رمضان المبارک کی فضیلت کی روایت
ایک اشکال :
یہ ایک جھوٹی مشہور حدیث ہے کہ:
” رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا.”
ذرا سوچیں، تمام جہانوں کے مالک ہمار ے اللہ کی رحمت اور مغفرت کے دروازے اتنے چھوٹے اور تنگ ہو ہی نہیں سکتے کہ صرف دس دن کے لئے کھلے رہیں.
نہیں!!….بلکہ ہمار ے اللہ کی رحمت ہر دن رات ہر بندے پر برستی رہتی ہے .
حدیث شریف میں ہے، اللہ تعالی ہر رات تہائی حصے کے بعد فرماتا ہے :
“کوئی ہے جو مجھ سے رحمت و مغفرت اورحاجت طلب کرے تاکہ میں اپنے بندوں کی ہر حاجت کو پورا کروں اور جو مانگے وہ دوں.”
تو پھر صرف دس دن رحمت کا عشرہ کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ تو اللہ پر سراسر بھتان اور جھوٹا الزام ہے.
دوسرا اور تیسرا عشرہ مغفرت اور جہنم سے نجات کا ہے.
اللہ تعالی ہر لمحہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرکے اپنے بندوں کی مغفرت کرنے کے لئے تیار رہتا ہے.
اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اسکی قدرت کی کوئی حد نہیں، وہ جب چاہے اپنے بندوں کو اپنے فضل وکرم سے ہر نعمت سے نواز سکتا ہے.
لیکن طلبگار بندے ہونا چاہیئے.
دیکھیےاس حدیث کے بارے میں محدثین کی تحقیق:
ضعیف: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے: ”اگریہ حدیث صحیح ہو تو فضائل رمضان کے بارہ میں باب“.
اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہیں۔ زوائد ابن ماجہ: 228
٭ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا: ”یہ حدیث منکر ہے”. العلل لابن ابی حاتم:١/٢٤٩
٭ امام عقیلی رحمه اللہ نے کہا: “اس کی کوئی اصل نہیں ہے’‘. الکامل:٣/١١٥٧
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کا دارومدار علی بن زید پر ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اتحاف المهرۃ: ٥/٥٦١
٭ شیخ البانی رحمه اللہ نے کہا: ”منکر” الضعیفہ: ٨٧١
٭ شیخ ابواسحاق الحوینی مصری حفظه اللہ نے کہا: ”یہ حدیث باطل ہے۔’‘النافلة فی الاحادیث الضعیفة والباطلة: ١/٢٩١
اس تحقیق سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
بہرحال!
اللہ کے بندے ایسی من گھڑت اور جھوٹی حدیثوں پر یقین کرکے اپنا ایمان اور عقیدہ خراب کرکے اللہ کی رحمت ونعمتوں سے محروم نہ ہوجائیں.
الجواب باسمه تعالی
اس روایت کو من گھڑت قرار دینا ایک بہت بڑی زیادتی ہے جس پر لکھنے والے کو اللہ تعالی سے معافی مانگنی چاہیئے کیونکہ علماء محدثین کے سخت ترین کلمات میں سے “منکر” کا لفظ ہے جو ابن ابی حاتم اور البانی رحمھما اللہ نے اس روایت کے متعلق کہا ہے.
ان دونوں حضرات کے علاوہ محدثین نے اس روایت اور اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان کے متعلق ضعف کا قول تو کہا ہے لیکن اس روایت کو من گھڑت کسی نے بهى قرار نہیں دیا اور نہ ہی کسی محدث نے اس راوی کو “متھم بالكذب” قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو ضعیف کہنا تو بجا ہوگا لیکن “من گھڑت” کہنا بہت بڑی غلطی ہے.
■ روایت کی تحقیق
• فقد روي من حديث سلمان: “وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار”.
– ابن خزیمة نے اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ ‘بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو’.
• رواه ابن خزيمة في صحيحه 1887 وقال: إن صح.
• امام بیہقی حمه اللہ نے اس روایت کو نقل کیا.
-والبيهقي في شعب الإيمان: 3608.
– وفي سنده علی بن زيد بن جدعان
– قال فی الكشاف: علي بن زيد بن جدعان أحد الحفاظ ليس بالثبت.
– قال الدارقطني: لا يزال عندي فيه لين.
– وقال عنه الإمام أحمد وأبوزرعة: ليس هو بالقوى. كما في الجرح والتعديل
-وعن يحيى بن معين: ليس بحجة.
● ان تمام کبار محدثین نے اس راوی کو ضعیف تو قرار دیا ہے لیکن اس پر جهوٹ کی تہمت نہیں لگائی جس کی وجہ سے روایت موضوع یا متروک بن جائے.
☆ البتہ چونکہ اس راوی کے متعلق کچھ سخت الفاظ بھی کے گئے جس سے اس کی کمزوری واضح ہوتی ہے.
مثلا: لیس بحجة، لیس بشئ، ضعیف فی کل شئ.
اس وجہ سے بعض محدثین نے اس روایت پر “منکر” کا حکم لگادیا.
وضعف ھذا الحديث الشيخ الألباني في السلسة الضعيفة، حديث رقم: 871،
وقال: منكر.
وروي أيضًا من حديث أبي هريرة:
“أول شهر رمضان رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار”.
– رواه ابن أبي الدنيا والخطيب وابن عساكر.
وضعفه الشيخ الألباني في ضعيف الجامع، حديث رقم: 2135، وقال عنه في السلسة الضعيفة: 1569: منكر.
■ اس روایت کو اپنی کتابوں میں ذکر کرنے والے وہ محدثین جنہوں نے اس روایت کو قابل بیان قرار دیا ہے:
علامہ ابن حجر الهیتمی رحمه اللہ:
– المحدث: الهيتمي المكي.
– المصدر: الزواجر.
– الصفحة أو الرقم: 1/197.
– خلاصة حكم المحدث: في سنده من صحح، وحسن له الترمذي لكن ضعفه غيره.
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمه اللہ:
شَهْر رمضانَ أوَّلُه رحمةٌ، وأوسطُهُ مغفرةٌ، وآخرُهُ عِتقٌ منَ النَّارِ.
– الراوي: أبوهريرة.
– المحدث: ابن حجر العسقلاني.
– المصدر: لسان الميزان.
– الصفحة أو الرقم: 8/59.
– خلاصة حكم المحدث: [فيه] مسلمة بن الصلت.
– قال ابن عدي: ليس بالمعروف
علامہ الدمیاطی رحمه اللہ:
– الراوي: سلمان الفارسي.
– المحدث: الدمياطي.
– المصدر: المتجر الرابح.
– الصفحة أو الرقم: 133.
– خلاصة حكم المحدث: [فيه] علي بن زيد بن جدعان، والجمهور على تضعيف “علي” هذا وقد يحسن حديثه.
امام ابن خزیمة رحمه اللہ:
امام ابن خزیمہ نیساپوری (۲۳۳ﮪ/۳۱۱ﮪ) نے حدیث کی مشہور ومعروف کتاب “صحیح ابن خزیمہ ۳ / ۱۹۱” میں.
امام ابن ابی الدنیا رحمه اللہ:
امام ابوبکر بغدادی جو “ابن ابی الدنیا” کے نام سے معروف ہیں(۲۰۸ﮪ/ ۲۸۱ﮪ)نے اپنی مشہور کتاب ”فضائل رمضان” میں.
ابن شاہین بغدادی رحمه اللہ:
ابن شاہین بغدادی (۲۹۷ﮪ/۳۸۵ﮪ) نے اپنی کتاب ”فضائل شہر رمضان” میں.
امام بیہقی رحمه اللہ:
مشہور محدث امام بیہقی (۳۸۴ﮪ/۴۵۸ﮪ) نے حدیث کی مشہور کتاب ”شعب الایمان ۳۳۳۶” اور “فضائل اوقات ۳۷” میں.
امام ابوالقاسم اصبہانی رحمه اللہ:
امام ابوالقاسم اصبہانی رحمه اللہ جو “قوام السنة” کے نام سے معروف ہیں (۴۵۷ﮪ/۵۳۵ﮪ) نے اپنی مشہور کتاب “کتاب الترغیب والترہىب ۱۷۵۳” میں.
امام بغوی رحمه اللہ:
امام بغوی جو “محی السنة” کے لقب سے مشہور ہیں (۴۳۳ﮪ/۵۱۰ﮪ) نے اپنی مشہور تفسیر قرآن ”معالم التنزیل ۱/۲۰٢” ميں یہ حدیث ذکر کی ہے۔
اختصار کے پیش نظر ہم نے صرف چند محدثین کے نام ان کی کتابوں کے حوالے کے ساتھ ذکر کردئیے ہیں.ان کے علاوہ بهى بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس روایت کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بهى یہ حدیث منقول ہے جو کہ دیگر کتابوں میں مذکور ہے، اگرچہ ان کی سند میں ضعف ہے۔
علی بن زید بن جدعان
اس راوی کو اگرچہ بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کی ایک جماعت نے انکی توثیق بهى کی ہے، جیسے:
١. امام ترمذی رحمہ اللہ
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “صدوق صدوق”. تذكرة الحفاظ للذهبى
٢. یعقوب بن شیبة
وقال يعقوب بن شيبة: “ثقة”. تهذيب الكمال
٣. امام حاکم رحمه اللہ نے “المستدرک 4041” میں علی بن زید بن جدعان کی روایت کو “هذا حديث صحيح” کہا ہے.
٤. علامہ ذھبی رحمه اللہ “المستدرک 8543” کی تلخیص میں لکھتے ہیں: ابن جدعان “صالح الحديث”.
٥ . المستدرك 8699 میں لکھتے ہیں: “اسناده قوى”.
٦. امام عجلی نے اپنی ثقات میں ان کا ذکر کیا ہے.
٧. علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں. “الحافظ”. لسان المیزان
٨. علامہ ابن الملقن لکھتے ہیں: “وهو حسن الحديث”. تحفة المحتاج
٩. “المختارة” کی تخریج کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالملک دہیش لکھتے ہیں: “اسناده حسن”. الاحاديث المختارة 475
١٠. علامہ عبدالعظیم منذری رحمہ اللہ نے بهى اس حدیث کو عن سلمان رضی اللہ عنه کہہ کر نقل کیا ہے جو کہ ان کے نزدیک حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے.
علامہ ناصر الدین البانی صاحب کا اس حدیث کو منکر لکھنا محل نظر ہے.
١١. ناصر الدین البانی صاحب نے علی بن زید کی روایت کو “سنن ترمذی 764” میں صحیح لکھا ہے.
سنن
ترمذی ١٢. 1146 میں بهى علی بن زید سے روایت موجود ہے جس کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں: “حدیث حسن صحیح”. • اور علامہ ناصر الدین البانی نے بهى اسکو “صحیح” تسلیم کیا ہے.
خلاصہ کلام
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ضرور ہے، لہذا اگر کوئی اسکو بیان نہ کرنا چاہے تو نہ کرے، لیکن اس پر من گھڑت کا حکم لگانا اور اس کو باطل روایت قرار دینا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ