضی اللہ عنہ کی روایت سے عبدالغفور بن عبدالعزیز شامی، اپنے والد کے واسطے سےنقل کرتے ہیں، جس کی تخریج حکیم ترمذی نے نوادر الاصول (الاصل: ۱۶۹) میں کی ہے، سند ومتن یہ ہے:
حدثنا عبدُالعزيز بن عبدالله البَصري، عن كثير بن هشام، حدثني عيسى بن إبراهيم الهَاشمي، حدثني عبدالغَفور بن عبد العزيز، عَن أَبِيه عَن جده عن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أنه قال: “تُعرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْم الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيس على الله، وَتُعرضُ على الْأَنْبِيَاءِ وعَلى الْآبَاءِ والأمهاتِ يَوْم الْجُمُعَة، فيَفرَحُون بحَسَناتهم وتَزدادُ وُجُوهُهم بَيَاضًا وإشراقا، فَاتَّقُوا الله وَلَا تُؤْذُوا أمواتَكُم”.
اس روایت میں عرض اعمال کی دو قسمیں وارد ہیں:
١. عرض الاعمال علی اللہ: پیر اور جمعرات کے دن.
٢. عرض الاعمال علی الأنبیاء والآباء والأمهات: جمعہ کے دن.
پہلی قسم: عرض الاعمال علی اللہ، یہ تو صحیح روایات سے ثابت ہے، اس کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے. البتہ دوسری قسم جو جمعہ کے دن کے ساتھ مقید ہے، یہ سند کے غیر معتبر ہونے کی وجہ سے مقبول نہیں ہے، سند میں عبدالغفور بن عبدالعزیز ابو الصبّاح متروك الروایة ہے.
خلاصہ کلام
ہر ہفتے والدین پر اعمال پیش ہونے والی کوئی روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرنا بھی درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣١ دسمبر ٢٠٢٢ کراچی