قبرستان جانے کا حکم
اس موضوع کے تین حصے ہیں:
- مردوں کا قبرستان جانا
- خواتین کا قبرستان جانا
- کسی خاص دن یا خاص موقعہ پر قبرستان جانا
1.قبرستان جانے کے متعلق ابتدائی اسلام میں ممانعت تهى لیکن پھر آپ ﷺ نے باقاعدہ اجازت اور ترغیب دی
لہذا قبرستان جانا مردوں کیلئے باعث عبرت و اجر عمل ہے
عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَقَدْ أُذِنَ لَمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ } رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَه.
2. خواتین کے قبرستان جانے کے بارے میں مختلف آراء پائے جاتے ہیں:
القول الأول:
حرمة الزيارة مطلقاً:وهو وقول عند المالكية ذكره الدسوقي في حاشيته ،وقول عند الشافعيةقاله الشيرازي في المهذب1/257
پہلا قول بعض مالکیہ کا ہے کہ عورت کا قبرستان جانا مطلقا حرام ہے.
القول الثاني:
الكراهة،وهو قول عند المالكية ذكره الدسوقي في حاشيته مع تفريق بين الشابة والعجوز،وقول عند الشافعية ذكره ابن حجر الهيتمي في كتابه(تحفة المحتاج)،وقول عند الحنابلة رحجه ابن قدامة قي المغني2/ 430.
مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ کے قول کے مطابق عورت کا قبرستان جانا مکروہ ہے
الإباحة بل والندب-الاستحباب-،وهو قول الحنفية كما ذكر السرخسي في (المبسوط) راجع حاشية ابن عابدين (1/150).
احناف کے نزدیک عورت کا قبرستان جانا مستحب اور بہتر ہے.
حرام کہنے والوں کے دلائل:
أدلة الفريق الأول:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ }
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ وَالتِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَه.
ووجه الدلالة فيه :النهي، وهو يفيد التحريم.
اس روایت میں آپ ﷺنے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور اس لعنت سے حرام ہونا معلوم ہوتا ہے.
عَنْ ابْنِ عَمْرٍو عِنْدَ أَبِي دَاوُد وَالْحَاكِمِ { أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فَقَالَ : مَا أَخْرَجَكِ مِنْ بَيْتِكِ ؟ فَقَالَتْ : أَتَيْت أَهْلَ هَذَا الْمَيِّتِ فَرَحِمْت مَيِّتَهُمْ فَقَالَ لَهَا : فَلَعَلَّكِ بَلَغْت مَعَهُمْ الْكُدَى ، قَالَتْ : مَعَاذَ اللَّهِ وَقَدْ سَمِعْتُك تَذْكُرُ فِيهَا مَا تَذْكُرُ ، } فَقَالَ : لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْكُدَى فَذَكَرَ تَشْدِيدًا فِي ذَلِكَ ، فَسَأَلْت رَبِيعَةَ مَا الْكُدَى ؟ فَقَالَ : الْقُبُورُ فِيمَا أَحْسِبُ وَفِي رِوَايَةٍ { لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمْ الْكُدَى مَا رَأَيْتِ الْجَنَّةَ حَتَّى يَرَاهَا جَدُّ أَبِيكِ } قَالَ الْحَاكِمُ : صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخِ وَلَمْ يُخَرِّجَاه.
ُ قَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ : وَفِيمَا قَالَهُ الْحَاكِمُ عِنْدِي نَظَرٌ.
وجه الدلالة: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم رتب عقوبة على الزيارة وهذادليل لى حرمة الزيارة بالنسبة للنساء
حضرت فاطمہ ایک تعزیت کیلئے گئیں تو آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر تم جنازے کے ساتھ جاتیں تو اتنا اتنا عذاب ہوتا
اور یہ تشدید بهى حرمت کی علامت ہے.
حرام کہنے والوں کا جواب:
پہلی روایت میں زیارت کرنے والیوں پر لعنت کی گئ لیکن علماء امت اس کو خاص کرتے ہیں ان خواتین کے ساتھ جو کثرت سے قبرستان آنا جانا رکهے.
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ
وقد دل لفظ (زوارات القبور) على أن النهي متعلق بالمبالغة في الزيارة،
يقول ابن: العربي المالكي في ذلك-كما نقله عنه الشوكاني في نيل الأوطار 4/502
قال القرطبي: اللعن المذكور في الحديث إنما هو للمكثرات من الزيارة لما تقتضيه الصيغة من المبالغة ولعل السبب ما يفضي إليه ذلك من تضييع حق الزوج والتبرج وما ينشأ من الصياح ونحو ذلك وقد يقال إذا أمن جميع ذلك فلا مانع من الإذن لهن لأن تذكر الموت يحتاج إليه الرجال والنساء.. انتهى
ثم علق الشوكاني اليه قائلاً
(وهذا الكلام هو الذي ينبغي اعتماده في الجمع بين أحاديث الباب المتعارضة في الظاهر)
● امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ جو عورتیں کثرت سے قبرستان جاتی ہیں اور رونا دہونا کرتی ہیں یا زیب زینت اختیار کرتی ہیں یا شوہر کے حقوق ضائع کرتی ہیں ان عورتوں کے بارے میں یہ شدید ممانعت وارد ہے
● دوسری روایت حضرت فاطمہ والی
اس روایت کی سند کو اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے مقابل جن روایات سے جواز معلوم ہوتا ہے وہ روایات زیادہ قوی ہیں.
جو حضرات کراہیت کے قائل ہیں:
درحقیقت قول ثانی اور ثالث کے دلائل ایک ہی ہیں البتہ کچھ باتوں میں فرق ہے مثلا: جو حضرات کراہیت کے قائل ہیں انہوں نے یہ تفصیل ذکر کی ہے کہ جوان عورت کیلئے مکروہ ہے لیکن بوڑہى عورت کیلئے مکروہ نہیں وغیرہ.
جواز کے قائلین کے دلائل:
یہ حضرات خواتین کے قبرستان جانے کو چند شرائط کیساتھ مستحب قرار دیتے ہیں:
1 . کثرت زیارت نہ ہو.
2 . واویلا مچانا یا چہرہ پیٹنا نہ ہو.
3 . بن سنور کر زیب و زینت کے ساتھ قبرستان نہ جائے.
دلائل:
حضور ﷺنے ممانعت کے بعد جو اجازت عطا فرمائی وہ مرد عورت دونوں کیلئے عام ہے.
اسلام کے ابتدائی دور میں جبکہ عورتوں کی تربیت اسلامی خطوط پر نہیں ہوئی تهى وہ قبروں پر جا کر بین کرتیں، بال نوچتیں اور پیٹتی تهىں۔ لہٰذا منع کا حکم تھا لیکن اسلامی تعلیم و تربیت کے بعد ان کے قول و عمل میں صحیح انقلاب آیا، تو شارع ﷺنے مردوں کی طرح عورتوں کو بهى زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بهى کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے۔ آقائے کریم کا فرمان ہے:
“نهيتکم عن زيارة القبور فزوروها”.
(مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب استيذان النبی صلی الله عليه وآله وسلم ربه قبر امه، 2 : 672، الرقم: 977)
’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعن زوارات القبور قبروں کی کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ قبروں پر جانے والیوں پر ۔جس طرح نماز، روزہ، اور باقی عبادات میں مبالغہ آمیزی جائز نہیں، زیارت قبور میں بهى حد اعتدال کاحکم ہے۔
امام ترمذی نے اس کے متعلق فرمایا:
قد رای بعض اهل العلم ان هذا کان قبل ان يرخص النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی زيارة القبور فلما رخص دخل رخصة الرجال والنساء وقال بعضهم انما کره زيارة القبور للنساء لقد صبرهن وکثرة جزعهن.
(ترمذی، السنن، کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراهية زيارة القبور للنساء، 3: 372، الرقم: 1056)
’’بعض اہل علم کے خیال میں یہ (لعنت) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں کو زیارت قبور کی اجازت سے پہلے تهى ۔ جب آپ نے رخصت دی تو آپ کی رخصت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اور بعض علماء نے کہا کہ عورتوں کی زیارت قبور اس لئے مکروہ ہے کہ ان میں صبر کم اور بے صبری زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
پس اگر بے صبری کا اظہار، پیٹنا اور بال نوچنا یا گریبان پھاڑنا نہ ہو او رفتنہ و فساد کا خطرہ بهى نہ ہو تو عورت بهى اس طرح زیارت قبور کر سکتی ہے جس طرح مرد، اور یہ کہ یہ سنت دونوں کے لئے ہے۔
عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِامْرَأة تَبْکِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ: اتَّقِي اﷲَ وَاصْبِرِي. ملخصا
رَوَاه الْبُخَارِيُّ وَأحْمَدُ .(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گذرے جو ایک قبر کے پاس زار و قطار رو رہی تهى ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کر۔
آپ ﷺنے اس کے رونے کو برا جانا لیکن اس کے قبرستان آنے پر نکیر نہیں فرمائی.
عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها، في رواية طويلة قَالَتْ : قُلْتُ : کَيفَ أَقُوْلُ لَهمْ يا رَسُوْلَ اﷲِ؟ (تَعْنِي فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ) قَالَ : قُوْلِي : السَّلَامُ عَلٰي أَهلِ الدِّيارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. (رَوَاه مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ).
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبر والدعاء لأهلها.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو : اے مومنو اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بهى تمہیں ملنے والے ہیں۔‘‘
گویا آپ ﷺحضرت عائشہ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعا سکھا رہے ہیں، اگر جانا ممنوع ہوتا تو ایسا ہرگز نہ ہوتا بلکہ آپ ﷺمنع فرماتے.
عَنْ عَبْدِﷲِ بْنِ أبِي مُلَيکَة رضي اﷲ عنهما قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ أبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما بِحُبْشِيٍّ، قَالَ: فَحُمِلَ إِلٰي مَکَّة فَدُفِنَ فِيها فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَة أتَتْ قَبْرَ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرٍ.
حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما کا مقام حبشہ میں انتقال ہوا تو آپ کو مکہ مکرمہ لا کر دفن کیا گیا،جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا آپ کی قبر پر تشریف لائیں.
حضرت عائشہ کا اپنے بھائی کی قبر پر جانا اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل ہے.
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي مَلِيکَة رضي الله عنه أنَّ عَائِشَة رضي اﷲ عنها أقْبَلْتْ ذَاتَ يوْمٍ مِنَ الْمَقَابِرِ، فَقُلْتُ لَها: يا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مِنْ أينَ أقْبَلْتِ؟ قَالَتْ: مِنْ قَبْرِ أخِي عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أبِي بَکْرِ، فَقُلْتُ لَها : ألَيسَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم نَهي عَنْ زِيارَة الْقُبُوْرِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، کَانَ نَهي ثُمَّ أمَرَ بِزِيارِتِها. رَوَاه الْحَاکِمُ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الجنائز، 1 / 532، الرقم : 1392، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 131
’’حضرت عبد اﷲ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لا رہی تهى ں میں نے اُن سے عرض کیا: ا ُم المؤمنین! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمایا: اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر سے، میں نے عرض کیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا : ہاں! پہلے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں رخصت دے دی تهى ۔‘‘ اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أبِيه قَالَ : کَانَتْ فَاطِمَة بِنْتِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تَزُوْرُ قَبْرَ حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة. رَوَاه عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 572، الرقم : 6713، والبيهقي في السنن الکبري،
( 4 / 131، الرقم : 7208)
امام جعفر الصادق اپنے والد گرامی امام محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تهى ں۔اِسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَينِ عَنْ أبِيه أنَّ فَاطِمَة بِنْتَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَتْ تَزُوْرُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَة کُلَّ جُمُعَة فَتُصَلِّي وَتَبْکِي عِنْدَه. رَوَاه الْحَاکِمُ وَالْبَيهقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا الْحَدِيثُ رُوَاتُه عَنْ آخِرِهمْ ثِقَاتٌ.
أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 533، الرقم : 1396، والبيهقي في السنن الکبري، 4 / 78 ، الرقم : 7000، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 137.
حضرت علی بن حسین اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ رضی اﷲ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تهى ں آپ وہاں دعا کرتیں اور گریہ و زاری کرتی تهىں۔
اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔
محدثین اور فقہائے کرام کے اقوال:
امام ترمذی نے تمام روایات کا خوبصورت خلاصہ بیان فرمایا ہے
رَوَاه التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي اﷲ عنهما. وَقَالَ: هذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأي بَعْضُ أهلِ الْعِلْمِ أنَّ هذَا کَانَ قَبْلَ أنْ يرَخِّصَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي زِيارَة الْقُبُوْرِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِه الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَقَالَ بَعْضُهمْ : إِنَّمَا کُرِه زِيارَة الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّة صَبْرِهنَّ وَکَثْرَة جَزَعِهنَّ.
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في کراهية زيارة القبور النساء: 3 / 371)
کہ ممانعت ابتداء سب کیلئے تهى اور اجازت بهى سب کیلئے ہے، البتہ عورتوں میں صبر کی کمی کی بنا پر کچھ علماء ان کے قبرستان جانے کو مکروہ سمجھتے ہیں.
یہی قول علامہ ابن حجر عسقلانی کا بهى ہے
أخرجه ابن حجر عسقلاني في فتح الباري، 3/149
اسی بات کو شارحِ ترمذی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (م 1353ھ) نے تحفۃ الاحوذی (4 : 136) میں نقل کیا ہے
تمام شارحینِ حدیث اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ حصولِ عبرت اور تذکیرِ آخرت کے لئے زیارتِ قبور میں عموم ہے یعنی جس طرح ممانعت عام تهى اسی طرح جب رخصت ملی تو وہ بهى عام ہے۔ البتہ عورتیں چونکہ بے صبر ہوتی ہیں اگر اپنے کسی قریبی عزیز کی قبر پر جاکر اس طرح نوحہ کریں جس سے شریعت نے منع کیا ہے یا قبرستان میں ان کا جانا باعثِ فتنہ اور بے پردگی و بےحیائی کا باعث ہو، محرم ساتھ نہ ہو یا ایسا اجتماع ہو جہاں اختلاطِ مرد و زن ہو تو اس صورت میں عورتوں کا زیارتِ قبور کے لئے جانا بلا شبہ ممنوع ہے۔ اور اگر محرم کے ساتھ باپردہ قبرستان جائے اور وہاں جاکر دعا کرے، تذکیرِ آخرت سامنے ہو تو پھر رخصت ہے.
جمہور احناف کے نزدیک رخصتِ زیارت مرد و عورت دونوں کے لئے ہے
١۔ علامہ ابنِ نجیم حنفی (926۔970ھ) لکھتے ہیں.
وقيل تحرم علي النساء، والأصح أن الرخصة ثابته لهما
(ابن نجيم، البحر الرائق: 2/210)
یہ بهى کہا گیا ہے کہ زیارتِ قبر عورتوں کے لئے حرام ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و زن دونوں کے لئے یکساں ہے۔
٢۔ علامہ ابنِ عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے:
أمّا علي الأصحّ من مذهبنا وهو قول الکرخي وغيره، من أن الرخصة في زيارة القبور ثابتة للرّجال والنّساء جميعًا، فلا إشکال.
(ابن عابدين، رد المحتار علي الدر المختار، 2/626)
’’ ☆احناف کے نزدیک صحیح قول (جو امام کرخی وغیرہ کا ہے وہ) یہ کہ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و زن دونوں کے لئے ثابت ہے جس میں کوئی اشکال نہیں۔‘‘
٣۔ علامہ شرنبلالی (م 1069ھ) لکھتے ہیں:
نُدِبَ زِيارَتُها لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ عَلَي الْأصَحِّ.
(شرنبلالي، نور الإيضاح، فصل في زيارة القبور).
☆ صحیح روایت کے مطابق زیارتِ قبور مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر مستحب ہے۔
٤۔ علامہ طحطاوی (م 1231ھ) مراقی الفلاح کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
وفي السراج: وأمّا النّساء إذا أردن زيارة القبور إن کان ذالک لتجديد الحزن، والبکاء، والندب کما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه يحمل الحديث الصحيح ’’لعن اﷲ زائرات القبور‘‘. وإن کان للاعتبار، والتّرحّم، والتّبرّک بزيارة قبور الصّالحين من غير ما يخالف الشّرع فلا بأس به، إذا کنّ عجائز. وکره ذالک للشّابات، کحضورهن في المساجد للجماعات.
وحاصله أن محل الرخص لهن إذا کانت الزيارة علي وجه ليس فيه فتنة.
والأصحّ أن الرّخصة ثابتة للرّجال والنّساء لأن السّيدة فاطمة رضي اﷲ عنها کانت تزور قبر حمزة کل جمعة وکانت عائشة رضي اﷲ عنها تزور قبر أخيها عبدالرحمٰن بمکة.
کذا ذکره البدر العيني في شرح البخاري.
[حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ( 340، 341)]
حاصل کلام:
یہ ہے کہ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کی گنجائش اس وقت ہے جب اس طریقے سے زیارت قبور کو جائیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، اور صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی رخصت مرد و عورت دونوں کے لئے ثابت ہے.
یہی بات علامہ بدر الدین عینی رحمه اللہ نے “عمدۃ القاری” شرح صحیح بخاری میں لکهى ہے.
کسی خاص دن یا خاص موقعہ پر قبرستان جانا:
کسی مخصوص دن یا کسی خاص موقعے پر قبرستان جانے کے متعلق شریعت بلکل خاموش ہے اور ایسی کوئی مستند صحیح یا ضعیف روایات نہیں ملتیں جن میں خاص دنوں میں اہتمام سے قبرستان جانے کی تاکید ہو.
مثلا: عید کا دن، شب برات، شب معراج یا دس محرم کے دن.
جمعہ کے دن قبرستان جانا:
جمعہ کے دن قبرستان جانے کے بارے میں اگرچہ روایات موجود ہیں لیکن محدثین نے ان روایات کو شدید ضعیف قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض محدثین نے ان پر من گهڑت کا حکم لگایا ہے.
مَن زار قبرَ أبوَيْهِ أو أحدِهما في كلِّ جُمُعةٍ غُفِر له وكُتِب بَرًّا.
– الراوي: أبوهريرة.
– المحدث: الطبراني.
– المصدر: المعجم الأوسط.
– الصفحة أو الرقم: 6/175.
– خلاصة حكم المحدث: لا يروى هذا الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد، تفرد به يحيى بن العلاء محمد بن زكريا الغلاب.
لیکن صحابہ کے عمل سے اسکی تائید معلوم ہوتی ہے جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہر جمعے کو حضرت حمزہ کی قبر پر جاتی تهىں. لہذا اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر جمعے کے دن قبرستان جایا جائے تو شاید اس عمل سے صحابہ کی مطابقت کا اجر حاصل ہو، لیکن دیگر ایام میں جو معمول بنایا گیا ہے اس کی نہ کوئی شرعی دلیل ہے اور نہ ہی یہ عمل سلف میں کسی سے ثابت ہے، بلکہ عوام کے شدید التزام اور ہر عید اور ہر شب برات میں جانے کو لازم قرار دینے کی وجہ سے اس عمل کو بدعت قرار دیا گیا ہے.
شب برات میں آپ ﷺ کا قبرستان جانا:
آپ ﷺسے اپنی پوری حیات طیبہ میں صرف ایک بار شب برات میں قبرستان تشریف لے جانے کا ثبوت ملتا ہے اور اس میں بهى نہ ترغیب ہے اور نہ ہی تداعی ہے، لہذا اگر زندگی میں ایک بار ایسا کرلیا جائے تو شاید اجر حاصل ہو، لیکن اسکو معمول بنانا درست نہیں.
خلاصہ کلام
قبرستان جانا مرد اور خواتین سب کیلئے ایک مستحب عمل ہے، لیکن اس کے لئے شریعت نے کسی مخصوص دن یا وقت کا تعین نہیں کیا ہے. چونکہ یہ مقام آخرت کی یاد دہانی کا ہے، لہذا خواتین بن سنور کر قبرستان جانے سے پرہیز کریں، اسی طرح مردوں کے ہجوم کے دنوں میں جانے سے بهى پرہیز کریں اور صبر اور ضبط کا دامن ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ