جوٹھے پانی کی فضیلت
سوال: ایک روایت مشہور ہورہی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ عاجزی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے مسلمان بھائی کا جوٹھا (یعنی بچا ہوا) پانی پی لے، اور جو اپنے بھائی کا جوٹھا پیتا ہے اس کے ستر(٧٠) درجات بلند کردیئے جاتے ہیں، ستر(٧٠) گناہ مٹادیئے جاتے ہیں اور اس کے لئے ستر(٧٠) نیکیاں لکھی جاتی ہیں. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ مسلمان کا جوٹھا پینے کے متعلق جتنی روایات منقول ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں.
١. پہلی روایت:
سوال میں مذکور روایت کو مختلف محدثین نے نقل کیا ہے اور اس پر غیرصحیح ہونے کا حکم لگایا ہے.
ومثل ذلك حديث: “من التواضع أن يشرب الرجل من سؤر أخيه، ومن شرب من سؤر أخيه رفعت له سبعون درجة، ومحيت عنه سبعون خطيئة وكتبت له سبعون حسنة”.
هذا حديث موضوع، أورده ابن الجوزي في الموضوعات 204/3
نوح بن ابی مریم:
اس روایت کی سند میں ایک راوی نوح بن ابی مریم ہے جس کے بارے میں محدثین کے اقوال کافی سخت ہیں:
یحی بن معین کہتے ہیں: لیس بشئ.
مسلم بن حجاج اور دارقطنی کہتے ہیں: متروك.
ابن حبان کہتے ہیں کہ اس نے سچ کے علاوہ باقی سب کچھ جمع کیا.
امام ذہبی کہتے ہیں: جمع الكمالات الا الصدق.
٢. دوسری روایت:
اس روایت میں یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کے جوٹھے کو تبرکا پیئےگا اللہ رب العزت اس کیلئے ایک فرشتہ پیدا فرمائینگے جو قیامت تک ان دونوں کیلئے استغفار کرتا رہےگا.
“منْ شَرِبَ سُؤْرَ الْمُؤْمِنِ تَبَرُّكاً بِهِ، خَلَقَ اللَّهُ بَيْنَهُمَا مَلَكاً، يَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ”.
هذه الرواية مرسلة.
یہ روایت شیعوں کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں جہاں بھی اس کا تذکرہ ہے وہاں موضوع (یعنی من گھڑت) روایات میں اس کو شمار کیا گیا ہے.
٣. تیسری روایت:
مؤمن کے جوٹھے میں شفا ہے.
حديث: “سؤر المؤمن شفاء.”
اس روایت کو تمام محدثین نے بالاتفاق موضوع قرار دیا ہے، اور بعض محدثین نے یہ اضافہ کیا ہے کہ مؤمن کی تھوک میں شفا ہے، یہ دونوں الفاظ درست نہیں.
قال النجم: ليس بحديث، ورد بلفظ: “ريق المؤمن شفاء”. (رواہ العجلونی فی کشف الخفاء، ص:458 عن نجم الدین الغزی).
وأما ما يتداوله الناس من قول منسوب للنبي صلى الله عليه وسلم وهو: “سؤر المؤمن شفاء”، فليس بحديث.
قال العلامة القاري: ليس له أصل مرفوع. (المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، ص:106).
وقال الحافظ العراقي: هكذا اشتهر على الألسنة، ولا أصل له بهذا اللفظ.
وقال العلامة الألباني عن الحديث السابق: لا أصل له.
– سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 1/105
– المقاصد الحسنة للسخاوي، ص:231
٤. چوتھی روایت:
مسلمان کے جوٹھے میں ستر(٧٠) بیماریوں کا علاج ہے.
صحيحة عبدالله بن سنان، قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: “فِي سُؤْرِ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ مِنْ سَبْعِينَ دَاء”، وهذه هي الرواية العمدة في الموضوع، والتي على أساسها أفتى العلماء (ای العلماء الشیعة) باستحباب سؤر المؤمن.
یہ روایت شیعہ کی کتب میں ان کی اپنی سند صحیح کے ساتھ موجود ہے لیکن اہل سنت کے نزدیک ان روایات کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ من گھڑت روایات ہیں.
٥. پانچویں روایت:
مسلمان کے وضو کا بچا ہوا پانی پینے میں ستر(٧٠) بیماریوں کا علاج ہے جس میں سے سب سے کم (درجے کی بیماری) غم ہے.
وجماعة من أصحاب النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُونَ: سَمِعنا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «الشُّربُ مِن فَضلِ وُضُوءِ المُؤمِنِ فِيهِ شِفاءٌ مِن سَبعِينَ داءً أَدناهُمُ الهَمُّ».
محمد بن محصن الاسدی العكاشي:
اس روایت میں ایک راوی ہے محمد بن محصن الاسدی العكاشي ہے.
١. یحیی بن معین کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.
قال يَحيَى بن مَعِينٍ: العُكاشِيُّ كَذابٌ.
٢. ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ اوزاعی سے جھوٹی اور من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
وقال ابن عَدِيٍّ: يَروِي عَن الأَوزاعِيِّ أحاديث مَناكِيرَ مَوضُوعَةً.
خلاصہ کلام
اس باب میں جتنی بھی روایات منقول ہیں یہ سب سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کو آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف منسوب کرنا یا پھیلانا ہرگز درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ